0
Saturday 30 Sep 2017 19:47

ایک رات اور دن، تاریخ کا انوکھا ورق

ایک رات اور دن، تاریخ کا انوکھا ورق
تحریر: ارشاد حسین ناصر

دو محرم کو جس ریگزار پر آکے امام حسین ؑ نے پڑاؤ ڈالا تھا، وہ کوئی عام جگہ نہ تھی، نہ ہی ادھر کسی کا عمومی طور پہ آنا جانا تھا، بس ایک تپتا صحرا جس کی گرم ریت انسانوں کو تیز گرم ہوا کے ساتھ جھلسا دیتی تھی اور لوگ اس سے خوف کھاتے تھے اور کیا عجب تھا کہ جب امام ؑ نے پڑاؤ کا حکم دیا تو سیدہ زینب سلام اللہ نے گھبرا کے کہا بھائی مجھے اس جگہ سے تمہارے خون کی خوشبو آتی ہے، یہاں سے نکل چلیں، مگر امر الٰہی کو جاننے والے معصوم امام نے یہی کہا کہ ہم اسی جگہ رکیں گے اور اسی جگہ ہماری جنگ ہوگی، کیا عجیب تھا یہ فیصلہ بھی کہ جب بچے، خواتین اور کم سن ساتھ تھے، بیبیاں بھی وہ جنہوں نے نبوت و امامت کے ناز اٹھائے تھے اور اپنے گھروں سے باہر نہیں آتی تھیں۔ اس ویرانے کو امام حسین ؑ نے آکر آباد کر دیا، جو لشکر حر کی قیادت میں آیا، اسے سخت پیاس لگی تھی، اسے اور اس کے جانوروں کو پانی پلایا گیا اور ساتھ لے کر جانے کی بھی اجازت دی، یعنی امام جو ایک لمبا سفر طے کرکے یہاں پہنچے تھے، ان کے پاس پانی کا اتنا ذخیرہ موجود تھا کہ ایک لشکر کو سیراب کر دیا۔ دو محرم سے لیکر شب عاشور تک یہاں کس قدر خوف ہوگا، ذرا سوچیں، چند نفوس اور خواتین و بچوں کی جو حالت ہوگی، اس کا تصور کریں۔ یزیدی افواج کی طرف سے حملوں اور لوٹ مار کے علاوہ بھی ان دنوں میں اور گہرے کالے سیاہ اندھیرے والی راتوں میں کسے نیند آتی ہوگی، کسے آرام کا خیال آتا ہوگا، اس لئے کہ ان میں سے کوئی بھی اس طرح کی زندگی کا روادار یا عادی نہ تھا، جبکہ ہر دم یزیدی افواج کے حملوں کا خطرہ موجود رہتا تھا، کئی ایک حملے ہوئے بھی ہونگے، جن کو ٹالا گیا۔

امام ؑ نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ وہی جگہ ہے، جہاں ہم قتل کئے جائیں گے، جہاں ہمارا پاک خون بہایا جائے گا، جہاں ہماری عزتیں پائمال کی جائیں گی، جہاں ہمارے مال و اسباب کو لوٹ کر خیام کو آگ لگائی جائے گی۔ یہ سب امام کو معلوم تھا، امر خدا اور حکم الٰہی و مشیت سے آگاہ امام وقت مقرر تک جنگ کو ٹالتے رہے اور پھر وہ رات آن پہنچی جس میں امام ؑ نے اپنے اصحاب و انصار کو جمع کیا اور اگلے دن کا نقشہ کھینچا۔ امام ؑ نے جب مکہ سے مدینہ اور پھر کربلا کیلئے نقارہ کوچ بجایا تو کسی کو دھوکے میں نہیں رکھا، کسی کو لالچ نہیں دیا، کسی کو سنہرا مستقبل اور اقتدار کی طاقت ملنے اور وزارتوں، مشاورتوں اور اختیار و طاقت کا دھوکہ نہیں دیا، امام ؑ کو ایسے کسی بھی شخص اور مددگار کی ضرورت نہ تھی، جو کسی دنیاوی لالچ کیلئے ساتھ دیتا بلکہ امام ؑ جانثاروں کی ضرورت تھی، امام ؑ کو وفاداروں کی ضرورت تھی، امام ؑ نیک، صالح اور پروردگار کے پیاروں کی ضرورت تھی، سو امام ؑ تمام سفر اپنی منزل اور مستقبل کا نقشہ بتاتے آئے، کسی کو اندھیرے میں نہیں رکھا اور آج کی شب جسے شب عاشور کہا گیا، اس شب بھی ایک بار پھر امام ؑ نے اپنے تمام اصحاب و انصار، حتٰی اقرباء کو اپنے خیمہ میں جمع کیا اور ان سے واشگاف الفاظ میں کہا کہ میں بیعت اٹھا لیتا ہوں، رات کی تاریکی ہے، ان لوگوں کی مجھ سے دشمنی ہے، میں کل شہید کیا جاؤں گا، آپ چلے جائیں۔ کیا لوگ جمع کئے تھے نبی کے نور عین نے کہ ہر ایک اپنی زبان میں کہہ اٹھا کہ ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک آپ کی رہبری و امامت میں بہائیں گے اور فخر کریں گے، سب سے پہلے تو بھائی ابولفضل ؑ نے کلام کیا، لا ارانا اللہ ذلک ابدا،، خدا کبھی ایسا دن نہ دکھلائے کہ ہم آپ کو چھوڑ کر اپنے گھروں کی طرف پلٹ جائیں، اس کے بعد تمام بنی ہاشم نے یہی بات دہرائی۔

جناب عقیل کے صاحبزادوں کو جب امام ؑ نے یہ کہا کہ تمہاری طرف سے مسلم ؑ کی قربانی کافی ہے، تم لوگ چلے جاؤ، میں تمہیں اجازت دیتا ہوں، تو وہ یک زبان ہو کر بولے کہ اگر ہم چلے گئے اور ہم سے پوچھا گیا کہ اپنے مولا و آقا کو چھوڑ کر کیوں چلے آئے، تو ہم کیا جواب دیں گے، نہیں خدا کی قسم ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے، ہم آخری دم تک آپ کی رکاب میں رہتے ہوئے جنگ کریں گے۔ اسی موقعہ پہ مسلم ابن عوسجہ نے بھی خطاب کیا اور کہا ہم کیسے آپ کی مدد سے ہاتھ اٹھا لیں؟ اس صورت میں خدا کے حضور کیا عذر پیش کریں گے؟ خدا کی قسم میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، اپنے نیزے سے آپ کے دشمنوں کے سینے چھید ڈالونگا اور جب تک تلوار ہاتھ میں ہے، ان سے جنگ کرونگا اور اگر کوئی اسلحہ نہ رہا تو پتھروں سے ان پر حملہ کروں گا، یہاں تک کہ اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دوں گا۔ زہیر ابن قین کی صدا آئی؛ اے فرزند رسولؐ! خدا کی قسم میں تو چاہتا ہوں کہ آپ کی حمایت میں ہزار بار مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر مارا جاؤں اور ہر بار میری یہ آرزو ہو کہ میرے مارے جانے سے آپ ؑ یا ان بنی ہاشم کے کسی جوان کی جان بچ جائے۔ کیا یہ وقت سرزمین کربلا پر قیامت سے کم تھا، ایسا منظر کسی شب نے دیکھا تھا، ایسی گفتگو، ایسا جذبہ، ایسی تیاری و آمادگی کسی نے پھر نہ دیکھی، یہی وہ گھڑی تھی جس دم شہدائے کربلا پہچانے گئے، آخری بار آزمائے گئے، ان کی استقامت اور شجاعت نیز آمادگی کا پتہ چل گیا کہ صبح کا سورج امام حسین ؑ کے اصحاب و اعوان کے وہ جوہر دیکھے گا، جو اسے کبھی دیکھنے نصیب نہیں ہوئے تھے اور نہ ہونے والے تھے۔ صبح کا سورج شائد رات کے اس پہر کی منظر کشی اور امام کے اصحاب کے موت دکھانے پر جوابات سن کے عش عش کرتا اور سورج کے سامنے اتراتا کہ اس نے ایسا منظر دیکھا، ایسی وفا دیکھی جو انتہا سے بھی آگے ہے۔

اسی طرح رات کی تاریکی میں شب کے ستارے اس خیمہ حسینی میں برپا اس کائنات کی سب سے افضل عبادت اور سچے جذبوں کو دیکھ کے کتنا للچاتے ہونگے کہ اے کاش! وہ بھی اصحاب امام ؑ ہوتے اور انہیں بھی اذن جہاد ہوتا، انہیں بھی اپنا لہو ان کے حکم پر بہانے کا اذن ہوتا تو وہ دریغ نہ کرتے، اس شب صحرا میں چلنے والی ہوا بھی ادھر ادھر چلتے پھرتے کس قدر پریشان ہوئی ہوگی اور اسے کس قدر رشک آیا ہوگا کہ اے کاش وہ بھی اصحاب امام ؑ میں شمار ہوتی اور ان وفاؤں کے قصوں میں شمار کی جاتی، مگر یہ اعزاز تو کسی نبی کے اصحاب کو بھی حاصل نہیں ہوا، سورج نے جو منظر اس دن دیکھا، وہ یہی کہتا رہا کہ اے کاش اس دن یہی رات طویل ہوجاتی اور میں طلوع نہ ہوتا، اے کاش زہرا سلام اللہ کا لاڈلا اور نبی زادیوں کو بے مقنعہ و چادر نہ دیکھتا، اے کاش میں اس دن ڈوبتا اور پھر کبھی نہ نکلتا۔ بقول غالب
موج سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ مثلِ جوہرِ تیغ آب دار تھا

اور پھر عصر عاشور کا وقت میدان کربلا میں جب ہر سو لاشے پڑے تھے، امام حسین ؑ اکیلے بچ گئے تھے اور خیام سے روانہ ہوئے، کیا کہرام برپا ہوا، کیا سخت گھڑیاں تھیں، جب امام حسین ؑ اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ خیام میں پاکباز بیبیاں ہیں اور بیمار سید سجادؑ اور کم سن باقر ؑ ہے، ایسے میں عشق کی سچائی اور صداقت کا امتحان کیلئے جانا اس قدر گراں ہے کہ یہ حوصلہ انبیاء میں بھی نہیں دکھائی دیتا، جس کے سامنے اتنے قیمتی لوگ مارے گئے ہوں، اسے تو ویسے ہی ناتوانی اور ضعف سے موت آجاتی ہے، مگر کیا صبر تھا ابن علی ؑ کا، کائنات کو کیا منظر دکھایا کہ آج چودہ صدیاں گذر جانے کے باوجود اس سے نظریں نہیں ہٹتیں۔۔ بقول شاعر
اے اہل عالم کن آنکھوں سے وہ منظر دیکھا تم نے
جب شمع اکیلی روشن تھی اور کوئی نہ تھا پروانوں میں
خبر کا کوڈ : 672847
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش