0
Saturday 23 Sep 2017 13:45

الیکشن بل 2017ء، ایک ووٹ سے نااہل نوازشریف پھر اہل

الیکشن بل 2017ء، ایک ووٹ سے نااہل نوازشریف پھر اہل
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

ایوان بالا نے ترامیم کے ساتھ الیکشن بل 2017ء کی کثرت ِ رائے سے منظوری دیدی ہے، سینیٹ نے قومی اسمبلی سے منظور شدہ انتخابی اصلاحات کا بل اعتزاز احسن کی ترمیم کو مسترد کرکے منظور کر لیا ہے، جس سے نااہلی کے باوجود نواز شریف کے دوبارہ پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار ہوگئی۔ اس دوران تحریک انصاف کے 7 ارکان بھی ایوان میں موجود نہیں تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود حکومت انتخابی اصلاحات کا بل منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ اعتزاز احسن کی ترمیم 37 کے مقابلے میں 38 ووٹوں سے مسترد کر دی گئی۔ بل کے تحت کوئی بھی نااہل یا سزا یافتہ شخص پارٹی سربراہ بن سکے گا، ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن کی ترمیم ایک ووٹ کے فرق سے منظور نہیں ہوسکی۔ اعتزاز احسن کی ترمیم کے حق میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق)، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نے ووٹ دیئے، جبکہ مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت محسن لغاری کے علاوہ ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے حکومت کی حمایت کر دی۔ ایوان بالا میں ترامیم کے بعد بل کی دوبارہ قومی اسمبلی سے منظوری لی جائے گی۔ واضح رہے کہ دینی جماعتوں کی خواتین کی دس فیصد پارٹی ٹکٹوں کی شق کو حذف کرنے، کاغذات نامزدگی میں حلفیہ اقرار نامے کو برقرار رکھنے کی ترامیم بھی مسترد کر دی گئیں۔

ملکی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ میں ترمیم پر ترمیم کی منظوری دی گئی اور حکومت نے چیئرمین سینیٹ کی رولنگ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جس پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی ایوان کی صدارت سے اٹھ کر چلے گئے اور اپنی رولنگ کو حکومت کی جانب سے چیلنج کرنے پر یہ معاملہ ایوان کے سپرد کر دیا، ایوان نے کثرت رائے سے اپنے چیئرمین کے فیصلے کی مخالفت کر دی۔ تحریک انصاف نے رضا ربانی کا ساتھ دیتے ہوئے چیئرمین کے اجلاس سے چلے جانے پر کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا، جبکہ پیپلز پارٹی کے تین اراکین نے بھی حکومت کا ساتھ دیا۔ چیئرمین رضا ربانی کی زیر صدارت اجلاس میں وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے انتخابات بل 2017ء قائمہ کمیٹی سے منظور ہونے والی ترامیم کے ساتھ پیش کیا۔ اس سے ایک دن قبل بھی 6 ترامیم ایوان بالا میں پیش کی گئیں۔ چیئرمین سینیٹ نے اپنے فیصلے کے حق میں کثرت رائے نہ ملنے پر اخلاقی طور پر اجلاس کی صدارت چھوڑ دی اور اجلاس کی کارروائی کو معطل کر دیا۔ چیئرمین سینیٹ اجلاس کی صدارت کیلئے آمادہ نہ ہوئے تو ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری کی صدارت میں اجلاس کی مزید کارروائی کو آگے بڑھایا گیا۔ عائشہ رضا نے سینیٹر اعظم سواتی کی منظور کردہ ترمیم میں ترمیم پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

نماز جمعہ کے وقفہ کے بعد اجلاس سینیٹر مظفر حسین شاہ کی صدارت میں ہوا۔ اپوزیشن لیڈر چوہدری اعتزاز احسن نے نااہل اور سزا یافتہ شخص پر کسی جماعت کا صدر بننے کی پابندی برقرار رکھنے کی ترمیم پیش کی، حکومت نے ترمیم کی مخالفت کی۔ وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے ذیلی کمیٹی میں اس ترمیم کی حمایت کی تھی اور اب اس میں اپوزیشن لیڈر ترمیم لے آئے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت نے خاموشی سے یہ ترمیم منظور کرائی ہے اور جب ہم آگاہ ہوئے ہیں تو ہم ترمیم لے آئے ہیں، اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ سزا یافتہ شخص کسی جماعت کا صدر بن سکے۔ سینیٹر مظفر حسین سید نے اپوزیشن لیڈر کی ترمیم پر رائے شماری کرائی ترمیم کو 38 ارکان نے مسترد کر دیا، 37 ارکان نے ترمیم کی حمایت کی۔ ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے اراکین میاں عتیق، طاہر حسین مشہدی، جہانزیب جمال دینی نے اس معاملے میں حکومت کا ساتھ دیا اور سزا یافتہ شخص کو بھی پارٹی صدر بنانے کی اجازت دینے کی شق 203 کو ایک ووٹ کی برتری سے منظور کر لیا گیا۔ بل مجموعی طور پر 241 شقوں پر مشتمل ہے۔ بل کے تحت الیکشن کمیشن انتخابات سے چھ ماہ قبل لائحہ عمل مرتب کرے گا، ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی، ایک سے دوسرے پولنگ سٹیشن کا فاصلہ ایک کلومیٹر سے کم ہوگا۔

قومی اور صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر پانچ فیصد ٹکٹ خواتین کو دینا ہوں گے۔ بل کے نافذ العمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کو مکمل مالی و انتظامی خود مختاری حاصل ہو جائے گی، الیکشن کمیشن انتخابات سے 6 ماہ قبل اپنا لائحہ عمل تیار کرے گا، قومی اسمبلی میں اس نئے قانون کی 155 شقیں یکجا کرکے اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی ہیں، جبکہ باقی شقیں بعض ترامیم کے ساتھ منظور کی گئیں، نئے قانون کے مطابق نامزدگی فارم کو سادہ بنا دیا گیا ہے، ایک رکن کی جانب سے دولت گوشوارہ جمع کرانے کیلئے وہی فارم ہوگا، جیسا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے تحت جمع کرایا جاتا ہے، انتخابی تنازعات نمٹانے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی، ہر ضلع کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے تشکیل کردہ حلقہ بندی کمیٹی کی جانب سے مقامی حکومت کی حلقہ بندیاں کی جائیں گی، نگران حکومت کے فرائض کو روزانہ کے غیر متنازعہ معاملات تک محدود کر دیا گیا ہے، ماسوائے ضروری معاملات کے یہ بڑے پالیسی فیصلے نہیں کرے گی، سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے لازم ہوگا کہ اس کے ممبران کی تعداد 2 ہزار ہو، جبکہ رجسٹریشن فیس 1 لاکھ روپے ہوگی، کسی بھی سیاسی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز لینے پر پابندی ہوگی، ایک لاکھ سے زائد چندہ دینے والے افراد کی فہرست کمیشن کو مہیا کی جائے گی۔

کوئی بھی سیاسی جماعت جس کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے غیر ملکی امداد حاصل کی ہے یا وہ بیرونی فنڈز سے تشکیل دی گئی ہے یا وہ پاکستان کی خود مختاری یا سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے یا دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کے بارے میں حکومت سرکاری جریدے میں نوٹیفکیشن کے ذریعے اس کو تحلیل کرنے کا اعلامیہ جاری کرے گی۔ حکومت پندرہ دن کے اندر یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوائے گی، ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی، ایک صوبے میں ایک حلقے سے دوسرے حلقے میں ووٹوں کا تناسب دس فیصد سے زائد نہیں ہوگا، امیدواروں کو ووٹروں کی تصاویر پر مشتمل انتخابی فہرستیں فراہم کی جائیں گی، کمیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت سے سیاسی جماعتوں، امیدواروں، پولنگ ایجنٹوں، سکیورٹی عملہ، میڈیا اور مبصرین کیلئے ضابطہ اخلاق مرتب کرے گا۔ پولنگ سٹیشنوں پر حملہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، ہتھیاروں کی نمائش، انتخابی عمل میں خلل ڈالنے پر پریزائیڈنگ آفیسر یا پولنگ عملے کے اغوا کی کوشش یا بیلٹ باکس کے بیلٹ پیپرز چھیننے کی کوشش پر پریزائیڈنگ آفیسر، ریٹرننگ آفیسر کو واقعہ کی تحریری رپورٹ کرے گا اور مبینہ قصور وار کے خلاف مقدمہ کے اندراج کیلئے معاملہ ضلعی پولیس کے سربراہ کے سپرد کیا جائے گا۔ اگر کسی حلقے میں دو امیدواروں کے درمیان ووٹ برابر ہوں گے تو انہیں آدھی آدھی مدت کیلئے منتخب تصور کیا جائے گا، پہلی مدت کیلئے قرعہ اندازی سے فیصلہ کیا جائے گا، الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف 30 یوم میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔

انتخابات کے نتائج کے اجرا کے 30 دن کے اندر کامیاب امیدوار کے علاوہ تمام امیدواروں کی جانب سے انتخابی اخراجات کا گوشوارہ جمع کرانا لازمی ہوگا، نامزدگی کے بعد اگر کوئی امیدوار وفات پا جاتا ہے تو اس حلقے میں انتخاب ملتوی کر دیا جائے گا، اگر کسی حلقے میں بڑے پیمانے پر شکایات ہوں تو مجاز افسر پولنگ روک سکے گا، حساس پولنگ سٹیشنوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جائیں گے، کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کے اجراء کے ساتھ ہی اس شخص کا ووٹر فہرست میں نام بھی درج ہو جائے گا، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز ہوں گے، رائے دہی کا عمل 8 گھنٹے تک ہوگا۔ کمیشن انتخابی فہرستوں میں غیر مسلموں، معذور افراد اور شہریوں کی رجسٹریشن کیلئے خصوصی اقدامات کرے گا، ووٹ ایک ہی جگہ پر درج ہوگا، کمیشن ہر سال کے اختتام کے 90 ایام کے اندر اپنی سالانہ سرگرمیوں کی رپورٹ شائع کرے گا، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو اس کی کاپی ارسال کی جائے گی، وفاقی و صوبائی حکومتیں یہ رپورٹ دو ماہ کے اندر اپنے متعلقہ ایوانوں میں پیش کریں گی، عام انتخابات سے کم از کم 6 ماہ قبل حلقہ بندیاں، انتخابی فہرستوں پر نظرثانی، سیاسی جماعتوں کے اندراج، نشانات متعین کرنے، انتخابی عملہ کے تقرر، پولنگ سٹیشنوں کے عملے کی فہرست، انتخابی نتائج کیلئے شفاف نتیجے کے نظام کا قیام، کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کا تعارف، انتخابی مبصرین کیلئے ضابطہ اخلاق متعارف کرایا جائے گا۔

قریب ایک ہفتہ قبل سینیٹر جاوید عباسی کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے قانون نے الیکشن بل 2017ء کی ترامیم کے ساتھ منظوری دے دی تھی، لیکن الیکشن کمیشن کی شدید مخالفت کے بعد کمیٹی نے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کا اختیار ختم کرنے سے متعلق ترمیم رد کر دی۔ سینیٹ نے ترامیم کے ساتھ الیکشن بل 2017ء کی منظوری دے دی تو بل دوبارہ منظوری کے لئے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ پاکستان کی مختلف جماعتوں کی جانب سے الیکشن بل کے حوالے سے بہت سے اختلافات موجود ہیں اور اب تک یہ بل حتمی شکل میں سامنے نہیں آسکا، امکان ہے کہ قومی اسمبلی میں حکومت کو یہ بل اپنی مرضی کی ترامیم کے ساتھ منظور کروانا اتنا آسان نہ ہوگا۔ ا نتخابات بل 2017ء کی منظوری کے موقع پر قائد ایوان راجہ ظفرالحق اور وفاقی وزیر سعد رفیق ایوان میں سرگرم نظر آئے، جبکہ بل کی منظوری کے قانونی معاملات کو وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے موثر طریقے سے مکمل کیا اور خاص طور پر شق 203 میں ترمیم سے قبل حکومتی ارکان کی گنتی پورے کروانے کیلئے خواجہ سعد رفیق نے اہم کردار ادا کیا۔ حکومت کی طرف سے انتخابات بل 2017ء کی سزا یافتہ شخص کو کسی جماعت کا صدر بنانے کی اجازت دینے کی شق پر حمایت کرنے پر ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا گیا۔ سینیٹ میں قائد ایوان اور وفاقی وزراء نے حمایت کرنے پر ان جماعتوں کی ارکان کی نشستوں پر جاکر باضابطہ طور پر شکریہ ادا کیا۔ بل کی منظوری کے عمل میں مسلم لیگ (ن) کے ناراض سینیٹر ذوالفقار کھوسہ نے بھی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ بل منظور ہوا تو حکومتی ارکان کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے۔

قومی اسمبلی سے بل منظور ہونے کے بعد صدر مملکت کو توثیق کے بعد انتخابات بل 2017ء کو ایکٹ کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ اس قانون کے نفاذ کا سب سے پہلے فائدہ میاں نواز شریف اٹھائیں گے، جو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کا ٹارگٹ بننے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے الگ ہوگئے ہیں۔ سینیٹ سے انتخابات بل 2017ء کی شق نمبر 203 کے ساتھ منظوری کے بعد میاں نواز شریف سے لندن میں رابطہ قائم کیا گیا اور انہیں بل کی منظوری کی نوید سنائی گئی۔ بل کی منظوری میں ایم کیو ایم کے ایک رکن، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ایک رکن نے اہم کردار ادا کیا۔ قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق، وفاقی وزراء خواجہ سعد رفیق، زاہد حامد، مشاہد ﷲ خان اور سینیٹر چوہدری تنویر خان نے بل کی منظوری کیلئے پورا پہرہ دیا۔ انہوں نے میاں عتیق، جہانزیب جمالدینی سمیت اپوزیشن کے ان ارکان کی نشستوں پر جاکر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انتخابات بل 2017ء کے قانون بننے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے نئے صدر کا انتخاب روک دیا جائے گا۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے تحت 7 روز میں قائم مقام صدر مقرر کرنا اور 45 روز کے اندر نیا صدر منتخب کرنا، قانونی تقاضا ہے جو اب ختم ہو جائے گا۔ انتخابات بل 2017ء کی منظوری سے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اب عدالت سے سزا یافتہ کوئی شخص کسی بھی سیاسی جماعت کا عہدیدار منتخب ہوسکے گا۔ بل کے ایکٹ بننے کے بعد عوامی مسلم لیگ سمیت کچھ جماعتوں کے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کئے جانے کا امکان ہے۔
خبر کا کوڈ : 671281
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش