0
Wednesday 3 May 2017 07:05

طاہر اشرفی، چپڑاس سے شاہی خلعت تک

طاہر اشرفی، چپڑاس سے شاہی خلعت تک
تحریر و تحقیق: صاحبزادہ ضیاءالرحمٰن ناصر

میں نے یہ کہانی منظر عام پہ لانے کا اعلان اپنے فیس بک پر کیا تو اشرفی صاحب کے ہم پیالہ و ہم نوالہ خاص دوستوں نے میرے ذاتی دوستوں تک اپروچ کی، ان دوستوں میں سے کچھ نے فون اور کچھ نے ٹیکسٹ میسیجز کے ذریعے مجھے سمجھانے و دھمکانے کی بہت کوشش کی اور دلیل یہ دی کہ وہ ایک دیوبندی عالم ہے، آپ خود مولوی ہو کر علماء کے مقام کو لبرلز کی نظر میں گرانے اور ملیامیٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ مناسب نہیں! میرا جواب ان سب کو یہ تھا کہ اگر طاہر اشرفی کے عیوب صرف اس کی ذات تک محدود ہوتے تو والله میں اب بھی ان پہ پردہ ڈالے رکھتا، جس طرح اتنے سال پہلے بھی ڈالے رکھا، لیکن اب وہ انٹرنیشنل فورمز پہ پاکستان اور علمائے پاکستان کو ذلیل و خوار کرنے کے لئے عالمی طاقتوں کا ایجنٹ بن چکا ہے، اگر اب بھی میں خاموش رہا تو عندالله میں مُجرم ہونگا، نیز ایک مچھلی پورے جل کو گندا کر دیتی ہے، جب تک ہم اپنی صفوں میں چُھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو ظاہر نہیں کریں گے، ہماری اپنی صداقت پہ بھی انگلیاں اٹھیں گی، کوئی شخص اگر اپنے آپ کو دیوبندی کہلواتا ہے، یا کسی دیوبندی ادارے کی طرف اپنی نسبت ظاہر کرتا ہے اور انٹرنیشنل فورمز پہ اپنے آپ کو پورے پاکستان کے علماء کا صدر یا چئیرمین بتلاتا ہے تو اسے یہ حق کس نے دیا ہے؟ کم از کم میں تو قطعی طور پہ یہ برداشت نہیں کرسکتا! کہ وہ ہمیں یا ہمارے مدارس کو دنیا میں جب اور جہاں چاہے، چند ٹکوں کے عوض بیچ دے!

آج کے اُمت اخبار نے بھی موصوف کے کُچھ حقائق چھاپے ہیں، لیکن جو باتیں میں شیئر کرنے لگا ہوں، ان میں سے ایک بات بھی کُھل کے اُمت یا کسی دیگر اخبار نے آج تک چھاپنے کی جُرات نہیں کی! وجہ کسی قسم کا لالچ یا خوف، والله اعلم۔ لاہور انجینئرنگ یونیورسٹی کے قریب رہائش پذیر حافظ طاہر محمود اشرفی نے کچھ عرصہ لاہور کے ایک بہت بڑے تعلیمی ادارہ میں تعلیم حاصل کی! بعد ازاں موصوف جمعیت علماء اسلام کے لاہور آفس چوک رنگ محل میں بطور چپڑاسی تعینات ہوئے، وہیں سے ایک بہت بڑے عالم دین کی سفارش پہ موصوف کو لاہور میونسپل کارپوریشن کے زیراہتمام چلنے والے ایک پرائمری اسکول میں ٹیچر تعینات کیا گیا، کچھ عرصہ موصوف یہ ٹیچری کرتے رہے، لیکن موصوف دنیا فتح کرنے کی اُمنگ دل میں لئے اپنے وقت کے مشہور ترین عالم اور خطیب پاکستان (اب مرحوم) کی چوکھٹ پہ جاپہنچے، بار بار کی منتوں سماجتوں کے بعد خطیب پاکستان نے اپنے قریبی دوست جو راولپنڈی کے رہائشی ہیں، جن کا فرضی نام ہم عبدالله تصور کر لیتے ہیں، (یہ عبدالله صاحب میرے بھی ذاتی اور قریبی ترین دوست ہیں، یوسف رضا گیلانی کے بیٹے والی سٹوری بھی مجھے انہوں نے ہی بتائی تھی) ان عبدالله صاحب کے پوری پاکستانی ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ سے 1974ء سے بہت ہی قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں، عبدالله صاحب نے موصوف کو اپنے تعلقات کے بل بوتے پہ CID لاہور میں 1500 روپے ماہوار پہ ملازمت دلوا دی۔

CID کے افسران بالا کو انٹرویو کے درمیان جب یہ معلوم ہوا کہ موصوف جمعیت علماء اسلام کے آفس میں نوکری بھی کرتے رہے ہیں، جہاں جمعیت کے تمام بزرگوں کا آنا
جانا اور اکثر ٹھہرنا بھی ہوتا ہے، تو موصوف کی ڈیوٹی علماء کی مُخبری کرنے پہ لگا دی گئی، کچھ عرصہ بعد انٹیلی جنس بیورو پنجاب جسے عرف عام میں IB کہا جاتا ہے، کے جائنٹ ڈائریکٹر جو ایک جنرل کے ماموں بھی تھے،(نام ظاہر کرنا مناسب نہیں) کو ان کے چند افسروں نے بتلایا کہ ہمارے دیگر مُخبر ناکام ثابت ہو رہے ہیں، CID پنجاب کا ایک مخبر طاہر اشرفی اس وقت بہت کامیاب جا رہا ہے، اسی وجہ سے سی آئی ڈی کی علماء کے بارے میں رپورٹس زیادہ تفصیلی بھی ہوتی ہیں اور کارآمد بھی! لہٰذا اس کو کسی طریقہ سے انٹیلی جنس بیورو میں لایا جائے! اس آفیسر نے جب چھان پھٹک کی کہ یہ شخص کس طریقہ سے سی آئی ڈی کا مُخبر بنا ہے، تو اسے معلوم ہوا، عبدالله صاحب نے جو جائنٹ ڈائریکٹر صاحب کا بھی دوست ہے، اسے خطیب پاکستان کے کہنے پہ سی آئی ڈی میں بھرتی کروایا ہے، جائنٹ ڈائریکٹر آئی بی نے عبدالله سے ملاقات اور درخواست کی کہ آپ نے اسے سی آئی ڈی میں لگوایا ہے، ایسا کارآمد بندہ تو ہمیں چاہئے، جائنٹ ڈائریکٹر کے اصرار پہ عبدالله صاحب نے طاہر اشرفی کو ان سے ملوایا، تو ان صاحب نے 2000 روپے ماہانہ کے عوض انٹیلی جنس بیورو پنجاب میں مُخبر کی ڈیوٹی تفویض کردی!

اب موصوف نے ایک ہی وقت میں دو ایجنسیوں، CID اور IB میں بطور مُخبر کام کرنا شروع کر دیا۔ اس زمانہ میں موصوف کا موبائل نمبر یہ تھا، 03008446612 ان ملازمتوں کے دوران موصوف کے علم میں یہ بات آئی کہ تیز ترین ترقی کے لئے افسران بالا کی گُڈ بُک میں آنا ضروری ہے، اور افسران بالا کا شوق دو ہی چیزیں ہیں، اچھی شراب اور خوبصورت لڑکی! اب موصوف نے علماء کی مُخبری کے ساتھ ساتھ ان دونوں اشیاء کی افسران بالا کو سپلائی کا ٹھیکہ بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا، اپنی انہی خدمات کے عوض موصوف اس زمانہ میں CID کے DIG پنجاب کی نگاہوں میں آگئے، یہ ڈی آئی جی سی آئی ڈی بعد میں ترقی کرتے کرتے ایف آئی اے پاکستان (FIA) کے ڈائریکٹر جنرل بنے! ایف آئی اے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کا مُخفف ہے! 1990ء کی دھائی کو اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں پاکستان میں مذہبی منافرت اور دہشت گردی کے عروج کا دور کہا جاتا ہے، اس زمانہ میں بڑے بڑے قیمتی علماء کو شھید کیا گیا اور یہی زمانہ تھا، جب اپنی خدمات کی وجہ سے طاہر اشرفی DIG ،CID کی نظروں میں سمایا، اسی نوے کی دھائی میں ڈی آئی جی، سی آئی ڈی مذہبی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے، انہوں نے طاہر اشرفی کو اپنے زیر سایہ لے لیا، اس زمانہ میں اک محتاط اندازے کے مطابق اسی فیصد سے زائد دیوبندی علماء کی گرفتاریاں یا گرفتاریوں کے لئے چھاپے طاہر اشرفی کی رپورٹس پہ ہی مارے جاتے تھے۔

خوشامد اور چاپلوسی موصوف کا طُرۂ امتیاز تھا، اور ہے! علماء کرام اپنی سادہ لوحی سے اسے اندر کی ہر بات بتا دیا کرتے تھے اور موصوف اپنے افسران بالا کو! اسی دوران طاہر اشرفی نے عمرہ ویزا کا کاروبار بھی شروع کیا، لیکن اس میں خاطر خواہ آمدن نہ ہونے کے سبب کچھ ہی عرصہ بعد اس کاروبار کو چھوڑ دیا۔ لاہور کی خوبصورت ترین ٹاپ کلاس کال گرلز کو دلاور خان ڈی آئی جی پولیس کے جعلی نام سے بلیک میل کرکے ان کے ساتھ راتیں گذارنا
بھی موصوف کا محبوب ترین مشغلہ رہا ہے! اسی زمانہ میں پنجاب پولیس کے ایک دبنگ آفیسر ذوالفقار احمد چیمہ جنہیں بعد میں موٹروے پولیس کا آئ جی لگایا گیا، شدت سے اس بات کے خواہاں رہے کہ میں اس شخص کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالوں، لیکن ہر بار انٹیلی جنس بیورو کے اعلٰی افسران کی مداخلت پہ چیمہ صاحب ناکام ہوتے رہے، عزیز دوستوں کے سامنے چیمہ صاحب اپنی اس تاریخی ناکامی کو اپنے کیریر پہ بدنماداغ کے طور پہ لیتے ہیں، 9/11 کے بعد جب مجاہدین پہ مشکلات کا دور شروع ہوا، تو موصوف نے مجاہدین سے رقم لے کر انہیں سرحد پار کروانے کا کام شروع کیا، کچھ لوگوں کو موصوف بارڈر کراس کروا دیتے تھے، اہم ترین لوگوں کی مُخبری کرکے ان کو گرفتار کروا دیتے تھے اور اس کا معاوضہ حکومت پاکستان سے لیتے تھے!

سابق بریگیڈیر اعجاز شاہ (جنہیں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے 2007ء میں کراچی آمد پہ دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پہ چوہدری پرویز الٰہی اور ارباب غلام رحیم وغیرہ کے ساتھ نامزد کیا تھا) یہ صاحب کافی سالوں تک آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر رہے ہیں، پھر پنجاب کے ہوم سیکرٹری بعد ازاں چار سال تک آئی بی پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے ہیں۔ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں چُھپانے اور حرکت المجاہدین کے کچھ معاملات کے ساتھ ساتھ اور بہت سے معاملات میں ان سابق بریگیڈئیر صاحب کا لنک بتایا جاتا رہا ہے، انہیں پرویز مشرف کا رائٹ ہینڈ ہی نہیں بلکہ مشرف کی ناک کا بال سمجھا جاتا تھا، ان بریگیڈیر اعجاز شاہ کو 2004ء میں جب انٹیلی جنس بیورو کا چیف مقرر کیا گیا، تو موصوف نے طاہر اشرفی کی اب تک کی خدمات کے عوض طاہر اشرفی کو ایڈوائزر مذہبی امور برائے گورنر پنجاب لگوا دیا! (اس سے پہلے گورنر لیفٹیننٹ جنرل صفدر سے بھی طاہر اشرفی کے قریبی تعلقات تھے، لیکن اس سے وہ کوئی پوسٹ حاصل نہ کرسکا) ایڈوائزر مذہبی امور کو صوبائی وزیر کے برابر پروٹوکول ملتا ہے، اسی پروٹوکول کے مطابق پولیس کا حفاظتی دستہ بمعہ گاڑی جب موصوف کو ملنا شروع ہوا تو لاہور ڈیفنس K بلاک مکان نمبر 7 میں لاہور کے سب سے بڑے جوئے کے اڈےکی سرپرستی موصوف نے شروع کر دی، یہ جوئے کا اڈا بدنام زمانہ پرویز خان عرف P K Khan کا ہے، اس مکان کے باہر ساری ساری رات پولیس سکواڈ کی گاڑی کھڑی رہتی تھی، جو موصوف کو ان کی حفاظت کے لئے ملی ہوتی تھی۔

اسی جوئے کے اڈے پہ لاہور کی مہنگی اور خوبصورت ترین کال گرل علوینہ بھی جوا کھیلنے آیا کرتی تھی، طاہر اشرفی اس پہ عاشق ہوگیا، شراب کے نشے میں دُھت ہو کر ساری رات اپنے عشق کا دَم بھرتا رہتا، اسی زمانہ میں انٹیلی جنس بیورو پنجاب نے پنجاب میں جوئے کے بڑے اڈوں اور ان کے سرپرستوں کی لسٹ اخبارات کو مہیا کی، جس میں مکان نمبر 7، K بلاک ڈیفنس لاہور کے اڈے کا مالک پرویز خان کو اور اس اڈے کا سرپرست طاہر اشرفی کو ظاہر کیا گیا اور یہ سرپرستی مذہبی امور کی ایڈوائزری کے پورے دورانیہ پہ مُحیط ہے، جو کہ تقریباً پانچ سال کا عرصہ ہے۔ لال مسجد کا واقعہ تو ہر پاکستانی مسلمان کے دل پہ نقش ہے، اس ہنگامہ میں بھی موصوف نے اپنا کردار خوب نبھایا، مقتدر حلقوں کو عبدالرشید
غازی سے ہتھیار ڈلوانے کا لالچ دے کے موصوف اسلام آباد آئے، بلیو ایریا اسلام آباد کے ہوٹل میں موصوف کو ٹھہرایا گیا، ہوٹل کا نام Hotel De Papae intl ہے، آفیسر مہمانداری کے طور پہ اسلام آباد کے ایک مجسٹریٹ صاحب کی ڈیوٹی لگائی گئی، موصوف کا پہلا حکم ہی یہ تھا، مجھے دو بوتل شراب مہیا کی جائے "حکم علامہ مرگِ مفاجات۔" مجسٹریٹ صاحب نے دو بوتل ولایتی شراب مہیا کی، دو روز تک تو روزانہ دو بوتل شراب مجسٹریٹ صاحب مہیا کرتے رہے، تیسرے دن کسی عزیز کی بیماری کا بہانہ کرکے ڈیوٹی سے چھٹی لے کر مجسٹریٹ صاحب غائب ہوگئے اور اشرفی صاحب چند روز بعد لال مسجد پہ فاتحہ پڑھ کے واپس لاہور آگئے!

کچھ عرصہ قبل پولیس کے حفاظتی سکواڈ کے ساتھ براستہ موٹروے جب گولڑہ موڑ کی چیک پوسٹ پہ پہنچے تو ناکہ پہ پولیس نے روک لیا، روکنے والا ایک سب انسپکٹر تھا، جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی، جب اسے شراب کی بو آئی، تو اس نے کار سے نیچے اتار لیا، اس سے تلخ کلامی ہوئی، سب انسپکٹر نے اشرفی کے منہ پہ ایک تھپڑ جڑ دیا اور کہا کہ تم اپنے آپ کو مولوی کہلواتے ہو اور سرعام شراب پی رہے ہو، تمہیں شرم آنی چاہئے۔ اشرفی نے اسے مُعطل کروانے کی بُہت کوشش کی، لیکن اس سب انسپکٹر کے افسرانِ بالا نے اُس کا ساتھ دیا اور وہ آج بھی اپنی ڈیوٹی کر رہا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل کا واقعہ تو جب بھی یاد آتا ہے تو سر شرم سے جُھک جاتا ہے، موصوف ایک یورپین ایمبیسی کی ایک تقریب میں مہمان تھے، وہاں اتنی زیادہ شراب پی لی کہ طبیعت خراب ہوگئی اور کار ہی میں اُلٹیاں شروع کر دیں، پولیس ناکہ پہ پولیس نے روکا اور تھانہ کوہسار لے گئے، وہاں کے آفیسر انچارج شراب نوشی کا مقدمہ درج کرنا چاہتے تھے کہ اسلام آباد کے ایک بااثر ترین صحافی چھڑوانے کے لئے پہنچ گئے۔ قارئین کے ذہنوں میں ایک بہت بڑا سوال پیدا ہوگا کہ اتنا کرپٹ ترین شخص اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر کیسے بن گیا، تو آیئے، آپ کے اذھان کا خلجان دور کرتا ہوں۔

پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لئے کچھ عرصہ قبل سیفما کے نام سے ایک تنظیم بنی تھی، جس کا صدر معروف صحافی امتیاز عالم ہے، امتیاز عالم ہر وقت شراب کے نشے میں دُھت رہنے والا شخص ہے، موصوف اور ان کی تنظیم سیفما کا اندرون خانہ بنیادی ایجنڈا تقسیم ہند کی لکیر کو ختم کرنا ہے، طاہر اشرفی کے ساتھ چونکہ ہر وقت پولیس سکواڈ ہوتی ہے، اس لئے اس کی گاڑی اکثر پولیس ناکوں پہ نہیں روکی جاتی، موصوف اسلام آباد سے درجنوں کے حساب سے ولایتی شراب کی بوتلیں لاکر لاہور کے باثر شرابی صحافیوں کو بطور تُحفہ دیتے ہیں، اس تُحفے سے پیپلزپارٹی کے دور میں سب سے زیادہ فیض حاصل کرنے والے امتیاز عالم کو موصوف نے مجبور کیا کہ مجھے اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر بنوائیں، امتیاز عالم نے پیپلز پارٹی کے مرکزی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کو مجبور کیا، قمر زمان کائرہ کی سفارش پہ موصوف کو اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر بنایا گیا! پیپلز پارٹی دور کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو سفر حج کے دوران عبدالله (فرضی نام) نے کہا، راجہ صاحب آپ نے اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر ایک انتہائی
کرپٹ، زانی، شرابی، بلیک میلر انسان کو بنایا ہے، آپ کا یہ گناہ مُعاف نہیں ہوگا، راجہ پرویز اشرف نے جواب دیا، یہ گُناہ قمر زمان کائرہ کے حساب میں جائے گا، اس نے مجھ سے یہ کام کروایا ہے۔

جن دوستوں کے پیٹوں میں یہ درد ہوتا رہا کہ یہ ایک عالم دین ہے اور آپ عالم دین کی توہین کے مُرتکب ہو رہے ہیں، ان واقعات کو پڑھ کر وہ اپنے اپنے ضمیروں سے یہ سوال کریں، کیا علماء دین اسی طرح کے ہوتے ہیں، جو جوئے خانوں کی فقط سرپرستی ہی نہ کرتے ہوں، بلکہ خود بھی کروڑوں کا جوا کھیلتے ہوں، لاہور کے بُکیوں میں جنہیں گاڈفادر سمجھا جاتا ہو، جب بھی کوئی سیاسی ہلچل ہو، تو ُبکی اس سے پوچھ کر جوئے کے ریٹ نکالتے ہوں، طاہر اشرفی یا اس کے کسی حواری اور چمچے نے میرے پیش کردہ حقائق کو جھوٹا ثابت کرنا ہو، تو عدالت عالیہ یا عدالت عُظمٰی میں میرے خلاف ہتک عزت کی رٹ دائر کریں، میں زندہ گواہوں ویڈیو ریکارڈنگز اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ عدالت میں اس کا کچا چٹھا طشت ازبام کرونگا۔ لیکن
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
کہاں تک سُنوگے؟
کہاں تک سُناؤں؟

میرے پاس بے شمار مصدقہ واقعات موجود ہیں، میں صرف ان افراد کے نام لکھ رہا ہوں، جو زندہ ہیں اور تصدیق یا تردید کرسکتے ہیں۔

اب اک اور داستان سنیئے۔ قارئین کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ کسی بھی مغربی ملک کی نیشنلٹی کے حصول کے کچھ اصول و ضوابط ہیں، جن میں سے بنیادی اصول ایک مقررہ مدت تک اس ملک میں قیام پذیر رہنے کے بعد اس ملک کی نیشنیلٹی ملتی ہے! آیئے آپ کو ایک تہلکہ خیز خبر یہ بھی دیتا جاؤں کہ طاہر اشرفی اپنی پیدائش سے لے کے آج تک کبھی بھی برطانیہ میں مستقل قیام پذیر نہیں رہا، نہ اس کے والد برطانوی شہری ہیں، نہ اس کی والدہ، نہ بیوی نہ بچے، یہ وہ رشتے ہیں، جن کی بنیاد پہ بھی آپ برطانوی شھریت کے حقدار بن سکتے ہیں، یا آپ ایک مخصوص انویسٹمنٹ برطانیہ میں کرکے جو تین کروڑ پاکستانی کے قریب ہے، صرف رہائشی ویزا حاصل کرسکتے ہیں، اس میں بھی کافی سالوں کے بعد جاکر نیشنلٹی ملتی ہے، اس میں بھی ایک بنیادی شق ہوتی ہے کہ ان ڈیفینیٹ سٹمپ لگنے کے بعد پورے سال کے دوران برطانیہ سے تین ماہ سے زیادہ ایک منٹ کے لئے بھی باہر نہ جایا جائے، پھر آپ نیشنیلٹی اپلائی کرنے کے حقدار بنتے ہیں۔ طاہر اشرفی نے ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کیا، پھر بھی وہ برطانیہ کا پاسپورٹ ہولڈر ہے! پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی لیڈر کافی سال برطانیہ میں گذارنے کے باوجود برطانوی پاسپورٹ حاصل نہ کرسکے! لیکن طاہر اشرفی نے پاکستان میں بیٹھ کے یہ ناممکن کام کر دکھایا؟ حالانکہ طاہرالقادری جیسے شخص کو بھی کینیڈین نیشنیلٹی لینے کے لئے ادارہ منھاج القرآن فارسٹ گیٹ لندن کے اکاؤنٹ میں سے تین لاکھ پاؤنڈ انویسٹمنٹ کے نام پہ کینیڈا ٹرانسفر کرنے پڑے تھے اور پھر وہاں کا ویزا ملنے کے بعد مستقل وہاں ڈیرا ڈالنا پڑا تھا۔ لیکن طاہر اشرفی نے اک ناممکن کام کر دکھایا کہ پاکستان میں رہ کے برطانوی سُرخ پاسپورٹ حاصل کر لیا!

اخبارات پڑھنے والے قارئین کو اسلام آباد کی نواحی بستی کی رہائشی 14 سالہ رمشا مسیح
کا اگست 2012ء کا کیس یاد ہوگا، جسے قرآن مجید کے اوراق جلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا! جسے نومبر 2013ء میں تمام الزامات سے بری کروا کر پوری فیملی سمیت کینیڈین ایمبیسی نے کینیڈا کے کسی نامعلوم مقام پہ منتقل کروا دیا تھا! اس کیس میں طاہر اشرفی نے رمشا مسیح کی کُھل کر تمام میڈیا میں حمایت کی تھی، رمشا مسیح اور اسکی فیملی کے مُلک سے جانے کے فوراً بعد سوئس ایمبیسی، سویڈش ایمبیسی، فرنچ ایمبیسی اور برطانوی ایمبیسی کے آفیسران سے طاہر اشرفی نے ملاقات کی اور اپنے آپ کو ملنے والی جھوٹی قتل کی دھمکیوں اور دیگر پرانی خدمات کے معاوضے کے طور پہ پاسپورٹ کی ریکوئسٹ کی، جسے برطانوی ایمبیسی میں قبول کر لیا گیا اور موصوف کو گھر بیٹھے ہی سُرخ پاسپورٹ مل گیا۔ اسلام آباد میں ایک برادر عرب مُلک کے سفیر صاحب بھی موصوف کے پیش کردہ تحائف ولایتی شراب اور لڑکیوں سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں، جس کی رپورٹ پاکستانی ایجنسیوں نے متعلقہ مُلک تک پہنچا دی، جس کی پاداش میں سفیر موصوف کو اگلے ماہ تک ان کے ملک واپس بلوایا جا رہا ہے۔ 2016ء میں موصوف نے امریکن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دعوت پہ امریکہ کا پانچ روزہ خفیہ دورہ کیا، اس دورہ میں موصوف کو واشنگٹن ڈی سی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اور ان سے وہ مشہور معاہدہ کیا گیا، جس کی تفصیلات اخبارات میں پہلے ہی چھپ چکی ہیں اور حالیہ ستاسی لاکھ یورو کے جرمن معاہدہ کی تفصیلات بھی منظر عام پہ آچکی ہیں۔

پاکستان کے نوجوان علماء جن کو موصوف یہ دھمکیاں دے کر اپنے ساتھ ملاتے ہیں، کہ اگر تم نے میرا ساتھ نہ دیا تو تمہیں میں فورتھ شیڈول میں ڈلوا دونگا اور پولیس تمہیں ہروقت تنگ کرے گی، تمہارا بنک اکاؤنٹ، شناختی کارڈ وغیرہ ضبط ہو جائیں گے، تمہارا نام دہشت گردوں میں آجائے گا! ان نوجوان علماء سے میں یہ گزارش کرونگا کہ یہ شخص تو خود لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کا قریبی ساتھی رہا ہے اور ان دشت گردوں سے لوگوں کو اٹھوا کر ان سے بھتے وصول کرتا رہا ہے اور یہ سب کچھ ایجنسیوں کے علم میں ہونے کے باوجود آج تک اس پہ اس لئے ہاتھ نہیں ڈالا گیا کہ اس نے ان کو یہ تاثر دیا ہوا ہے کہ میرے ساتھ پاکستان کے ہزاروں نوجوان علماء ہیں، میں ایک لمحے میں پورا ملک بند کروادونگا، میں دیوبندیت کا مُحافظ ہوں، تمام دیوبندی تنظیمیں میرا دم بھرتی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ میرے دوستو! اپنے گذرے ہوئے یا موجودہ اکابرین کے تقوٰی اور للھیت کی طرف نظر کریں اور اِس شخص کی طرف بھی کہ جس کا سگا باپ اس کے گھر کا پانی پینا بھی گوارا نہیں کرتا (موصوف کے والد تبلیغی جماعت کے ساتھ منسلک اور انتہائ متقی انسان ہیں) آپ ایسے ننگِ دین ننگ اسلاف شخص کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور پوری دنیا کو یہ بات بتا دیں، کہ طاہر اشرفی جیسے دین دشمن اور دین فروش شخص سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ بہت سارے حقائق ہیں، فی الحال اسی پہ اکتفا کرتا ہوں، اگر ضرورت پڑی تو دوسری قسط اس سے بھی تہلکہ خیز سامنے لاؤنگا، موصوف کی ناقابل اشاعت تصاویر، ویڈیوز اور آڈیو ریکارڈنگز کے ساتھ ان شاء الله! الله ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
https://www.mukaalma.com/article/zianasir/1958
خبر کا کوڈ : 632940
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش