0
Friday 22 Sep 2017 21:30

کیا محرم الحرام کا پیغام نوحہ و ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں

کیا محرم الحرام کا پیغام نوحہ و ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

انسان آج بھی جب تاریخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے تو اسے دور دور تک لق و دق صحرا میں گھوڑوں کی ٹاپوں سے اٹھتے ہوئے گرد و غبار کے درمیان سونتی ہوئی تلواروں، ٹوٹی ہوئی ڈھالوں اور پاش پاش لاشوں کے درمیان میں ٹوٹی ہوئی تلوار کی ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا ایک ایسا شخص نظر آتا ہے، جس کے استغاثے کی آواز چاروں طرف پھیلے ہوئے لشکر اعداء کے سینے کو چیر کر آفاق ہستی کے قلب و جگر میں اتر رہی ہے۔ چودہ سو برس گزر گئے، مارنے والے اسے مار رہے ہیں، کوئی زبان کے نشتر چبھو رہا ہے، کوئی تیر پھینک رہا ہے، کوئی تلوار کے وار کر رہا ہے، کوئی پتھر مار رہا ہے۔۔۔۔۔ لیکن کوئی نہیں، کوئی نہیں۔۔۔ جو اس کی آواز پر آواز دے، جو اس کی پکار پر لبیک کہے، وہ چودہ صدیوں سے تاریخ بشریت کے صفحات میں تنہا ہے اور بس تنہا ہے۔ یوں تو اس کے گھر کی ہر چیز 10 محرم کو لوٹ لی گئی تھی، لیکن اس کا سر تن سے جدا ہونے کے بعد اس پر جو مظالم ڈھائے گئے، انہیں کسی مورخ نے ضبط تحریر میں نہیں لایا، کسی ادیب نے قلمبند نہیں کیا اور کسی شاعر نے شعری سانچے میں نہیں ڈھالا۔

یہ ایسا مظلوم ہے کہ جس کے مال و متاع کو دشمنوں نے لوٹا اور جس کے درد و غم، فکر و دانش، عزت و شرف اور پیغام و تحریک کو اپنوں نے سبوتاژ کیا۔ کسی نے اس مظلوم کے غم کو معاش کا ذریعہ بنایا، کسی نے اس کے ماتم کو نام و نمود کا وسیلہ بنایا، کسی نے اس کی تحریک کے لیبل کو اپنی کامیابی کا زینہ بنایا، کسی نے اس کے دین کو اپنا پیٹ پالنے کا سہارا بنایا۔ یہ وہ مظلوم ہے جس کی سسکیاں آج بھی فضاوں میں سنائی دے رہی ہیں اور جس کے گوشت کے چیتھڑے بازاروں میں بک رہے ہیں، مگر کوئی نہیں جو اس ظلم کے خلاف احتجاج کرے، کوئی نہیں جو اس سفاکیت کے خلاف اپنی زبان کھولے، کوئی نہیں جو ریاکاری، جھوٹی دینداری اور فریبی انقلابیت کے خلاف اپنا قلم اٹھائے۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں "حسین (ع) کل بھی تنہا تھے، حسین (ع) آج بھی تنہا ہیں۔"

قارئین محترم۔۔۔۔۔ اپنی اصلاح اور تذکیہ نفس کے بغیر معاشرے کی اصلاح کے نعرے لگانا، حسینیت نہیں ہے اور دین کے نام پر پیسے بٹورنا، کوٹھیاں، بلڈنگیں، محلات، گاڑیاں، بینک بیلنس اور جائیدادیں بنانا بھی حسینیت نہیں ہے۔ حسینیت تو یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنی اصلاح کرے، اپنا تذکیہ نفس کرے اور راہ خدا میں سب سے پہلے اپنا گھر بار قربان کرے اور پھر دوسروں کو بھی اسی طرح قربانی کی دعوت دے۔ ہاں یہ لوگ حسینی ہیں اور حسینی ایسے ہی ہوتے ہیں، انجمنوں کے عہدے، ٹرسٹوں کے ڈھانچے، نعروں کے چربے، پوسٹروں کے انبار اور ریلیوں کے اجتماعات کسی کو حسینی نہیں بنا سکتے۔ حسینی بننے کے لئے کسی فنڈ اور کسی امداد کی ضرورت نہیں بلکہ خلوص نیت، طہارت نفس اور جذبہ ایثار کے ساتھ خود میدان میں اترنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے دین کو رقم سمیٹنے اور نام و نمود کا ذریعہ بنا لیا ہے تو پھر ہمارا حسینیت سے کوئی تعلق نہیں اور ہم بھی حسینیت کے راستے میں کھڑی ایک دیوار ہیں۔

جب کوئی انسان خلوص نیت اور تذکیہ نفس کے ساتھ میدان عمل میں اترتا ہے تو پھر وہ ٹرسٹوں کے عہدوں، انجمنوں کے چندوں اور تنظیموں کے پوسٹروں کے چکروں میں نہیں پڑتا۔ پھر وہ دین کو غریب بنا کر، مسلمان کو فقیر بنا کر اور نعوذ باللہ حضرت امام حسین (ع) کو مسکین بنا کر پیش نہیں کرتا۔پھر وہ حسین ابن علی (ع) کی طرح امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے تن تنہا میدان میں اتر جاتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا محرم الحرام کا پیغام نوحہ و ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں، اگر ہم نے یہ نہیں سوچا تو پھر کسی مفکر کے بقول:
طوفان نوح سے قبل کے عشروں میں
چھوٹے چھوٹے سیلاب آتے رہے وقفوں کے ساتھ
اور پانی مختلف سطحوں تک چڑھتا رہا
بعض علاقوں میں لوگ سیلاب کے اتنے عادی ہوگئے
کہ وہ خشکی پر بھی کشتیوں میں رہنے لگے
پانی کو قابو میں کرنے کا علم ترقی کرتا گیا
اس سے قبل کبھی اتنے عظیم بند نہ بنائے گئے تھے
جتنے طوفان نوح سے قبل بنائے گئے
ایک معیّن سال میں لوگوں نے سوچا کہ خطرہ ہمیشہ کے لئے ٹل گیا ہے
اس سے اگلے سال
طوفان نوح آیا اور بہا لے گیا
سارے بند اور ان کے معماروں کو
خبر کا کوڈ : 671144
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش