0
Tuesday 29 Aug 2017 16:27

میر غوث بخش بزنجو اور بلوچ عسکریت پسندی!

میر غوث بخش بزنجو اور بلوچ عسکریت پسندی!
رپورٹ: نوید حیدر

آیا موجودہ دور کا بلوچ معاشرہ اپنی سوچ کے اعتبار سے آج بھی خانہ بدوش اور دیہاتی ہے۔؟ کیا عسکریت پسندی ہی سیاسی جدوجہد کا افضل ترین راستہ ہے۔؟ کیا بلوچوں کو دشمن کی کوئی ضرورت بھی ہے یا انکے اپنے اعمال خود انکی شکست کی اہم ترین وجہ ہیں۔؟ اوپر ذکر کئے گئے ان سوالات پر گفتگو کرنے سے پہلے یہاں پر یہ تحریر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ بلوچستان کا جغرافیائی محل وقوع صدیوں بلوچوں کیلئے وبال جان بنا رہا ہے، جسکی وجہ سے بلوچ بطور قوم مشکل اور تکلیف دہ صورت حال سے گزرتی آرہی ہے۔ زورآور قوتوں اور زمانے کی زبردست طاقتوں کی ظلم و زیادتی اور بے انصافیاں کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن یہ بات دانشوارانہ بے ایمانی کے زمرے میں آئے گی، اگر بلوچ قوم اپنوں کی کمزوریوں اور غلطیوں سے چشم پوشی اختیار کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان کو برباد اور ویران کرنے میں بلوچستان کی اپنی سیاسی اشرافیہ، نااہل اور نالائق عوامی نمائندے، کرپٹ اور بدعنوان سرکاری افسران، کرایہ کے خوشامدی دانشور اور دوسروں کی لڑائی بلوچ زمین پر لڑنے والے عسکری مہم جو سب برابر کے شریک ہیں۔ ہر تنازعہ کا ہیرو اور ولن ہوتا ہے۔ اب بلوچستان کی فلم کا ہیرو اور ولن کون ہے، اس سوال کا جواب تو مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں آنے والا ہوشمند دانشور اور مورخ دینے کی بہتر پوزیشن میں ہوگا۔

سردست اب یہ بلوچستان کے اہل قلم کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ پرورش لوح و قلم کرتے رہیں اور بلوچستان کی سیاست میں فروغ حاصل کئے جانے والے منفی رحجانات کی سختی سے حوصلہ شکنی کریں۔ اسی طرح صحت مند اور جمہوری رحجانات کی حوصلہ افزائی کریں اور نوجوان نسل کو بتائیں کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں آگئے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی بتائیں کہ گھر میں آگ لگی ہوئی ہے اور بلوچ اپنی بے مقصد محاذ آرائیوں کی دلدل میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ زندوں کی دنیا تبدیلیوں کی دنیا ہوتی ہے۔ قوموں کے مزاج، نفسیات، رسوم اور انکی روایات صدیوں میں بنتی ہیں۔ لیکن معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہر انسانی معاشرے کی طرح بلوچ سماج بھی دن بدن بدل رہا ہے۔ ایک پختہ تعلیم یافتہ طبقہ بلوچ قوم میں تیزی سے جنم لے رہا ہے اور لوگ خانہ بدوشانہ زندگی کو ترک کرکے زراعت کو اپنانے کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کاروبار اور روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہی ہے۔ قومی اور اجتماعی سوچ میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور باشعور لوگ، چاہے ان کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے کیوں نہ ہو، قبائلی فرقہ واریت کے تنگ دائرے سے نکل کر بلوچ قوم جیسے بڑے اور وسیع فریم ورک کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔

سائنسی ایجادات اور انقلابات نے انسانی رویوں کو متاثر کیا ہے اور ذرائع ابلاغ کی ترقی نے فکری اور زمینی فاصلوں کو ختم کر دیا ہے۔ آج دنیا کے ہر کونے اور گوشے میں لوگ براہ راست رابطے میں ہیں۔ لیکن یاد کیجئے اس دور کو جب میر غوث بخش بزنجو اور ان کے رفقاء نے سیاست کی اور سیاست کرنا کتنا مشکل تھا۔ ریاستی جبر اور آمدورفت کے ذرائع بہت دشوار ہونے کے باوجود انہوں نے بلوچستان کے علاقے سبی سے لیکر کیچ مکران تک ہر بلوچ کے گدان اور جھونپڑی پر دستک دی اور قومی و سیاسی شعور پھیلاتے رہے۔ جب برطانیوی دور میں بلوچی انقلابی ادب کے ساتھ ساتھ قوم پرستانہ، ترقی پسند اور انقلابی سیاسی جماعتوں نے بھی جنم لینا شروع کیا۔ تب "قلات نیشنل پارٹی" کا راستہ روکنے کیلئے انگریز، خان اور سردار نے ملکر ایک مقدس اتحاد قائم کیا۔ باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت 1939ء میں قلات نیشنل پارٹی پر پابندی لگائی گئی اور انکے رہنماؤں کو گرفتار یا ریاست بدر کر دیا۔ یاد رہے کہ قلات نیشنل پارٹی کی قیادت نے ڈیرہ غازی خان تا بندر عباس متحدہ بلوچستان کا تصور پیش کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ریاست قلات کے انگریزوں سے ہونے والے معاہدوں کی روشنی میں ان کے برصغیر سے چلے جانے کے بعد قلات کی پرانی حیثیت بحال کی جائے۔ لیکن قلات نیشنل پارٹی کے اس مطالبے کو عالمی سطح پر پذیرائی نہ مل سکی۔ یہاں تک کہ ان کے پرانے اتحادی "انڈین نیشنل کانگریس" نے بھی ان کے اس مطالبے کو یکسر مسترد کیا۔ قیام پاکستان کے بعد بلوچ سیاست ایک نئے عہد میں داخل ہوتی ہے۔ اس طرح میر غوث بخش بزنجو کے سامنے دو راستے تھے یا تو قوم کو رومانی دنیا کی طرف لے جاتے یا حقیقت سے قریب تر موقف اختیار کرتے۔ لہذا انہوں نے زمینی حقائق کو ترجیح دی۔

الغرض 1970ء کی دہائی بلوچستان کے عوام کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں نہایت اہم ہے۔ تاریخ میں پہلی بار 1972ء میں ایک منتخب حکومت وجود میں آئی۔ سب کو امید تھی کہ یہ عوامی حکومت بلوچستان کو معاشی بدحالی اور تعلیمی پسماندگی سے نجات دلوانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ لیکن آگے جنم لینے والی صورت حال بتاتی ہے کہ میر بزنجو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود نیپ اور مسٹر بھٹو کے درمیان ہونے والی محاذ آرائی کو روک نہیں سکے۔ نو مہینے کے اندر اندر نیپ حکومت غیر آئینی طور پر برطرف کی گئی، جسکے ردعمل میں احتجاجی سیاست نے راتوں رات فروغ پایا۔ یوں بتدریج بلوچ سیاست اعتدال اور عسکریت پسندی میں تقسیم ہوگئی۔ میر غوث بخش بزنجو اپنے قریبی ترین رفقاء نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء اللہ مینگل کی جلاوطنی اور مسلح جدوجہد کے حامی نہیں تھے۔ لیکن یہاں پر یہ بات اچھی طرح یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فکر و عمل کے اختلاف کو بنیاد بنا کر اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کا مائنڈ سیٹ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد جنم لیتا ہے۔ بلوچستان کے فرزند میر مولا بخش دشتی، جن کو بلوچ عسکریت پسند غدار جیسے لقب سے نوازتے ہیں، ان کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے پیشرو میر غوث بخش بزنجو کی طرح وفاقیت اور پرامن و جمہوری طرز جدوجہد کے علمبردار تھے۔ جو اپنے کئی سال کی تجربات کی روشنی میں اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ عسکری مہم جوئی کسی بھی اعتبار سے بلوچ قوم کے حق میں نہیں بلکہ اس کے اثرات اور نتائج نہایت تباہ کن ثابت ہونگے۔

یہاں پر یہ تحریر کرنا بےجا نہ ہوگا کہ روس میں 1876ء میں ایک خفیہ تنظیم "گزودنیک" کے نام سے وجود میں لائی گئی۔ سینکڑوں کی تعداد میں نرودنیکوں نے روسی کسانوں جیسے کپڑے پہن کر دیہاتوں کا رخ کیا، تاکہ ان کو بغاوت پر آمادہ کیا جا سکے۔ لیکن جب کسانوں نے ان کی اپیلوں پر کان نہ دھرے، تو انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرکے پرتشدد سیاست کا راستہ اپنایا اور سیاسی قتل کو جدوجہد کا افضل ترین طریقہ سمجھنے لگے۔ یکم مارچ 1881ء میں زار الیگزینڈر (دوئم) کو بھی قتل کیا، لیکن تب بھی انقلاب برپا نہ ہوا۔ آخر کار ان کے مسلح ونگ انتشار کا شکار ہوئے اور انکے اہم قائدین گیورگی پلخانوف نے 1883ء میں اپنی جلا وطنی کے دنوں میں سوئٹزر لینڈ میں پہلی روسی سوشل ڈیموکریٹک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ گو کہ نرودنیک ایک عوامی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے، لیکن انکے دماغ پر ہیروزم اور مہم جوئی کا بھوت سوار تھا۔ اس لئے وہ اس حقیقت کا ادراک نہ کرسکے کہ سردیوں کے پھول گرمیوں میں اگائے نہیں جاسکتے۔ انکے برعکس لینن جو تاریخ کا ایک جید استاد تھا، اس نے نرودنیکوں کی غلطیوں اور تجربات سے مستفید ہو کر 1917ء میں ایک عظیم انقلاب کی رہنمائی کی۔ جس نے دنیا کے ہر خطے اور قوم کو متاثر کیا۔ جو کچھ یہاں پر میں کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ بلوچستان عسکریت پسند بھی نرودنیکوں کی طرح بری طرح ہیروزم کی بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ انکی طرح یہ بھی اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ تشدد پر مبنی سیاست اور بزور بندوق عوامی حمایت حاصل نہیں کی جا سکتی۔

اب بلوچ عسکریت پسند یا تو نرودنیکوں کی طرح تشدد کے راستے پر گامزن رہینگے یا اعتدال کی سیاست کو اپنائیں گے، اسکا فیصلہ تو انہیں خود کرنا ہوگا۔ وہ اعتدال کی سیاست جسکی میر بزنجو زندگی بھر پرچار کرتے رہے۔ بصورت دیگر تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ 1960ء کی دہائی میں جونہی شاہِ ایران اور عراقی قیادت کے درمیان مفاہمت ہوئی تو عراقی حکومت نے اس وقت کے بلوچ علیحدگی پسندوں کو فوری طور پر بغداد سے چلے جانے کا حکم دیا۔ جن میں سے کچھ دوبارہ وطن لوٹے اور کچھ نے زندگی بھر یورپ میں جلا وطنی اختیار کی۔ اسی طرح اگر کل پاکستان، ایران، افغانستان اور ہندوستان اپنے اختلافی امور کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تب بلوچ عسکریت پسندوں کے لئے اس قسم کی صورت حال جنم لے سکتی ہے۔ جنکا مشاہدہ ان کے پیشرؤں نے کیا۔ ایک قوم کے ساتھ اس کا ماضی جڑا رہتا ہے، کیونکہ ہر گزرتا ہوا دن ماضی میں ہی تبدیل ہو جاتا ہے اور سمجھدار قیادت نہ صرف ماضی کو یاد رکھتی ہے، بلکہ ماضی میں ہونے والی غلطیوں اور تجربات سے مستفید ہوکر ایسی منصوبہ بندی کرتی ہے، جو آنے والے نسلوں کا مستقبل روشن اور تابناک کرسکے۔ ظلم صرف اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کو نہیں کہتے، بلکہ پرتشدد سیاست، برادر کشی، بے گناہوں کا قتل عام اور ہتھیاروں کے زور پر اپنی رائے مسلط کرنا بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔

بلوچ قبائلی مزاج کی انتقامی سیاست، جارحانہ مزاج اور جذبات نے بلوچستان کے عوام کی قومی اور جمہوری تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ انفرادیت، انانیت اور خود سری رندی عہد سے لیکر آج تک بلوچوں کو تباہی اور بربادی کے دلدل میں دھکیلتی رہی ہے۔ اس لئے تو بلوچی شاعری باہمی جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بلوچ وجود کے اندر صرف دشمن رہتا ہے اور انہیں ہوش اس وقت آتا ہے، جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ اگر بلوچ قوم کا ہدف بلوچستان کو بہتر اور روشن مستقبل دینا ہے، تب انہیں تنگ نظریاتی دائروں، خود غرض قوم پرستی، عسکری مہم جوئی سے جان چھڑانی ہوگی۔ ورنہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہے گی اور قدرت کے نظام میں آپ وہی کھائیں گے، جو آپ نے بویا ہے۔ بیسویں صدی کے ہر نامور لیڈر کی طرح میر بزنجو بھی لبرل ازم، نیشنلزم اور فلسفہ اشراکیت سے متاثر ہوئے۔ بزنجو سیاست کو عبادت اور نہایت سنجیدہ کھیل کا درجہ دیتے تھے، کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ قوموں کی زندگیوں کا فیصلہ سیاست کے میدانوں میں ہی ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے گزرتے وقت کے ساتھ بلوچستان کی سیاست میں منفی، دلخراش اور نہایت خوفناک قسم کے سیاسی رحجانات فروغ حاصل کرتے رہے۔ آج بلوچستان کی سیاست یا تو کرپشن اور بدعنوانی کے حوالے سے مشہور ہے یا پھر ہر قسم کی انتہاء پسندی اور دہشتگردی کے حوالے سے معروف ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ سیاست، مذہب اور قوم پرستی کے نام پر قتل و غارت گری کا یہ بے رحم دور کب تک جاری رہے گا۔ بقول شاعر
کچھ نہ ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا
قوموں کی زندگی میں بہترین قیادت وہ ہے جو دشوار گزار راستوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے مشکلات کا صبر اور حوصلے سے سامنا کرے۔ میر بزنجو کے فلسفہ سیاست میں وطن اور انسان دوستی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ جس میں انفرادی، گروہی یا ریاستی دہشتگردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چونکہ میر بزنجو کی سیاسی فکر کا گہرا تعلق نہ صرف بلوچ قوم کے ماضی اور حال سے ہے، بلکہ مستقبل سے بھی ہے۔ اس لئے انکے فلسفہ سیاست کی ترویج بلوچستان کے دانشوروں کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔ مسلح طرز جدوجہد کا بیانیہ اور فلسفہ پہلے ہی سے اپنا اثر کھو چکا ہے اور یہ مزید بلوچ عوام کے لئے پرکشش نہیں رہا۔ اپنے دامن میں لگی آگ خود ہی بجھانی پڑتی ہے، جیسا کہ نرودنیکوں نے اپنے غطیوں کا احساس کرتے ہوئے بجھائی تھی۔
خبر کا کوڈ : 665268
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش