0
Thursday 21 Sep 2017 15:21

عراقی کردستان۔۔۔ گریٹر گیم کا ایک حصہ ہے

عراقی کردستان۔۔۔ گریٹر گیم کا ایک حصہ ہے
تحریر: ثاقب اکبر

عراق کے نیم خود مختار علاقے کردستان میں 25 ستمبر2017ء کو عراق کی وفاقی حکومت سے علیحدگی کے لئے ایک ریفرنڈم کا اعلان اس وقت پورے خطے میں ایک نئی معرکہ آرائی کا عنوان بنا ہوا ہے۔ عراقی کردستان کے صدر بارزانی اور ان کے ساتھی ابھی تک اپنے اس اعلان پر ڈٹے ہوئے ہیں، البتہ انھوں نے اس پر بات کرنے کے لئے گذشتہ روز چند شرائط کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد ان کا کہنا ہے کہ وہ ریفرنڈم کو دو سال کے لئے ملتوی کرسکتے ہیں۔ یہ شرائط عملاً کردستان کو ایک آزاد مملکت کی طرف لے جانے ہی کے مترادف ہیں۔ ان میں نیم خود مختار عراقی کردستان کو علاقے کی گیس اور تیل برآمد کرنے اور اس کی آمدنی کو خود استعمال کرنے کے اختیار کی شرط بھی شامل ہے۔ دریں اثناء عراق کے وزیراعظم العبادی نے نیم خود مختار علاقے کردستان کے ذمہ داران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر علیحدگی کے لئے اعلان کردہ ریفرنڈم نے صورت حال خراب کی تو وہ فوجی طاقت کو بروئے کار لائیں گے۔ عراق کی سکیورٹی کونسل نے بھی کردستان کی عراق سے علیحدگی کی مخالفت کی ہے۔ گذشتہ اتوار کو سلامتی کی قومی وزارتی کونسل کے اجلاس کے بعد عراقی حکومت نے ایک بیان میں عراق کی وحدت، استقلال، ملک کے تمام علاقوں کے یکجا رہنے اور تمام شہریوں کی حفاظت کا عہد کیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ قومی سکیورٹی کونسل نے عراق سے علیحدگی کے لئے کردستان میں مجوزہ ریفرنڈم کو مسترد کر دیا ہے، اسے غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کا اعلان قومی سالمیت اور عراقی عوام کے اتحاد کے منافی ہے۔ اس کونسل میں وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر قانون، فوج کے آپریشنل نمائندے اور عدالتی نمائندگان شامل ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ نے بھی اس ریفرنڈم کو مسترد کر دیا ہے، اسے خلاف قانون و آئین قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کردستان کی عراق سے جدائی کی کوئی صورت قابل قبول نہیں۔ عراق کے صدر فواد معصوم جو خود بھی کرد ہیں، نے بغداد اور اربیل کے راہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ تمام مسائل کو بات چیت سے حل کریں۔

ادھر بارزانی نے اعلان کیا ہے کہ بغداد اور اربیل کے درمیان اب کوئی مشارکت باقی نہیں رہی۔ علاوہ ازیں انھوں نے صوبہ کرکوک کو بھی کردستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عراق کی وفاقی حکومت نے بارزانی کے اس مطالبے کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت کرکوک ایک وفاقی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیز کرکوک ہی وہ علاقہ ہے، جہاں سے عراق کا سب سے زیادہ تیل نکلتا ہے۔ کرکوک میں مختلف قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ اس صوبے میں کرد، عرب اور ترکمان قومیتیں بستی ہیں۔ کرکوک میں مخالف گروہوں کی آپس میں جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ حیدرالعبادی نے اپنے ایک بیان میں کرکوک میں فوجی مداخلت کے امکان کو رد نہیں کیا۔ علاقے کے وہ تمام ممالک جن میں کرد آبادی موجود ہے عراقی کردستان میں ریفرنڈم کے اعلان کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ایران اور ترکی نے اس اعلان کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ ہم عراق کی تقسیم کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیو یارک میں ترکی کے صدر رجب طیب اردغان اور عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے باہم ملاقات کی ہے۔ دونوں راہنماؤں نے عراقی کردستان میں ریفرنڈم کے اعلان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اردغان نے نیویارک میں خبر نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عراقی کردستان میں ریفرنڈم کے حوالے سے وہ اور حیدرالعبادی ایک ہی نقطۂ نظر رکھتے ہیں اور دونوں اس کے مخالف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بارزانی کا فیصلہ کاملاً غلط ہے۔ ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ ریفرنڈم کا مسئلہ ہماری قومی سلامتی سے تعلق رکھتا ہے اور انقرہ اس بارے میں ضروری ردعمل ظاہر کرے گا۔ ترکی کو پہلے ہی اپنے کرد علاقوں میں کرد پارٹی پی کے کے کی طرف سے مشکلات کا سامنا ہے، جو ترکی کی مرکزی حکومت کے خلاف گوریلا جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سب سے زیادہ کرد آبادی ترکی ہی میں ہے۔ ترکی کی کل کرد آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے جو ترکی کی آبادی کا 25فیصد ہے۔ ترکی کو ایک عرصے سے کرد علاقوں میں افراتفری اور گوریلا جنگ کی وجہ سے سلامتی کے مسائل درپیش ہیں۔ ترکی کے عراقی کردستان کے صدر بارزانی کے ساتھ بھی بہت محکم اقتصادی روابط قائم ہیں اور ہر روز عراقی کردستان سے ترکی کے راستے کئی لاکھ بیرل تیل برآمد کیا جاتا ہے۔

ایران کے وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل احمد رضا پوردستان نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کردستان کے حوالے سے عالمی استعمار کے منصوبے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ امریکی پینٹاگون نے مختلف انداز سے اسلامی ممالک کی نئی جغرافیائی تشکیل کے منصوبے جاری کئے ہیں۔ جنرل پوردستان نے اپنے انٹرویو میں ایسے ہی منصوبوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے عراقی کردستان میں ریفرنڈم کے حوالے سے جاری جنجال کی حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے کہا کہ عراقی کردستان میں ریفرنڈم مشرق وسطٰی میں امریکی گریٹر گیم کا حصہ ہے، جسے سابق امریکی صدر جونئیر بش نے 2005ء میں پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے مطابق علاقے کے ممالک کو مزید چھوٹے ملکوں میں تقسیم کیا جانا ہے، تاکہ وہ صہیونی حکومت کے لئے خطرہ نہ رہیں۔ جنرل پوردستان نے کہا کہ انھوں نے اس منصوبے کو عراق کی تقسیم سے شروع کیا، جس کے مطابق عراق کو تین حصوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ شمالی عراق میں کرد حکومت قائم کرنا اور وسطی عراق کو ایک سنی مملکت میں تبدیل کیا جانا تھا، جبکہ جنوبی عراق کو ایک شیعہ مملکت بنایا جانا تھا۔ اسی طرح شام اور سعودی عرب کی تقسیم بھی منصوبے کا حصہ ہے۔ انھوں نے ایران کی تقسیم کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے، جس کے مطابق ایرانی کردستان کو جدا کرکے عراقی کردستان میں ملحق کیا جانا تھا۔ ایرانی خوزستان کو شیعہ عراق کا حصہ بننا تھا۔ ایرانی بلوچستان اور پاکستانی بلوچستان کو آپس میں ملا کر ایک ملک بنایا جانا تھا، لیکن وہ عراق میں کامیاب نہیں ہوسکے، شام میں بھی انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جنرل پوردستان نے واضح کیا کہ اگر کردستان میں ریفرنڈم ہوا تو ایران کردستان کے ساتھ اپنی ساری سرحدیں بند کر دے گا۔ ایک اطلاع کے مطابق سپاہ قدس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی نے کچھ عرصہ پہلے اربیل کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں انھوں نے کرد راہنماؤں کو ریفرنڈم سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی نے عراقی کردستان کو شدید مشکلات سے نکلنے کے لئے مدد فراہم کی تھی۔

وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں علیحدگی کے لئے عراقی کردستان میں اعلان کردہ ریفرنڈم کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ریفرنڈم کے نتیجے میں داعش کے خلاف جاری کوششوں کو نقصان پہنچے گا، نیز داعش سے آزاد کروائے گئے علاقوں کی بحالی کے لئے جاری کام متاثر ہوگا۔ ایسا ہی ایک بیان برطانیہ کی طرف سے بھی جاری کیا گیا ہے۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ اصولی طور پر تو علیحدگی کے لئے مجوزہ ریفرنڈم کے حامی ہیں، البتہ وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی اسے ملتوی کیا جانا چاہیے۔ یو این او کی طرف سے جاری کیا گیا بیان بھی امریکی اور برطانوی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ اس میں بھی داعش کے خلاف جاری مہم کے متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی فقط دھوکہ دہی کی ایک کوشش ہے کیونکہ عراقی کردستان میں ریفرنڈم کے خلاف جب بغداد کی حکومت فوجی اقدام کرے گی تو یقینی طور پر داعش اور دیگر دہشت گرد قوتوں کو وسطی عراق میں سر اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے۔ اس طرح بغداد حکومت دو محاذوں کی طرف متوجہ ہو جائے گی، شاید امریکہ یہی چاہتا ہے۔ نیز ہم جانتے ہیں کہ خطے میں اسرائیل کی پالیسیاں دراصل امریکی پالیسیوں ہی کی غماز ہوتی ہیں۔ چنانچہ اسرائیل کی طرف سے اس ریفرنڈم کی حمایت بہت معنی خیز ہے۔ اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس نے کھل کر عراقی کردستان کو ایک آزاد مملکت بنانے کی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے 12 ستمبر2017ء کو جنوبی امریکہ کے دورے کے دوران میں اعلان کیا کہ اسرائیل کرد عوام کی اپنی آزاد مملکت کے حصول کی قانونی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔

دوسری طرف اسرائیل کے راہنما ترک کردستان کی تنظیم پی کے کے کے بارے میں مختلف بیانات دیتے رہتے ہیں۔ نتین یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ پی کے کے کو ایک دہشت گرد گروہ سمجھتے ہیں، جبکہ اسرائیلی فوج کے سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف یائیر گولان نے واشنگٹن میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پی کے کے کو دہشت گرد گروہ نہیں سمجھتے۔ امریکہ شام میں بھی کردوں کا ایک خود مختار علاقہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس نے یہی وعدہ کرکے شامی کردوں پر مشتمل ایک فوج تشکیل دی ہے، جو اس وقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی کے ساتھ شام کے اندر جنگ آزما ہے۔ بظاہر یہ گروہ رقہ کے علاقے میں داعش کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ ترکی نے شامی کردوں پر مشتمل مسلح گروہ کی تشکیل اور اس کے لئے کئے جانے والے امریکی اقدامات کی مخالفت کی ہے۔ سی آئی اے کے ایک سابق عہدیدار فلپ گیرالڈی نے سپوتنک سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ شامی کرد دستوں کی سب سے زیادہ مخالفت ترکی کی طرف سے متوقع ہے۔ ان حالات میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر 25 ستمبر 2017ء کے ریفرنڈم کا اعلان واپس نہیں ہوتا تو مشرق وسطٰی میں ایک نئی جنگ شروع ہونے کا امکان بہت بڑھ جائے گا۔ البتہ اب اس جنگ میں عراق، شام، ترکی اور ایران اتحادی ہوں گے، جبکہ امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادی دوسری طرف ہوں گے۔ یقینی طور پر پہلے چار ملکوں کو روس کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔ عراقی کردستان ایک الگ مملکت تو نہیں بن سکے گا، لیکن دنیا تشکیل نو کا ایک نیا مرحلہ ضرور طے کرے گی۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں کیا نقطۂ نظر اختیار کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 670827
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش