0
Saturday 11 Feb 2017 01:05

اسلامی انقلاب اور امام خمینی کی اخلاقی سیاست

اسلامی انقلاب اور امام خمینی کی اخلاقی سیاست
تحریر: سید رمیز الحسن موسوی
(نورالھدیٰ مرکز تحقیقات،اسلام آباد)


ہماری معاصر تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی واقعہ ایران کا اسلامی انقلاب ہے، جس کی ان دنوں 38ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس انقلاب سے پوری دنیا بالخصوص اسلامی دنیا پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے ہیں، جن کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ ابھی تک اس انقلاب کے بانی امام خمینی (رہ) کی سیاست کے مبانی سے پوری دنیا کے سیاسی اعداد و شمار میں تحول برپا ہے اور جن سیاسی اصولوں کے تحت امام نے اپنے دور کی سامراجی قوتوں کو شکست دی ہے، ہر قوم و ملک کا انصاف پسند انسان اپنے سیاسی رہنماؤں سے اُن کو اپنانے کی توقع کر رہا ہے۔ ہمارے ملک میں سماجی ناانصافیوں سے تنگ اور روایتی سیاستدانوں سے اُکتائے ہوئے عوام ایک عرصے تک یہ فقرہ دہراتے ہوئے نظر آتے تھے کہ خدا کسی خمینی کو اس ملک میں پیدا کر دے۔ یہ ہماری عوام کے دل کی آواز تھی، جس کو متعصب مسلکی پروپیگنڈے کے ذریعے دبانے کی سعی عرصہ دراز سے جاری ہے اور یہ سعی کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے، لیکن امام خمینی کا سیاسی نظریہ اور طرز سیاست ابھی بھی قابل مطالعہ ہے۔ جوں جوں دنیا میں معاشرتی بے انصافی بڑھتی جا رہی ہے تو اس اجتماعی بے انصافی کے علمبرداروں کے ہاتھوں ستائی ہوئی انسانیت اپنے اردگرد امام خمینی کی سیاست کو تلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہے، لیکن عالمی سطح پر پروپیگنڈے کے سیاہ سائے میں اُسے خمینی کا نام تو کہیں نظر نہیں آتا، لیکن خمینی کی اخلاقی سیاست کی یاد ضرور ستاتی ہے۔

امام خمینی نے اسلامی انقلاب کے دوران جس سیاست کو رائج کرنے کی سعی کی ہے، وہ سیاست کے میدان میں اُن کی اپنی جدت پسندی نہیں تھی، بلکہ یہ اُسی سیاست کا احیا تھا، جس کی بنیاد آج سے پندرہ صدیوں پہلے سرزمیں حجاز پر یتیم عبداللہ (ص) نے رکھی تھی، جس کی آبیاری قرآنی آیات سے ہوئی تھی اور جس پر عمل کرکے حضور پاک (ص) نے حجاز مقدس کی خشک زمین پر اخلاقیات کے بلند و بالا مینار کھڑے کئے تھے۔ امام خمینی درحقیقت اسی حجازی سیاست کے امین تھے، جس کی بنیاد صداقت و امانت پر رکھی گئی تھی۔ اس وقت پوری دنیا سیاسی بے انصافیوں کے پرتلاطم طوفانوں سے دوچار اور ان کی وجہ سے تباہی و بربادی کے کنارے کھڑی ہے، پوری دنیا میں بے انصاف سیاست کے علمبردار اس فرعونی سیاست کو زندہ رکھنے کے لئے ہر قسم کے ظلم و ستم کو روا رکھے ہوئے ہیں، شام ہو یا عراق، فلسطین ہو یا یمن، پاکستان ہو یا افغانستان، حتٰی یورپ و امریکہ کے وہ سرد گلی کوچے کہ جن میں بے انصاف سیاست کی ماری ہوئی انسانیت تڑپ رہی ہے۔ ایسے میں سرزمین ایران پر سسکتی ہوئی انسانیت کو سامراجی بے انصافی سے نجات دلانے والے خمینی کو ہر انصاف پسند انسان نے یاد رکھا ہوا ہے کہ جس نے حجاز مقدس کے بے انصاف معاشرے میں وحی الہٰی کے سائے میں پروان چڑھنے والی سیاست کو ظالمانہ شہنشاہیت کے مقابلے کے لئے زندہ کیا تھا۔

وہ شہنشاہیت کے جس کے ایک کارندے نے امام خمینی سے کہا تھا: ’’حضرت آیت اللہ! یہ سیاست ایک گندہ مشغلہ ہے، جو آپ جیسے مقدس لوگوں کو زیب نہیں دیتا، اسے ہمارے جیسے بدکرداروں کے لئے چھوڑ دیں۔‘‘ لیکن امام خمینی نے پوری دنیا پر ثابت کیا کہ سیاست ایک مقدس فریضہ ہے، جسے تمام انبیائے الہٰی نے اپنایا ہے اور جس کے ذریعے انسانیت کی خدمت کی ہے۔ سیاست کو گندے انسان ہی گندا کرتے ہیں، لیکن جب یہ مقدس اور باکردار لوگوں کے ذریعے انجام پاتی ہے تو مقدس فریضہ بن جاتی ہے۔ سیاست کو آلودہ اور گندہ، اُس پروپیگنڈے نے کیا ہے، جو عالمی سامراجی کارندوں کے ذریعے انسانوں کے اذہان میں ڈالا گیا ہے، ورنہ خود سیاست ایک بافضیلت اور مقدس فریضہ ہے، جس کو انسانی معاشروں کی خدمت کے لئے اپنانا، ہر فرض شناس انسان کی ذمہ داری ہے۔ امام خمینی نے انقلاب اسلامی کے ذریعے جس اخلاقی اور مقدس سیاست کو احیاء کیا ہے، اس کا مطالعہ آج کے انسان کے لئے ضروری ہے، خصوصاً ہمارے پاکستان کے اُن عوام کے لئے کہ جنہیں اس وقت، اس بے انصاف سیاست سے نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ امام خمینی کی اخلاقی سیاست کو سمجھنے کے لئے اور سیاست کو آلودہ اور گندگی قرار دینے والے دانشوروں کی سوچ کو غلط ثابت کرنے کے لئے ہمارے لئے امام خمینی جیسے دینی سیاست مداروں کے سیاسی نظریہ کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

کوڈے(Coady) ’’سیاست اور آلودہ ہاتھ‘‘ کے عنوان سے ایک مقالے میں اس تلخ حقیقت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ سیاست، پرہیزگاری اور پاکیزگی اختیار کرنے کے ساتھ سازگار نہیں۔ لہذا جو بھی سیاست کے میدان میں داخل ہونا چاہتا ہے، اسے بدنامی، پستی، بدکرداری اور ہر قسم کی آلودگی کے خطرات کو قبول کرنا چاہئے، کیونکہ سیاست اور انسانی حالات کا یہی تقاضا ہے اور ’’اگر یہ (سیاست) ہاتھ آلودہ کرنے کے معنی میں ہے تو یہ فقط انسانی حالات کی وجہ سے ہے‘‘ اور اس سے فرار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن امام خمینی اس مسئلہ کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ سیاست، اخلاقی بھی ہوسکتی ہے اور اسے اخلاقی ہونا بھی چاہئے، کیونکہ سیاست معاشرے کے وسیع شعبہ ہائے حیات میں اخلاقی وسعتوں کے پھیلاؤ اور دینی مقاصد و آرزؤں کی عملی شکل کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ لہذا امام خمینی کے نزدیک سیاست اور اخلاق ایک ہی چیز ہے اور اس بات کے اثبات کیلئے وہ چند نکات پیش کرتے ہیں کہ جنہیں ذیل میں چند عناوین کے تحت پیش کیا جا رہا ہے۔

الف): اسلام کی جامعیت
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انسان متعدد وجودی وسعتوں کا حامل ہے اور اسے چاہئے کہ وہ ان سب کی پرورش کرکے انہیں رشد و کمال تک پہنچائے۔ اسی حقیقت کی خاطر تمام الٰہی ادیان خصوصاً دین اسلام کا ظہور ہوا اور وہ ہستی کہ جس کے دست قدرت میں پوری کائنات کی زمام اختیار ہے، اس نے انسانی ضروریات سے آگاہی کی بنا پر ہر زمانے میں ایک جامع دین نازل کیا ہے، تاکہ انسان اپنے مقصد کمال پر فائز ہوسکے۔ امام خمینی کے بقول: ’’انسان ایک ایسا مجموعہ ہے کہ جسے ہر چیز کی ضرورت ہے۔ انبیاء کرام انسان کی انہی ضروریات کو بیان کرنے کیلئے آئے ہیں۔ اگر انسان ان پرعمل کرے تو کمال سعادت تک پہنچ سکتا ہے۔‘‘ لہذا تمام ادیان اپنے اپنے زمانے میں جامعیت کے حامل تھے اور سب انبیاء نے ہر اس چیز کو بیان کیا ہے، جس کی لوگوں کو ضرورت تھی: ’’ انبیائے کرام نے روح، عقلی مقامات اور غیبی مراکز سے تعلّق رکھنے والی تمام چیزوں کو ہمارے لئے بیان کردیا ہے۔" لہذا ہر دین اپنے اپنے زمانے میں جامعیت کا حامل رہا ہے، یہاں تک کہ ہم دین اسلام تک جا پہنچتے ہیں کہ جو ابراہیمی ادیان کی پیشرفتہ شکل اور کمال ہے، اس دین میں بھی انسان کی تمام ضروریات کو مدنظر رکھا گیا ہے اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے راستے بھی معین کر دیئے گئے ہیں۔

’’انسان کے تکامل اور پیشرفت میں داخل چیزوں اور ان کے شخصی فرائض کو بھی کتاب و سنّت میں بیان کیا گیا ہے اور ان چیزوں کو بھی بیان فرمایا گیا ہے جو اجتماعیات، سیاسیاست اور معاشرے کی نظم وتربیت سے تعلّق رکھتی ہیں۔‘‘ اسی لئے ’’ہمارے پاس ایک ایسی کتاب ہے کہ جس میں شخصی، اجتماعی، سیاسی اور مملکت سے متعلق ہر قسم کے فوائد موجود ہیں‘‘۔ اسلام کی جامعیت اور اس کی وسعت کو کم کرنے کے بارے میں معمولی سا شک وشبہ، اصل اسلام کی نفی کے مترادف ہے۔ جو لوگ اسلام کو ان چند چیزوں میں محدود کرتے ہیں کہ انسان فقط کھائے پیئے سوئے، نماز روزہ کرے اور قوم وملت اور معاشرے کی مشکلات میں دلچسپی نہ لیں تو رسول اکرم (ص) کی روایت کے مطابق ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں۔یہاں امام خمینی ؒ رسول خدا (ص)  کے اس فرمان کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ جس کے مطابق آپ (ص) نے فرمایا: (من اصبح ولم یہتم بامور المسلمین فلیس بمسلم) جو شخص بھی ایسی حالت میں صبح کرے کہ اس نے مسلمانوں کے کسی مسئلہ کو اہمیت نہ دی ہو تو وہ مسلمان نہیں۔ امام خمینی کی نظر میں اسلام فقط روحانی اور فردی ضروریات ہی کی طرف توجہ دینے والا دین نہیں، بلکہ اسلام انسان کیلئے کہ جو تمام چیزوں کا مجموعہ، یعنی عالم طبیعت سے ماورائے طبیعت وعالم الٰہیات تک کا نظریہ اور لائحہ عمل رکھتا ہے۔ اسلام کا یہ لائحہ عمل انسانی زندگی کے تمام امور پر مشتمل ہے: ’’اسلام میں انسان کی پوری زندگی کیلئے یعنی پیدائش کے دن سے لے کر موت کے بعد قبر میں داخل ہونے تک کے احکام اور دستورات موجود ہیں۔‘‘

ب): سیاست کا مفہوم اور اقتدار کی اہمیت

سیاست ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں سے تعلّق رکھتی ہے اور یہ بات اس قدر واضح اور روشن ہے کہ جس کا انکار کرنا ناممکن ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقتِ سیاست کیا ہے؟ اس سلسلے میں سیاست کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں۔ ان میں ایک چیز مسلّم ہے وہ یہ کہ حصول اقتدار اور اقتدار کیلئے جدوجہد کو سیاست کہتے ہیں لہذا حکومت کرنے اور اپنا حکم نافذ کرنے کا معنی سیاست ہے۔ اگر سیاست کا یہ مطلب ہو تو اس سے گریز نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے اپنانا چاہئے، کیونکہ اجتماعی حفظان صحت اور معاشرے کی سلامتی کا لازمہ اقتدار اور قدرت ہے جبکہ اقتدار کا حصول سیاست سے مربوط ہے۔ امام خمینی کہتے ہیں: آخر سیاست کس چیز کو کہتے ہیں؟ یہی حاکم اور رعایا کے درمیان روابط حاکم اور دوسری حکومتوں کے درمیان تعلّقات اور مفاسد اور بگاڑ کی روک تھام ہی تو سیاست ہے۔ اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ اگر یہی سیاست ہو اور فتنہ وفساد کی روک تھام ہی سیاست شمار ہو تو پھر اسلام بھی سیاست ہے، کیونکہ اسلام، نیکی اور اچھائی پھیلانا چاہتا ہے اور برائی کا انسداد چاہتا ہے۔ لہذا امام خمینی اسلام کا تعارف یوں کراتے ہیں: ’’حکمرانی اور اس کے امور و احکام کا نام اسلام ہے۔‘‘ انبیائے کرام اوراُن کے جانشین بھی اسی قسم کی سیاست میں مصروف تھے: ’’ پیغمبر اکرم (ص) کا کونسا ایسا دن تھا جو سیاست سے خالی تھا؟ آپ (ص) نے حکومت بنائی، اسلام کے مخالف افراد کہ جو عوام پر ظلم وستم کررہے تھے، ان کے خلاف جنگ اور جدوجہد کی۔

نہ فقط رسول اکرم (ص) اس قسم کی سیاست پر عامل تھے، بلکہ دوسرے تمام انبیاء بھی اس قسم کا سیاسی چہرہ رکھتے تھے، چونکہ لوگوں کی مصلحتوں اور ضروریات کو پورا کرنے کا نام سیاست ہے لہذا انبیائے کرام (ص) اس فریضہ کو بطور احسن انجام دیتے رہے ہیں: ’’سیاست یہ ہے کہ معاشرے کی ہدایت اور راہنمائی کی جائے، معاشرے کی تمام مصلحتوں کو مدنظر رکھا جائے، معاشرے اور انسان کے تمام پہلوؤں کو دیکھا جائے اور ان کی اس چیز کی طرف ہدایت کی جائے کہ جو ان کے فائدہ میں ہے جس میں قوم وملت کی مصلحت ہے اور یہ کام انبیائے کرام سے مخصوص تھا‘‘۔ اس معنی میں سیاست تمام انبیاء کی حرکت کا اصلی محور رہی ہے اور کسی بھی دین کو اس سے لاتعلّق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بہرحال، سیاست کا بنیادی عنصر قدرت ہے کہ جو ایک خوفناک چیز ہے۔ جو انسان کو اغواء بھی کرتی ہے اور اسے بھڑکاتی بھی ہے، کیونکہ قدرت اور اقتدار کا کام ہی انسان کو بگاڑنا ہے۔ جو شخص قدرت اور طاقت کا احساس کرنے لگتا ہے وہ طغیانی پر اتر آتا ہے اور اپنے آپ اور اپنی زندگی کی حیثیت کو بھول جاتا ہے اور خدائیت کا دعویٰ کرنے لگتا ہے۔ فرعون کا قصہ محض ایک تاریخی داستان نہیں، بلکہ ہم میں سے جس کے اندر بھی فرعونیت پائی جاتی ہے وہ مناسب موقع و محل کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ اپنی خدائی کا اعلان کرسکے۔ فرانس کا سابقہ صدر، فرانسو میتران کہ جس نے ایک عمر اقتدار اور حصول اقتدار میں گزاری ہے وہ اس بارے میں کہتا ہے: ’’میرے خیال میں قدرت اور اقتدار جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ ہمیشہ اس سے خوفزدہ رہتا ہے ہم نہیں کہتے کہ اسے ڈرنا چاہئے لیکن اسے غیر معمولی انداز میں اپنی اور اس سلسلے میں اپنے وسیع کردار کی حفاظت کرنی چاہئے۔‘‘

اقتدار زیادہ طلب کرنے کا نام ہے اور کسی ایک حد پر نہیں ٹھہرتا اگر اقتدار طلبی کی خواہش کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھر اس کے پھیلاؤ اور زیادہ روی کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی لئے بہت سے افراد خصوصاً عرفاء اقتدار کی اس تباہ کنندہ خصوصیت کی وجہ سے اس سے سخت خوفزدہ رہتے تھے اور اس سے فرار کرتے تھے۔ ’’کی یویو ‘‘ نامی ایک چینی زاہد کا یہ قصہ، اس خوف اور ہراس کو بخوبی واضح کرتا ہے جس کے مطابق ایک دن قدیم چین کے کسی بادشاہ نے "کی یویو" نامی ایک استاد سے کہا: آپ بہت ہی عظیم انسان ہیں، میں اپنی موت کے بعد بادشاہت آپ کو دینا چاہتا ہوں۔ کیا آپ اسے قبول کرتے ہیں؟ "کی یویو" بہت پریشان ہوا اور اس نے فقط یہ جواب دیا: ’’ تمہارے ان کلمات نے میرے کانوں کو آلودہ کردیا ہے۔" اور پھر وہ اٹھ کر چلا گیا، تاکہ نزدیک ہی بہنے والے دریا میں، اپنے کانوں کو دھو سکے۔ وہ چلتے ہوئے اپنے آپ سے کہہ رہا تھا: ’’میں نے آج ناپاک کلمات سنے ہیں۔‘‘ اس کا دوست اپنی گائے کے ہمراہ دریا کے کنارے اس سے ملا اور اس نے اس سے پوچھا: ’’تم اپنے کانوں کو کیوں دھو رہے ہو؟‘‘ کی یویو نے کہا: ’’آج میں بہت پریشان ہوں، بادشاہ مجھے اپنا جانشین بنانا چاہتا ہے۔ اس نے مجھے بادشاہت کی پیشکش کی ہے اور میرے کان ان کلمات سے آلودہ ہوگئے ہیں۔ لہذا میں انہیں دھو رہا ہوں۔ اس کے دوست نے کہا: میں اپنی گائے کو لایا تھا کہ وہ اس پاک اور شفاف پانی کو پیئے، لیکن اب یہ پانی بھی گندا ہوچکا ہے۔

قدرت اور اقتدار جیسے الفاظ، ہمارے عرفاء کے نزدیک اکثر منفی مفہوم رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اقتدار سے بچنا ہی اس کی لگام کھینچنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے انسانوں کی نفسیات کے مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بہت کم لوگ اقتدار کے وسوسوں کے سامنے استقامت دکھا سکتے ہیں اور اس میں گرفتار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ مولانا رومی نے بطور تمثیل ایک داستان لکھی ہے کہ جو اس بات پر شاہد ہے۔ ایک سپیرا کسی سانپ کو پکڑنے کیلئے ایک سرد علاقے میں گیا۔ وہاں اسے ایک خوفناک اژدہا ملتا ہے لیکن جو مرا ہوا تھا۔ وہ اسے بہت ہی زحمت اور مشکل کے ساتھ بغداد لے آتا ہے جو کہ ایک گرم علاقہ ہے۔ وہاں وہ اس کے ذریعے تماشے کا بازار گرم کرتا ہے۔ عراق کے تپتے سورج کی شعاعیں جب اژدہا پر پڑتی ہیں تو وہ آہستہ آہستہ زندہ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور جب پوری طرح اس میں جان پڑی جاتی ہے تو وہ سپیرے اور تماشائیوں پر حملہ کردیتا ہے اور انہیں نگل لیتا ہے۔ اس کے بعد مولانا رومی اس داستان سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہر انسان کے اندر ایک اژدہا مردہ حالت میں موجود ہوتا ہے اور جونہی اسے قدرت وثروت کی گرمی پہنچتی ہے وہ انسان کو تباہ کردیتا ہے۔

بقول امام خمینی: ’’ہٹلر جیسی حالت اور اقتدار کا جنون ہر شخص کے مغز میں موجود ہوتا ہے’’ ہٹلر، پوری انسانیت کو ختم کرکے، خود جرمنی کے اقتدار پر باقی رہنے کیلئے تیار تھا۔ اعلیٰ نسل پرستی اور اسی قسم کی چیزیں کہ جو ہٹلر کے ذہن پر سوار تھیں، وہی آپ سب کے ذہن میں بھی ہیں۔ لیکن آپ ان سے غافل ہیں‘‘۔کیا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اقتدار ذاتاً ایک بری چیز ہے۔؟ ان لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ قدرت، لالچ وحرص، حق تلفی اور طغیانی جیسے برے اثرات رکھتی ہے لہذا اس سے مکمل طورپر کنارہ کشی ہی کرلینی چاہئے۔ اس نظریے کی ترویج بہت سے عرفا اور صوفیا کرتے رہے ہیں اور یہی چیز اسلامی معاشروں کے انحطاط کے علل واسباب میں سے شمار ہوتی ہے۔ لیکن اگر پرخوری اور حد سے زیادہ کھانا، برے نتائج کا حامل ہے تو کیا ہمیں مطلقاً کھانا پینا ہی چھوڑ دینا چاہئے؟ اگر زیادہ مال ودولت سے انسان خراب ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان بالکل مال ودولت حاصل ہی نہ کرے۔ جس طرح ہم نے جبلّیات کی بحث میں کہا ہے کہ جبلّیات اور خواہشات کے خلاف جنگ کا مقصد یہ نہیں کہ انسان انہیں ختم کرڈالے، بلکہ ان کو معتدل کرکے ان کا صحیح استعمال کرنا چاہئے۔ اقتدار کے سلسلے میں بھی یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ اقتدار کے نقصانات سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ انسان اقتدار کو بالکل چھوڑ دے، بلکہ اقتدار کی آفات اور نقصانات کو پہچاننا چاہئے اور ان کی روک تھام کرنی چاہئے۔ صدر میتران جہاں اقتدار کے خطرات سے آگاہ کرتا ہے وہاں اس کا راہ حل بھی بتاتا ہے کہ اسے کنٹرول کیا جائے اور اس کی درست سمت میں راہنمائی کرکے اقتدار مخالف چیزوں کو تلاش کرنا چاہئے: ’’ جس کے ہاتھ میں اقتدار ہے، اگر وہ عقلمند شخص ہے تو وہ اقتدار مخالف چیزوں کی تلاش شروع کر دے گا۔"

یہ اقتدار مخالف چیز، اقتدار میں زیادہ روی کو روکنا اور صاحب اقتدار کو بگڑنے سے بچانا ہے۔ یہ مخالف اقتدار چیز انسان کے اندر بھی ہوسکتی ہے کہ جسے وجدان کہتے ہیں۔ بقول میتران: ’’میرا بعض اقتدار فقط میرے وجدان سے تعلّق رکھتا ہے۔‘‘ لیکن فقط اسی اقتدار مخالف چیز پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے، بلکہ ’’معاشرے کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے اداروں کی حدود میں رہتے ہوئے اس قسم کی اقتدار مخالف، رکاوٹیں ایجاد کرے‘‘۔دوسرے الفاظ میں، قدرت اور اقتدار تقسیم کرنے والی مشینری، عوامی شرکت اور نظارتی اداروں کے ذریعے اقتدار اور قدرت کو کنٹرول کیا جائے اس کے باوجود ان دونوں اقتدار مخالف ذریعوں میں سے بظاہر اندرونی ذریعہ زیادہ بہتر ہے، کیونکہ بعض اوقات صاحب اقتدار شخص ایسے قدرتمند مقام تک جا پہنچتا ہے کہ جہاں سے وہ تمام اجتماعی اقتدار مخالف قوتوں کو بے اثر کرسکتا ہے۔ اس وقت فقط اس کے اندر موجود وجدان ہی اسے کنٹرول کرسکتا ہے‘‘۔ بنابریں، ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ حقیقی قدرت وہ ہے کہ جو انسان اپنے اوپر استعمال کرتا ہے۔ اور یہ نکتہ اسلامی اخلاق اور عرفان کے مسلّمات میں سے شمار ہوتا ہے۔ فقط تہذیب نفس اور اپنے اوپر تسلّط کے ذریعے ہی اقتدار کے خطرات سے بچا جاسکتا ہے اور ہم اسے درست استعمال کرسکتے ہیں۔

امام خمینی کے نزدیک قدرت ایک کمالی صفت ہے اور خداوند متعال اس صفت سے بطور مطلق بہرہ مند ہے: ’’ قدرت، خود ایک کمال ہے۔ خداوند تبارک وتعالیٰ، قادر مطلق ہے‘‘۔ لہذا قدرت سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اسے سمجھنا چاہئے اور اسے اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے۔ امام خمینی کی نظر میں، قدرت سے درست طورپر بہرہ مند ہونے کا راستہ تہذیب نفس ہے۔ لہذا امام خمینی کا نظریہ ہے کہ اگر قدرت اور اقتدار بے تقویٰ اور غیر مہذب افراد کے ہاتھ میں چلا جائے تو خطرناک ہوجاتا ہے۔ ’’اور اگر یہ قدرت فاسد افراد کے ہاتھ لگ جائے تو یہی کمال انہیں فتنہ وفساد میں ڈال دیتا ہے‘‘۔ بہرحال: ’’دنیا میں جتنی بھی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ سب خودپسندی، جاہ طلبی، اقتدار پسندی اور مال پرستی وغیرہ کا نتیجہ ہیں اور ان سب کی بازگشت، حبّ نفس کی طرف ہوتی ہے۔ یہ ’’ بت ‘‘ سب سے بڑا ہے اور اسے توڑنا بھی بہت مشکل کام ہے‘‘۔ چنانچہ امام خمینی کے مکتب فکر میں قدرت کوئی ڈرنے کی چیز نہیں اور نہ ہی اس سے فرار کرنا چاہئے، بلکہ اسے درست انداز میں استعمال کرنا چاہئے اور اس کی تہذیب وپرورش اور اس کی اضافی شاخوں کی کانٹ چھانٹ کے ذریعے اسے ایک جگہ پر متمرکز اور مطلق العنان ہونے سے روکنا چاہئے۔

ج): اسلام کی عملی شکل کا لازمہ، سیاست ہے

امام خمینی ایک ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے کہ جب اغیار کے وسیع پروپیگنڈے اور اپنوں کے غلط اعمال کے نتیجے میں اذہان میں اسلام اور اس کی کارکردگی کے بارے میں بہت سے اہم شکوک وشبہات پیدا ہوچکے تھے۔ انہی شبہات میں سے ایک، اسلام اور سیاست کے تعلّق اور سیاست کے سلسلے میں علماء کی ذمہ داری کا مسئلہ ہے۔ ان شکوک وشبہات کے نتیجے میں، دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ غالب ہورہا تھا کہ جس کے امام خمینی بہت شدید مخالف تھے اور اسے استعماری سازش قرار دیتے تھے۔ وہ ہر جگہ سیاست میں اسلام کے کردار اور اسلام وسیاست کے ایک دوسرے سے جدا نہ ہونےکی بات کرتے تھے اور سیاست میں دخالت ہر مسلمان کا فریضہ جانتے تھے۔ انہوں نے شاہی حکومت کی انٹیلی جنس کے سربراہ ’’پاکروان ‘‘ کا قصہ کئی دفعہ بیان کیا تھا کہ جس میں اس نے سیاست کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ علماء کو اس ’’ بدمعاشی‘‘ سے بچنا چاہئے۔ امام خمینی فرماتے تھے کہ یہ انہی استعماری منصوبوں کا نتیجہ ہے کہ افسوس کے ساتھ جس پر ہمارے بہت سے دینداروں کا بھی اعتقاد ہےحتی کہ ہماری دینی ثقافت میں ’’ سیاسی مُلا ‘‘ ایک طنز اور گالی کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ ’’جب کسی مولانا کا عیب بیان کرنا مقصود ہوتا تو کہا جاتا: فلاں سیاسی مُلا ہے۔‘‘ حالانکہ اگر اسلام کے اجتماعی احکام کو نکال دیا جائے تو اس دین مبین میں سے سوائے بے روح جسد کے اور کچھ باقی نہیں رہتا۔

اسلام کا ایک بڑا حصہ، اجتماعیات پرمشتمل ہے اور اس کا اجراء کرنا بھی اقتدار اور حاکمیت کے ساتھ تعلّق رکھتا ہے۔ لہذا اسلام کو ہم ایک فردی دین اور لوگوں کی خصوصی زندگی سے مخصوص مذہب نہیں قرار دے سکتے۔ دین کو سیاست سے جدا کرنے کی بات یا تو اصل دین کے بارے میں کج فہمی کا نتیجہ ہے یا بدخواہوں کے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔ اگر انسان ایک اجتماعی اور سیاسی مخلوق ہے اور اگر ہم دین اسلام کی جامعیت کے بھی قائل ہوں کہ جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پرمشتمل ہے تو ان سب باتوں کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دین ہرگز سیاست سے جدا نہیں ہوسکتا۔ پس سیاست سے دین کی جدائی کی بحث ایک مشکوک بحث ہے: ’’اس بات کو استعمار نے پھیلایا ہے کہ دیانت کو سیاست سے جدا ہونا چاہئے اور علمائے اسلام کو اجتماعی وسیاسی امور میں دخالت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ سب بے دین افراد کا پروپیگنڈا ہے۔ کیا زمانۂ پیغمبر(ص) میں سیاست دین سے جدا تھی؟ کیا اس زمانے میں بھی ایک گروہ علما کا تھا اور دوسرا سیاستدانوں اور حکمرانوں کا؟ کیا خلفا کے زمانہ خلافت میں سیاست دیانت سے جدا تھی؟ آیا اس وقت دو نظام تھے؟ یہ سب باتیں استعمار اور ان کے کارندوں نے پھیلائی ہیں تاکہ دین کو دنیوی امور اور مسلمانوں کے معاشرتی مسائل سے دور رکھ سکیں۔‘‘ امام خمینی کے نزدیک ‘‘ اسلام ایک ایسا مکتب ہے کہ جو غیر توحیدی مکاتب کے برعکس تمام فردی واجتماعی، مادی ومعنوی، ثقافتی وسیاسی اور فوجی واقتصادی مسائل میں دخالت اور نظارت رکھتا ہے اور اس (دین) میں کسی ایسے چھوٹے چھوٹے نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا جو انسان اور معاشرے کی تربیت اور مادی ومعنوی ترقی میں کردار ادا کرسکتا ہو۔‘‘

پس جو شخص ان دونوں میں جدائی کی بات کرتا ہے وہ درحقیقت نہ دین کی حقیقت سے آگاہ ہے اور نہ ہی سیاست کے مفہوم کو جانتا ہے۔ ’’ہمیں سیاست سے کیا مطلب‘‘ کا معنی یہ ہے کہ اسلام کو بالکل فراموش کردینا چاہئے، اسلام کو چھوڑ دینا چاہئے اور اسلام کو (مدارس) کے حجروں میں دفن کردینا چاہئے۔ یہ ہماری کتابیں دفن ہوجانی چاہئیں‘‘۔ امام خمینی کے نزدیک ’’ اسلام کی اساس ہی سیاست ہے‘‘۔ اور ’’رسول اﷲ ﷺنے سیاست کی بنیاد دیانت پر رکھی ہے۔ صدر اسلام اور زمانہ پیغمبر (ص) سے لے کر جب تک انحراف پیدا نہیں ہوا تھا، سیاست اور دیانت ایک ساتھ تھے۔ امام خمینی کی یہ باتیں بارہا تکرار ہوئی ہیں، خصوصاً اس مفہوم اور تعریف کے ساتھ کہ جس کے وہ سیاست کے بارے میں قائل تھے اور اس کے مطابق، یہ باتیں قابل فہم بھی ہیں اور قابل قبول بھی۔ جیسا کہ پہلے بھی گزرچکا ہے کہ امام خمینی کے نزدیک ’’سیاست، معاشرے کی ہدایت وراہنمائی کرنے اور معاشرے کی مصلحت کو اور انسانوں اور معاشرے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کا نام ہے۔ ان کی اس چیز کی طرف راہنمائی کرنے کا نام سیاست ہے کہ جس میں ان لوگوں اور قوم وملت کی مصلحت ہے اور یہی چیز انبیاء سے مخصوص ہے‘‘۔ اس نظریہ کے مطابق اسلام کے تمام احکام و قوانین سیاسی جلوۂ لئے ہوئے ہیں۔ دین اسلام، ایک سیاسی دین ہے۔ ایک ایسا دین ہے کہ جس کا سب کچھ سیاسی ہے حتی اس کی عبادت بھی سیاسی ہے‘‘۔ حتی اس نگاہ سے دیکھیں تو ’’اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔‘‘

د): اسلام میں اخلاق اور سیاست کا ایک ہونا

امام خمینی کی نظر میں اگر انسان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ شہوات کا قیدی اور مادی ضروریات کا اسیر بن جائے گا اور پھر اس کی معنوی تربیت اور پرورش کسی بھی تربیتی اور سیاسی مکتب میں نہیں ہوسکے گی۔ جبکہ ہر چیز کی بنیاد معنویت اور روحانیت ہے اور انسان کے اس پہلو کی اصلاح اور پرورش سے اس کی تمام دوسری مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ امام خمینی کی نظر میں، موجودہ دنیا کی سب سے بڑی مشکل اخلاقی مشکل ہے۔ اگر یہ مشکل حل نہ ہوسکی تو دنیا پستیوں کی طرف گرنا شروع ہوجائے گی ’’ دنیا کو جس چیز سے خطرہ ہے وہ اسلحہ، سنگینیں اور میزائیل وغیرہ نہیں ہیں، بلکہ وہ چیز ہے کہ جو ان ممالک اور انسانوں کو زوال وہلاکت کی طرف لے جا رہی ہے اور یہ زوال وانحطاط ہے جو ان ممالک کے سربراہوں اور ان حکومتوں کے کارندوں کے اخلاقی انحطاط کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے‘‘۔ امام خمینی کی نظر میں ’’اسلام، مادی مکتب نہیں، بلکہ ایک مادی اور معنوی مکتب ہے۔ اسلام انسان کی تہذیب وتربیت کیلئے آیا ہے اور اسلام اور تمام انبیاء کا مقصد انسانوں کی تربیت کرنا ہے‘‘۔پس اس بنا پر ہر سیاسی عمل کا سرچشمہ، اخلاق ہونا چاہئے لہذا معنویت وروحانیت کی طرف توجہ ضروری ہے، چونکہ یہی معنویات ہر چیز کی بنیاد ہیں۔ درحقیقت سیاست بغیر اخلاق کے لوگوں کی ہدایت وراہنمائی کرنے اور ان کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنے سے عاجز ہے۔ بالفرض ایک ایسا شخص پیدا ہو بھی جائے کہ جو صحیح سیاست کو اجرا کرے۔ (لیکن) یہ سیاست، سیاست انبیاء کا ہی ایک پہلو ہے۔ اولیاء کی سیاست بھی تھی اور اب علمائے اسلام کی بھی سیاست ہے۔ انسان کا فقط ایک پہلو نہیں ہے اسی طرح معاشرے بھی یک بعدی نہیں ہیں۔ انسان فقط ایک حیوان نہیں ہے کہ کھانا پینا اور پہننا اس کا تمام ہم و غم ہو۔

شیطانی سیاست ہو یا صحیح سیاست، وہ امت کے فقط ایک پہلو کی ہدایت کرتی ہے اور وہ اس کا حیوانی پہلو اور مادی بعد ہے اور اس قسم کی سیاست، اسلام میں انبیاء واولیاء کیلئے ثابت ہونے والی سیاست کا ایک ناقص سا جز ہے۔ وہ اقوام وملل اور فرد ومعاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ معاشرے اور انسان کیلئے جتنی بھی مصلحتوں کا تصور کیا جاسکتا ہے وہ ان کی طرف راہنمائی کرنا چاہتے ہیں۔" یہ امام خمینی کے اخلاقی وسیاسی نظرئے کا مرکزی نکتہ ہے لہذا ہمارا سروکار دو علوم اور دو مستقل نظریوں سے نہیں ہے۔ سیاست اخلاق کا تسلسل ہے اور اخلاق، سیاست کی بنیاد۔ اسلام کا مقصد انسان کے مادی اور معنوی پہلوؤں کی پرورش وتربیت کرنا ہے لہذا ان دونوں پہلوؤں کو ایک ہی سمت اور ایک ساتھ حرکت کرنی چاہئے۔ جس کیلئے اسلام نے انسان کیلئے کچھ احکام اور قوانین وضع کئے ہیں۔ ان احکام میں سے کچھ تو فردی حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ اجتماعی مقاصد لئے ہوئے ہیں، بعض تربیتی پہلو کے حامل ہیں اور بعض سیاسی حیثیت کے۔ لیکن سب کا مقصد ایک ہی ہے۔ لہذا ان احکام میں چند خصوصیات ہونی چاہئیں: اول یہ کہ ان کو انسان کے تمام وجودی پہلوؤں پرمشتمل ہونا چاہئے۔ دوم یہ کہ یہ اپنے اپنے میدان میں جامعیت کے حامل ہونے چاہئیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تضاد بھی نہ رکھتے ہوں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوں۔ درحقیقت تمام اسلامی احکام ایسی ہی خصوصیات کے حامل ہیں۔ امام خمینی کی نظر میں ’’ اسلام میں انسان کی پوری زندگی کیلئے یعنی جس دن وہ متولد ہوتا ہے اس سے لے کر قبر میں داخل ہونے تک کے احکام اور دستورات موجود ہیں‘‘۔ اسی طرح ان احکام میں جامعیت اور انسجام بھی موجود ہے۔

بقول امام خمینی : ’’اس انسان کیلئے کہ جو ہر چیز کا مجموعہ ہے یعنی جو عالم طبیعت سے لے کر ماورائے طبیعت اور عالم الٰہیات تک کے مراتب کا حامل ہے، اسلام کے پاس نظریہ اور لائحہ عمل موجود ہے‘‘۔ لہذا تمام اسلامی احکام پیکر واحد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام کی دیانت فقط عبادی دیانت ہی نہیں۔ اسی طرح وہ صرف ایک سیاسی مذہب ہی نہیں، بلکہ عبادی بھی ہے اور سیاسی بھی۔ اس کی سیاست، عبادات میں مدغم ہے اور اس کی عبادت، سیاسیات کے ساتھ ملی ہوئی ہے، یعنی وہی عبادی پہلو سیاسی پہلو بھی ہے۔‘‘ امام خمینی صراحت کے ساتھ اخلاق اور دینی سیاست کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں اور ان دونوں کی وحدت کے نظریہ پر تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔ یہی حکم کہ جو قرآن میں ہے جس کے مطابق مؤمنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک اخلاقی حکم ہے (لیکن ساتھ ہی) ایک اجتماعی وسیاسی حکم بھی ہے۔ مؤمنین اور اسلام کے دوسرے مختلف گروہ کہ جو خدا اور پیغمبر اسلام ؐ پر ایمان رکھتے ہیں اگر باہم برادر بن جائیں تو جس طرح ایک بھائی، بھائی پر محبت کی نگاہ ڈالتا ہے، سب گروہ ایک دوسرے پر محبت کی نگاہ ڈالیں، تو یہ بات ایک عظیم اسلامی اخلاق کے علاوہ اور عظیم اخلاقی ثمرات رکھنے کے علاوہ، ایک عظیم اجتماعی حکم بھی ہے جس کے عظیم اجتماعی اثرات ہیں۔

بہرحال، امام خمینی کے نظریہ کا خلاصہ اور ان کے افکار کا لب لباب اخلاق اور سیاست کی یگانگی اور وحدت ہے اور یہ بات اس قدر واضح ہے کہ جس کیلئے کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ اب جبکہ اخلاق اور سیاست ایک دوسرے میں مدغم ہوچکے ہیں تو پھر جھوٹ، ظلم وستم بے عدالتی، حق تلفی وغیرہ فردی سطح پربھی بری ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اسلامی حکمران کو ہمیشہ اخلاقی اصولوں کی پابندی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان کی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن محال نہیں۔ اسلامی نظام کے حقیقی مقاصد ومصالح کی حفاظت اور طولانی مدت تک سیاسی اقتدار کا تحفظ فقط اخلاقی اصولوں کی پابندی اور ہر قسم کے دھوکہ وفریب سے دوری اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ اس اصول اور قاعدے کو کوئی بھی مسلمان حکمران نظرانداز نہیں کرسکتا۔ سیاسی اقتدار کی حفاظت اور اخلاق کے بارے میں تاکید پر مبنی امام خمینی کا یہ قول ہمیشہ ہمارا نصب العین ہونا چاہئے کہ جس میں انہوں نے فرمایا: ’’آپ اپنے اسلامی کردار اور رفتار کے ساتھ اس تحریک کی حفاظت کریں اور اسے آگے بڑھائیں اور اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ خداوند متعال ہی ہماری تائید فرماتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اپنے اسلامی اخلاق ورفتار کے ذریعے اس اقتدار کی حفاظت کریں کہ جس نے ہمیں فتح ونصرت تک پہنچایا ہے۔‘‘

پس نتیجہ یہ کہ نہ صرف ہمیں سیاست کو اخلاقی بنانا چاہئے ، بلکہ اخلاقی معیار کے مطابق سیاست کرنی چاہئے، کیونکہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد اور حقیقت یہی ہے اور تاریخ بھی اس نظریے کے فروغ اور سربلندی کی گواہ ہے۔ اگر کہیں اس نظریہ نے شکست کھائی بھی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نظریہ ہمیشہ شکست کھاتا رہے گا اور ناقابل عمل ہے۔ آج اکثر سیاسی مفکرین کو اس حقیقت کا ادراک حاصل ہوگیا ہے کہ فقط اخلاقی سیاست کے ذریعے ہی باقی رہنا ممکن ہے۔ حتی میکاؤلی کہ جو شدت کے ساتھ اخلاق اور سیاست کی جدائی کا قائل تھا، وہ بھی معتقد ہے اس بے اخلاقی کا تعلّق زیادہ تر حکومت سے ہے نہ کہ اصل سیاست سے اس کا کہنا ہے کہ جمہوری حکومتوں میں اخلاقی سیاست کا امکان زیادہ ہے نہ کہ استبدادی اور خودسر حکومتوں میں۔ اس کے بعد اپنے نظرئے کی تائید میں وہ ایک قصہ نقل کرتا ہے جو پڑھنے کے قابل ہے۔ وہ حکومتوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی بحث میں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کونسا پیمان اور معاہدہ زیادہ قابل اعتماد ہے۔ جمہوری حکومت کے ساتھ یا شاہی حکومت کے ساتھ؟ اس کے بعد وہ اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر معاہدے کو توڑا جا سکتا ہے منجملہ حکومتی مصلحت کی بنا پر ،لیکن اس سلسلے میں بھی جمہوری حکومتیں، شاہی حکومتوں کی نسبت اپنے پیمانوں اور معاہدوں پر زیادہ مدت تک وفادار رہتی ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک معمولی سے فائدے کیلئے شاہی حکومت پیمان شکنی کردیتی ہے اور بہت سا منافع جمہوری حکومت کو معاہدہ توڑنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔

ٹیمسٹوکلس نے ایتھنز کی مجلس سے کہا: میرے پاس ایک ایسا مشورہ ہے کہ جو ایتھنز کیلئے بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ مجلس نے آریسٹید کو اس کا مشورہ سننے کیلئے کہا تاکہ مجلس اس کے کہنے پر کوئی قدم اٹھا سکے۔ ٹیمسٹوکلس نے آریسٹید سے کہا: یونانی شہریوں کا پورے کا پورا بحری بیڑا کہ جسے ایتھنز کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر اعتماد ہے، اس وقت ایک جگہ اکٹھا ہے۔ جسے آسانی کے ساتھ تباہ کیا جاسکتا ہے اگر اہل ایتھنز اسے تباہ کردیں تو پورے یونان پر مسلّط ہوسکتے ہیں۔ آریسٹید نے اس کا یہ مشورہ سننے کے بعد مجلس سے کہا:’’ ٹیمسٹوکلس کا مشورہ غیر معمولی طورپر فائدہ مند ہے لیکن غیر معمولی طورپر غیر اخلاقی بھی ہے۔ پارلیمنٹ نے اس مشورے کے خلاف رائے دی‘‘۔ پس بے اخلاقی اور بے قانونی سیاست کیلئے ضروری نہیں، بلکہ طرز حکمرانی، اس کے مقاصد اور کارندوں کے تابع ہے۔ اگر حکمران بھی اخلاقی سیاست کے زریعے نظام حکومت چلائیں تو وہ مملکت کو جنت بناسکتے ہیں اور معاشرتی انصاف کے ذریعے انسانیت کی خدمت کرسکتے ہیں۔ امام خمینی نے انقلاب اسلامی کے ذریعے موجودہ دنیا میں جس اخلاقی سیاست کی بنیاد رکھی تھی، اس کا تسلسل ابھی بھی اُن کے جانشین کے ذریعے باقی ہے اور پوری دنیا کے مستبد، ظالم اور خود سر حکمران اور سیاستدان اس اخلاقی سیاست کے تحت قائم نظام سے خوفزدہ بھی ہیں اور پریشان بھی۔ انقلاب اسلامی کی ۳۸ ویں سالگرہ ہمیں دنیا پر اور ہمارے اپنے ملک پر حاکم سیاست کے مقابلے امام کے دیئے ہوئے اخلاقی سیاسی اصولوں کے سنجیدہ مطالعے کی دعوت دے رہی ہے۔
نوٹ: (اس مقالے کی تیاری میں امام خمینی کے بیانات پر مشتمل کتاب ‘‘صحیفہ نور‘‘ اور حسن اسلامی کی کتاب ’’امام خمینی، اخلاق و سیاست‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے)
خبر کا کوڈ : 608308
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش