0
Friday 29 Sep 2017 15:23

سیکولرازم، ائمہ معصومین علیہم السلام کی نظر میں

سیکولرازم، ائمہ معصومین علیہم السلام کی نظر میں
تحریر: حجۃ الاسلام داعی نژاد

سیکولرازم (Secularism) درحقیقت انگریزی زبان کا لفظ ہے جو یونانی اساس seculum سے ماخوذ ہے جس کا معنی "یہ دنیا" ہے۔ سیکولرازم ایک ایسی قسم کی آئیڈیالوجی (نظریہ) ہے جس کی بنیادیں قدرتی اخلاق پر استوار ہیں اور وحی اور ماورائے مادی امور سے بے بہرہ ہے۔ اس فلسفیانہ نظام کو پہلی بار جرج ایچ جے ہول یوک (George H. J. Hole Yuk) نے 1846ء میں برطانیہ میں رسمی طور پر متعارف کروایا۔

ائمہ معصومین علیہم السلام کو جب بھی موقع ملا انہوں نے اپنی رہبریت کی ضرورت بیان کی اور اس کے حصول کی کوشش کی۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی حکومت سے دوری کا مطلب دنیا اور سیاست سے دین کی علیحدگی نہ تھا بلکہ بعض اوقات سماجی حالات کا تقاضہ ان کی حکومت سے دوری کا باعث بن گیا۔ ذیل میں اپنے موقف کو ثابت کرنے کیلئے بعض مثالیں پیش کرتے ہیں:

الف) امام علی علیہ السلام
امام علی علیہ السلام ولایت اور رہبریت کے بارے میں فرماتے ہیں:
الولایۃ ھی حفظ الثغور و تدبیر الامور ۔۔۔ و الامام عالم بالسیاسۃ قائم بالریاسۃ (محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، جلد 25، صفحہ 170)
ترجمہ: "ولایت سرحدوں کی حفاظت اور حکومتی امور چلانے کیلئے ہے ۔۔۔۔اور امام سیاست سے آگاہ اور معاشرے کا مدیر ہے۔"
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
اتقوا الحکومۃ فان الحکومۃ انما ھی للامام العالم بالقضاء العادل فی المسلمین (حر عاملی، وسائل الشیعہ، جلد 18، صفحہ 7)
ترجمہ: "حکومت سے پرہیز کریں، بالتحقیق حکومت کا حق عالم، اسلام کے عدالتی امور سے آگاہ اور مسلمانوں میں عادل امام کو حاصل ہے۔"

اسی طرح امام علی علیہ السلام قاضی شریح سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
یا شریحُ قد جلستَ مجلساً لا یجلسہ الّا نبی او وصی او شقی (ایضاً)
ترجمہ: "اے شریح، تم ایسے مقام پر بیٹھے ہو جس پر یا تو نبی بیٹھتا ہے یا وصی اور یا شقی (بدبخت)۔"
امام علی علیہ السلام حکومت اور رہبریت اور اس کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
فدعائم الاسلام خمس دعائم: اولھا الصلوۃُ ثم الزکوۃُ ثم الصیامُ ثم الحجُّ ثم الولایۃ و ھی خاتِمتُھا و الحافظۃُ لجمیع الفرائض و السنن (حر عاملی، وسائل الشیعہ، جلد 1، صفحہ 18)
ترجمہ: "اسلام کے پانچ ستون ہیں: پہلا نماز، اس کے بعد زکات، اس کے بعد روزہ، اس کے بعد حج اور اس کے بعد ولایت۔ ولایت آخری ستون ہے اور تمام واجبات اور مستحبات کا محافظ ہے۔"

امام علی علیہ السلام کی جانب سے حکومت سے روگردانی کی وجوہات
حضرت علی علیہ السلام حکومت کو اپنا حق سمجھتے تھے اور اسے امامت کے شعبوں میں سے ایک شعبہ قرار دیتے تھے۔ امام علی علیہ السلام کی جانب سے حکومت قبول کرنے سے انکار اور روگردانی کا مطلب اسے دنیوی اور قابل مذمت امور میں شمار کرنا نہ تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جو حالات ان پر تھونپ دیئے گئے تھے وہ حکومت سے مناسب نہ تھے۔ مزید وضاحت کیلئے ذیل میں چند شواہد پیش کئے جاتے ہیں:

ایسی متعدد احادیث موجود ہیں جن کے ذریعے ائمہ معصومین علیہم السلام کی حکومت کا منصوب من اللہ ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ یہ احادیث اس بات پر بہترین دلیل ہیں کہ امام علی علیہ السلام کا حکومت سے دوری اختیار کرنے کا مطلب دین اور سیاست میں جدائی نہیں۔

پانچ سالہ خلافت کے دور میں امام علی علیہ السلام کی جانب سے حکومت حاصل کرنے کی کوششیں اور حاکمیت سے بہرہ برداری، سیاسی امور میں دین اور دینی پیشوا کی مداخلت کی ضرورت پر ایک اور دلیل ہے۔ امام علی علیہ السلام حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو مرکب پر سوار کرتے اور رات کی تاریکی میں انصار کے گھروں کی دستک دیتے تاکہ وہ شرم محسوس کریں اور آپ علیہ السلام کی بیعت کے تقاضے پر لبیک کہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ان میں چار پانچ افراد کے سوا باقی سب نے نت نئے بہانے بناتے ہوئے انکار کر دیا اور امام علی علیہ السلام سے منہ موڑ لیا۔ آپ علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

ثمّ اخذتُ بید فاطمۃَ و ابنیَّ الحسن و الحسین ثم دُرتُ علی اھل بدر و اھل السابقۃ فناشدتُھم حقّی و دَعَوتُھم الی نصرتی، فما اجابنی منھم الّا اربعۃُ رھط، سلمانُ و عمار و المقداد و ابوذر و ذھبَ من کنتُ اَعتضِدُبھم علی دین اللہ من اھل بیتی (محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، جلد 29، صفحہ 419)
ترجمہ: "تب میں نے فاطمہ (س) اور اپنے دو بیٹوں حسن اور حسین کا ہاتھ تھاما اور ان افراد کے پاس گیا جو اہل بدر میں سے تھے اور ایمان لانے میں سب سے پہل کرنے والے تھے۔ میں نے اپنا حق بیان کیا اور ان سے مدد مانگی لیکن چار افراد سلمان، عمار، مقداد اور ابوذر کے علاوہ کسی اور نے میری آواز پر لبیک نہ کہی۔ ان تمام افراد نے مجھ سے روگردانی اختیار کی جنہوں نے دین خدا اور اہلبیت کی مدد کا دعوا کر رکھا تھا۔"

امام علی علیہ السلام کی جانب سے امت کی رہبریت کا حقدار ہونے کی وضاحت اور یہ حق چھن جانے کا شکوہ۔
فانّہ لما قبض اللہ نبیّہ قلنا: نحن اھلہ و ورثتہ و عترتہ و اولیاوہ دون الناس، لا ینازعنا سلطانہ احد و لا یطمع فی حقنا طامع، اذا نبری لنا قومنا افغصبونا سلطان نبینا فصارت الامرۃ لغیرنا (ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، جلد 1، صفحہ 307)
ترجمہ: "جب رسول اکرم (ص) نے وفات پائی تو ہم نے کہا: ہم پیغمبر (ص) کے وارث ان کی عترت اور اولیا ہیں نہ دیگر افراد۔ حکومت کے مسئلے میں ہم سے نزاع نہ کرو اور کوئی لالچ کرنے والا ہمارے حق پر لالچ نہ کرے۔ ہماری قوم نے ہم سے بیزاری کا اعلان کر دیا اور پیغمبر (ص) کی حکومت کو غصب کر لیا اور دوسروں کو دے دی۔"

فواللہ مازِلتُ مدفوعاً عن حقّی مستاثراً علیّ منذُ قبض اللہ نبیّہ حتّی یوم النّاس ھذا (نہج البلاغہ، خطبہ 6)
ترجمہ: "پس خدا کی قسم رسول اکرم (ص) کی وفات سے لے کر آج تک میں ہمیشہ اپنے حق سے محروم رہا ہوں اور دوسروں نے ناحق طور پر خود کو مجھ پر ترجیح دے رکھی ہے۔"

الّلھم انّی استَعدِیکَ علی قریشِ و من اعانَھم فانَّھم قطعُوا رَحِمی و صغَّروا منزِلَتِی و اجمَعُوا علی مُنازِعَتِی امراً ھو لی (نہج البلاغہ، خطبہ 171)
ترجمہ: "خدایا میں قریش اور جنہوں نے اس کی مدد کی، کے خلاف تجھ سے مدد مانگتا ہوں۔ کیونکہ انہوں نے (رسول خدا ص سے) میرا تعلق قطع کر دیا اور میرے عظیم مقام اور منزلت کو چھوٹا جانا اور خلافت کے امر میں جو مجھ سے مخصوص تھا میری دشمنی پر آپس میں اکٹھے ہو گئے۔"

اریٰ تراثی نھباً (نہج البلاغہ، خطبہ 171)
ترجمہ: "میں دیکھ رہا تھا کہ میری میراث لوٹی جا رہی ہے۔"

امام علی علیہ السلام اہلبیت اطہار علیہم السلام کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لھم خصائصُ حقِّ الولایۃ و فیھم الوصیَّۃُ و الوراثَۃُ الآنَ اذ رَجَع الحقُّ الیٰ اھلِہِ و نقل الیٰ مُنتَقَلِہ (نہج البلاغہ، خطبہ 11)
ترجمہ: "امامت کی خصوصیات صرف ان میں پائی جاتی ہیں اور پیغمبر اکرم (ص) کی وصیت اور وراثت ان سے مخصوص ہے۔ اب یہ حق اس کے پاس واپس آ گیا ہے جو اس کا مستحق ہے اور ایسی جگہ منتقل ہوا ہے جہاں سے منحرف ہوا تھا۔"

خلیفہ دوم نے سلمان فارسی سے پوچھا: "کیا حضرت علی علیہ السلام اب بھی خلافت کی آرزو رکھتے ہیں؟"۔ سلمان فارسی نے جواب دیا: ہاں۔ خلیفہ دوم نے دوبارہ پوچھا: "کیا اب بھی ان کا یہی موقف ہے کہ رسول خدا (ص) نے واضح طور پر انہیں حکمران مقرر کیا تھا؟" ابن عباس نے کہا: "میں اس سے بڑی بات بتاتا ہوں۔ میں نے اپنے والد سے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں نص کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ صحیح کہتے ہیں۔" (ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، جلد 3، صفحہ 97)

حضرت علی علیہ السلام کی 25 سالہ خاموشی کی وجوہات
الف)۔ ناصر و مددگار نہ ہونا
فنظرتُ فاذا لیس لی معین الّا اھل بیتی (نہج البلاغہ، خطبہ 26)
ترجمہ: "میں نے ہر جگہ نگاہ دوڑائی لیکن مجھے اپنے اہلبیت کے علاوہ کوئی مددگار دکھائی نہ دیا۔"

ب)۔ حالات مناسب نہ ہونا
جب ابوسفیان امام علی علیہ السلام کے پاس آیا اور انہیں حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دلائی تو آپ نے فرمایا:
"یہ ایسے تلخ پانی اور لقمے کی مانند ہے جو کھانے والے کے گلے میں پھنس جاتا ہے اور ایسے شخص کی مانند ہے جو کچا پھل توڑتا ہے۔ اسی طرح اس کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے جو کسی اور کی زمین پر کاشت کرتا ہے۔" (نہج البلاغہ، خطبہ 5)

ج)۔ اتحاد بین المسلمین کی حفاظت
و ایم اللہ لو لا مخافۃ الفرقۃ بین المسلمین و ان یعود الکفر و یبور الدین لَکُنّا علی غیر ما کنّا لھم علیہ (ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، جلد 1، صفحہ 307)
ترجمہ: "خدا کی قسم، اگر مجھے مسلمانوں کے درمیان تفرقے اور کفر کی واپسی اور دین کی نابودی کا خوف نہ ہوتا تو میں ان کے ساتھ کسی اور طرح پیش آتا۔"

د)۔ اسلام کی مصلحت کی خاطر اپنے حق سے درگذشت
امام علی علیہ السلام کی نظر میں اصل مقصد حکومت نہیں بلکہ دنیوی حکومت کی حیثیت ایک پھٹے پرانے جوتے سے بھی کمتر ہے۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 33 )
حکومت تشکیل دینے کا اصل مقصد دین مبین اسلام کا احیاء اور توسیع ہے۔ اسی وجہ سے جب امام علی علیہ السلام نے دیکھا کہ حق حکومت غصب کئے جانے کے مقابلے میں خاموشی ہی اسلام کی مصلحت میں ہے تو انہیں نے اپنا حق حاصل کرنے کیلئے کوئی عملی اقدام انجام نہ دیا۔

ہ)۔ اتمام حجت
امام علی علیہ السلام فوری طور پر حکومت قبول کرنے سے گریز کر کے مستقبل میں اپنی حکومت کی مطلوبہ شرائط عوام کو بیان کرنا چاہتے تھے:
"اے لوگو، اگر میں نے آپ کی دعوت قبول کر لی تو میں اپنے علم کے مطابق عمل کروں گا اور کسی بولنے والے کی بات اور کسی سرزنش کرنے والے کی ڈانٹ پر کوئی توجہ نہیں دوں گا۔" (نہج البلاغہ، خطبہ 91)

و)۔ مستقبل میں پیش آنے والے فتنوں یا نامناسب حالات کی پیشگوئی
حضرت علی علیہ السلام طلحہ و زبیر جیسے افراد کی شخصیت سے اچھی طرح واقف تھے اور انہوں نے صرف عوام کے اصرار پر حکومت کی پیشکش قبول کی، لہذا فرمایا:
لو لا حضور الحاضر و قیام الحجہ بِوُجودِ الناصر و ما اخذ اللہ علی العلماء ان یقارّوا علی کظہ ظالم و لا سغبِ مظلوم لاَلقیتُ حبلَھا علی غاربِھا (نہج البلاغہ، خطبہ 3)
ترجمہ: "اگر عوام کا وہ اجتماع نہ ہوتا اور دوستوں اور مددگاروں کی موجودگی کے باعث مجھ پر حجت تمام نہ ہو چکی ہوتی اور خداوند متعال نے علماء سے یہ وعدہ نہ لیا ہوتا کہ ظالم لالچی افراد اور مظلوم بھوکے افراد کے بارے میں خاموشی اختیار نہیں کرنی تو حکومت کا لگام اس کی گردن پر ڈال دیتا۔"

ز)۔ حکومت کے لالچ جیسے الزام سے بچاو
امام علی علیہ السلام نے حکومت قبول کرنے سے انکار کے ذریعے یہ حقیقت سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کی 25 سالہ خاموشی کی وجہ مسند حکومت پر بیٹھنے کا شوق نہیں تھا بلکہ پیغمبر اکرم (ص) کی وصیت پر عمل کرنا اور دین کی بقاء کو یقینی بنانا تھا۔

ب) امام حسن علیہ السلام
بعض افراد امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام کی 6 ماہ حکومت کی مشروعیت کو عوام کی بیعت اور رضامندی سے منسوب کرتے ہیں جبکہ امام حسن علیہ السلام کی معاویہ سے صلح اور اسے حکومت سونپ دینے کو دین اور سیاست میں علیحدگی کی دلیل بیان کرتے ہیں۔ ان افراد کا دعوی باطل ہے کیونکہ:

1)۔ امام حسن علیہ السلام نے واضح طور پر خلافت اور امامت کو اپنا حق قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:
"اے لوگو، معاویہ تصور کرتا ہے کہ میں نے اسے خلافت کا اہل اور قابل پایا جبکہ خود کو رہبریت کے قابل نہیں دیکھا لیکن معاویہ جھوٹ بولتا ہے۔ میں قرآن و سنت پیغمبر (ص) کی رو سے تمام لوگوں میں حکومت کا سب سے زیادہ مستحق شخص ہوں۔" (محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، جلد 4، صفحہ 22)

اسی طرح امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں:
انّ معاویہ نازعنی حقّاً ھو لی دونہ (ایضاً، جلد 44، صفحہ 64)
ترجمہ: "بالتحقیق معاویہ نے ایک مسئلے میں مجھ سے جھگڑا کیا جو میرا حق تھا، اس کا نہیں۔"

2)۔ تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ کے پاس طاقتور اور منظم فوج تھی جو امام حسن علیہ السلام سے جنگ کیلئے تیار تھی، لیکن امام حسن علیہ السلام کے لشکر میں سست ایمان، منافق اور غدار افراد شامل تھے اور ان میں اتحاد نہیں تھا۔

امام حسن علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
واللہ ما سلّمت الامر الیہ الّا انی لم اجد انصاراً و لو وجدت انصاراً لقاتلتہ لیلی و نھاری حتی یحکم اللہ بینی و بینہ (ایضاً، صفحہ 147)
ترجمہ: "خدا کی قسم، میں نے حکومتی امور اسے نہیں سونپے مگر اس لئے کہ میرا کوئی حامی و مددگار نہ تھا۔ اگر میرے حامی ہوتے تو شب و روز اس سے جنگ کرتا یہاں تک کہ خدا میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیتا۔"

3)۔ امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کے معاہدے کی دوسری شق میں یہ شرط رکھی تھی کہ اس کی موت کے بعد اگر امام حسن علیہ السلام زندہ ہوئے تو حکومت ان کے پاس واپس لوٹ آئے گی اور اگر وہ زندہ نہ ہوئے تو حکومت امام حسین علیہ السلام کو ملے گی اور معاویہ کو ولیعہد انتخاب کرنے کا کوئی حق نہیں۔ (سیوطی، تاریخ الخلفاء، صفحہ 194)

ج) امام حسین علیہ السلام
بعض حلقوں نے امام حسین علیہ السلام کی تحریک کو الہی کی بجائے عوامی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی تحریک الہی بنیادوں پر استوار تھی، کیونکہ

1۔ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد دین کا احیاء تھا، جیسا کہ انہوں نے فرمایا:
انّما خرجتُ لطَلَبِ الاصلاحِ فی امّۃِ جدّی اُریدُ اَن آمَرَ بِالمَعرُوفِ و اَنھٰی عنِ المُنکَر (موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام، صفحہ 219)
ترجمہ: "بالتحقیق میں اپنے جد (ص) کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں تاکہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کر سکوں۔"

2۔ امام حسین علیہ السلام نے بارہا وحی اور پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعے ائمہ معصومین علیہم السلام اور اپنی حکومت کی مشروعیت پر زور دیا ہے۔
مَجاری الاُمُورِ وَ الاَحکامِ عَلٰی ایدی العُلماءِ بِاللّٰہ الاُمناءِ عَلی حَلالِہ و حَرامِہ (محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، جلد 97، صفحہ 79)
ترجمہ: "تمام امور (حکومتی، سماجی، معیشتی وغیرہ) اور احکام الہی کا اجراء علماء کے ہاتھوں انجام پانا ہے اور وہ حلال اور حرام (بیان کرنے میں) خدا کے امانتدار ہیں۔"

اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے ابن زبیر کی جانب سے یزید کی بیعت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرمایا:
اصنع انّی لا ابایع لہ ابداً لانَّ الامرَ انّما کان لی من بعد اخی الحسن (موسوعہ کلمات الامام الحسین، صفحہ 278)
ترجمہ: "میں ہر گز اس کی بیعت نہیں کروں گا کیونکہ حکومت میرے بھائی حسن (ع) کے بعد میرا حق ہے۔"

امام حسین علیہ السلام نے کوفہ کی بزرگ شخصیات کے نام اپنے خط میں لکھا:
اِنّی احقُّ بھذا الامر لقرابتی من رسول اللہ (ایضاً، صفحہ 377)
ترجمہ: "بالتحقیق میں حکومت اور خلافت کا زیادہ مستحق ہوں کیونکہ رسول خدا (ص) سے میری قربت زیادہ ہے۔"

امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:
فلعمری ما الامامُ الّا العامل بالکتاب و القائم بالقسط و الدائن بدین الحق (ابن اثیر، ایضاً، جلد 4، صفحہ 21)
ترجمہ: "میری جان کی قسم، امام صرف وہ ہے جو خدا کی کتاب پر عمل کرے، عدل و انصاف برپا کرے اور دین حق کا پابند ہو۔"

د) امام جعفر صادق علیہ السلام
بعض محققین امام جعفر صادق علیہ السلام کی جانب سے ابو مسلم خراسانی کے اس خط کو نذر آتش کئے جانے کو حکومت اور مذہب میں علیحدگی کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں اس نے امام علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی درخواست کی تھی۔ یہ محققین درج ذیل نکات سے غافل ہیں:

1۔ ابو مسلم خراسانی کی پیشکش مسترد کئے جانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اس زمانے کے حالات کو مناسب نہیں سمجھتے تھے لہذا آپ علیہ السلام نے ابو مسلم خراسانی کو جوابی خط میں اس نکتے پر تاکید فرمائی کہ:
وَ لا الزمانُ زَمانی (علی ابن حسین مسعودی، مروج الذھب، جلد 3، صفحہ 269)
ترجمہ: "یہ دور میرا دور نہیں۔"

2۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ تاکید کرتے ہوئے کہ ابو سلمہ ان کا شیعہ نہیں، فرمایا:
مَا لِی وَ لا بِی سلمۃ وَ ھُوَ شیعۃُ لَغیری (سید جعفر مرتضی عاملی، حیاۃ الامام الرضا علیہ السلام، صفحہ 49)
ترجمہ: "ابو سلمہ کا مجھ سے کیا تعلق؟ وہ کسی اور کا پیروکار ہے۔"

اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے سدیر صیرفی کی جانب سے حکومت کے معاملے میں اپنی خاموشی کی وجہ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا:
"خدا کی قسم، اگر میرے ہمراہ اسی ریوڑ جتنی تعداد (اس میں شامل جانوروں کی تعداد 17 تھی) میں وفادار ساتھی ہوتے تو میں ہر گز خاموش نہ رہتا۔" (شیخ کلینی، اصول کافی، جلد 2، صفحہ 242)

3۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو دعوت دینے والے افراد ان کا نام اپنی سیاسی کامیابی کیلئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، لہذا امام علیہ السلام نے ابو سلمہ سے فرمایا:
مَا اَنتَ مِن رِجالی
ترجمہ: "تو میرے بندوں میں سے نہیں۔"

4۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی امامت اور حکومت کی الہی مشروعیت واضح کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ اللّہ عز و جلّ فوّض الیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امر الدّین و الامّۃ لیسوس عبادہ (سید جعفر مرتضی عاملی، حیاۃ الامام الرضا علیہ السلام، صفحہ 49)
"بے شک خداوند متعال نے دین اور امت کا امر پیغمبر اکرم (ص) کے سپرد کیا تھا تاکہ وہ خدا کے بندوں پر حکومت کر سکیں۔"

اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
نَحنُ سَادَۃُ العِبادِ وَ سَاسَۃُ البِلاد (محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، جلد 26، صفحہ 259)
ترجمہ: "ہم بندگان خدا کے بزرگ اور معاشرے کے سیاسی و حکومتی امور کی سرپرستی کرنے والے ہیں۔"

ہ) امام علی رضا علیہ السلام
بعض افراد امام علی رضا علیہ السلام کی جانب سے مامون عباسی کی خلافت کی پیشکش کو مسترد کئے جانے کو دین سے سیاست کی علیحدگی پر دلیل کے طور پر بیان کرتے ہیں لیکن یہ نتیجہ گیری درج ذیل نکات کی بنیاد پر نادرست ہے:

1۔ امام علی رضا علیہ السلام نے واضح طور پر حاکم کا خدا کی جانب سے نصب ہونے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور امام علی علیہ السلام کے زمانے کے افراد کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا ہے:
"کیا آپ لوگ گمان کرتے ہیں کہ امام رسول خدا محمد مصطفی (ص) کے خاندان سے باہر پایا جاتا ہے؟ خدا کی قسم، ان کے ضمیر نے ان سے جھوٹ بولا اور انہوں نے بیہودہ آرزو کی۔ وہ ایسے درے سے اوپر گئے جس کی سطح پھسلن والی تھی اور نیچے گرتے تھے، وہ اپنی ناقص اور گمشدہ عقل اور گمراہ کن آراء کے ذریعے امام منصوب کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں حق سے دوری کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ خدا انہیں قتل کرے، کہاں بہکتے جا رہے ہیں؟ انہوں نے بہت مشکل کام کا ارادہ کیا اور جھوٹ بولا اور شدید گمراہی کا شکار ہوئے۔ وہ حیران و سرگردان ہو گئے اور دیکھتی آنکھوں سے امام کو تنہا چھوڑ دیا۔ انہوں نے خدا، رسول خدا (ص) اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے انتخاب سے روگردانی کی اور اپنے انتخاب کو ترجیح دی۔ انہیں امام منتخب کرنے کا کیا حق تھا؟ جبکہ امام ایسا عالم ہے جو نادانی سے عاری ہے، ایسا سرپرست ہے جو پسماندگی اختیار نہیں کرتا، تقدس، پاکیزگی، اطاعت، زہد، علم اور عبادت کا مرکز و محور ہے، رسول خدا (ص) کی دعوت اس سے مخصوص ہے اور وہ فاطمہ زہرا (س) کی پاکیزہ نسل سے ہے۔" (شیخ کلینی، اصول کافی، جلد 1، صفحہ 287؛ معانی الاخبار، صفحہ 96)

2۔ امام علی رضا علیہ السلام کی جانب سے مامون عباسی کی پیشکش مسترد کئے جانے کا مقصد خود کو بدنام کرنے پر مبنی اس کے سیاسی مقاصد کو ناکام بنانا تھا۔ لہذا آپ مامون عباسی کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"تم اس پیشکش کے ذریعے لوگوں میں یہ تاثر پھیلانا چاہتے ہو کہ "علی ابن موسی رضا" دنیوی امور کے بارے میں متقی اور زاہد شخص نہیں اور دنیا اسے اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہو گئی ہے، کیا آپ لوگ نہیں دیکھ رہے کہ کس طرح اس نے حکومت کے لالچ میں آ کر ولیعہدی کی پیشکش قبول کر لی ہے۔" (شیخ صدوق رح، علل الشرائع، جلد 1، صفحہ 278)

امام علی رضا علیہ السلام کو خلافت کی پیشکش کرنے میں مامون عباسی کے ناپاک عزائم اس کی اس بات سے واضح ہو جاتے ہیں جو اس نے ایک اعتراض کرنے والے شخص کے جواب میں کہی:
"امام (مدینہ میں ساکن ہونے کی وجہ سے) ہماری حکومت کی نظروں سے اوجھل تھے اور یوں لوگوں کو اپنی جانب دعوت میں مصروف تھے۔ انہیں ولیعہد بنانے سے ہمارا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ان کی دعوت کا فائدہ ہمیں پہنچے، مزید یہ کہ ان کی جانب سے ہماری ولیعہدی قبول کئے جانا ہماری حکومت اور خلافت کو قبول کئے جانے کے مترادف ہے۔" (عیون اخبار الرضا، باب 40، جلد 2، صفحہ 299)

3۔ امام علی رضا علیہ السلام نے حکومت کی پیشکش مسترد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ مامون غاصب ہے کیونکہ مامون کی جانب سے حکومت کی پیشکش نظریہ انتصاب سے تضاد رکھتی تھی۔ لہذا امام رضا علیہ السلام مامون کے جواب میں فرماتے ہیں:
"مامون، تمہاری حکومت کی مشروعیت دو حالت سے باہر نہیں: یا اسے الہی مشروعیت حاصل ہے اور خداوند متعال نے تمہیں حاکم قرار دیا ہے اور یا پھر تمہاری حکومت کو کوئی مشروعیت حاصل نہیں اور تم درحقیقت غاصب ہو۔ دونوں صورت میں تمہاری طرف سے کسی اور کو حکومت عطا کرنا جائز نہیں کیونکہ پہلی صورت میں خلاف خدا کا دیا ہوا حق اور تمہیں سے مختص ہے اور تو اس الہی حق کو کسی اور شخص کو عطا نہیں کر سکتا جبکہ دوسری صورت میں تمہیں کسی چیز کا حق ہی حاصل نہیں جسے تم مجھے عطا کرنے کی بات کرو۔" (محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، جلد 49، صفحہ 129)
خبر کا کوڈ : 672904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش