0
Tuesday 17 Oct 2017 01:16

پاک امریکہ تعلقات، امداد سے اعتماد تک کا ذلت آمیز سفر

پاک امریکہ تعلقات، امداد سے اعتماد تک کا ذلت آمیز سفر
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

یوں تو ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے، جسے اختیار کرنے کی آزادی انسان کو دی گئی ہے، یہ نکتہ اقوام کے تعلقات میں فراموش نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسوقت دنیا کی ایک مشکل سوشل میڈیا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کے آمریکی صدر بننے سے یہ دوچند ہو گئی ہے۔ شمالی کوریا اور ایران کے بعد پاکستان کیخلاف ہرزئی سرائی میں ٹوئیٹر آمریکی صدر کا ہتھیار ہے۔ جیسے ڈپلومیسی کی زبان نے چیٹنگ کی زبان اپنا لی ہو۔ پاکستان امریکہ کا اتحادی ملک ہے اور پاکستان کی کفالت میں امریکہ کا کردار بہت اہم ہے، یہی چیز ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی اور ہمیشہ کیلئے استحکام میں رکاوٹ ہے۔ اگست میں جب ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان کے متعلق پالیسی کے اعلان میں بھارت کا کردار بڑھانے کی تو پاکستان کو سخت دھچکا لگا، لیکن اب تو چار فریقی مذاکرات میں بھارت کو شال نہیں کیا گیا۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا، لیکن امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کو بہت سخت الفاظ میں دھمکی کے باوجود ماہرین کا کہنا تھا کہ امریکہ اسے حوالے سے ایک مخصوص حد تک ہی پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔

افغانستان میں بھارتی کردار بڑھانے کے اشارے کیساتھ ہی ایک دوسرے پہلو یعنی دہشت گرد گروہوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتے ہوئے ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کو طعنہ دیا گیا کہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن وہ دوسری جانب انھی دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں، جو ہمارے دشمن ہیں۔ فورٹ میئر آرلنگٹن میں تقریباً آدھے گھنٹے تک کی گئی تقریر میں صدر ٹرمپ نے پاکستان، افغانستان اور انڈیا کے بارے میں اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو، ہماری پوری کوشش ہے کہ جوہری ہتھیار یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگے۔ یہ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے غیر محفوظ ہونے کی طرف اشارہ تھا۔ پاکستان کیلئے یہ کسی طور قابل قبول نہیں کہ ہمارے اسٹریٹیجک اثاثے، یعنی ایٹمی ٹیکنالوجی پہ دنیا بات کرے، انہیں غیر محفوظ قرار دے یا انہیں رول بیک کرنے، مشترکہ کنٹرول کی تجویز دے یا بالآخر ان سے دستبردار ہونے شرط لگائے۔

البتہ لیبیا کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اور ایران کیساتھ عالمی طاقتوں کے معاہدے کی روشنی میں یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی نظریں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہیں، بھارت اور اسرائیل اس منصوبے کی تکمیل کیلئے مسلسل کوشاں ہیں، بھارتی ائیر چیف کی جانب سے ایٹمی اثاثوں پر حملے کی گیدڑ بھبھتی اس کی واضح مثال ہے۔ یوں تو پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں، عالمی فورمز پہ اس کی تصدیق بھی کی جا چکی ہے۔ لیکن حالات کا جائزہ لینے سے صورتحال حساس نظر آئیگی۔ جس طرح جنرل مشرف نے اکتوبر 1999ء میں مارشل لاء لگانے کے بعد سب سے پہلے خطاب میں کہا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی، کشمیر اور داخلی استحکام ہمارے تزویراتی کنسرنز ہیں، ان پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا، لیکن نائن الیون کے بعد پہلے افغانستان اور بعد میں کشمیر پہ ان کے یوٹرن کی وجہ سے وہ صدر اور آرمی چیف ہونے کے باوجود خودکش دھماکوں کا نشانہ بننے لگے تو کشمیر پس منظر میں چلا گیا، یہ کیسے ہوا، اسکی تفصیل زیادہ مشکل نہیں، یہ تو واضح ہے کہ جنرل مشرف نے ذاتی اقتدار کو بچانے کیلئے امریکہ کی حمایت حاصل کی۔

اسی طرح یہ بھی منظر عام پہ آ چکا ہے کہ ہمارے ایٹمی اثاثوں میں مخصوص عرب ملک شراکت داری کا دعویدار ہے۔ اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے، جو زیادہ آسان بھی ہے کہ جہادی گروہ ضیاء دور سے ماضی قریب تک ہمارے ایسے ہی تزویراتی اثاثے سمجھے جاتے تھے، جیسے ایٹمی پروگرام اور کشمیر، لیکن حالات بدلتے بدلتے جہادی دہشت گرد بنے اور اب اچھے سے اچھے جہادی گروپ بھی منظر عام سے غائب ہیں، اسوقت حکام ان گروپوں کی پاکستان میں موجودگی کو اب ایسے ہی چھپانے پہ مجبور ہیں جیسے ناجائز بچے کو ظاہر کرنے کی بجائے اس قتل کرنا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ کیساتھ ہمارے تعلقات کے نشیب و فراز میں اس طرح کے متعدد موڑ ہیں، جو ہم چھپا نہیں سکتے نہ مٹا سکتے ہیں، اس ناجائز اولاد کو اب امریکی اور پاکستانی حکام ایک دوسرے کے کھاتے میں ڈالنے پہ لگے ہیں، یہ ڈپلومیسی کا منفرد رنگ ہے، جو امریکیوں کو تو چچتا ہے، ہمیں زیب نہیں دیتا، اس گلو خلاصی کی ضرورت ہے۔ یہ کیسا بودہ پن ہے کہ کوئی خوشی کا اظہار کرے کہ اب پاکستان کے متعلق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا رویہ نرم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس خوشی کی بنیاد کیا ہے، کیوں کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے پاکستانی فوج نے امریکی شہری کیٹلن کولمین، ان کے کینیڈین نژاد شوہر جوشوا بوئل اور تین بچوں کو حال ہی میں حقانی نیٹ ورک سے رہا کروایا ہے اور ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ہے کہ پاکستان اور اس کے رہنماؤں کے ساتھ ہم بہت بہتر تعلقات کو فروغ دینے کی ابتدا کر رہے ہیں، میں مختلف محاذوں پر ان کے تعاون کے لیے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ چالاکی بھی ہے اس بات کا ثبوت بھی کہ کس طرح دباؤ ڈال کر پاکستان کی پالیسی بدلوا لی جاتی ہے، یا اس کی سمت برقرار رکھی جاتی ہے۔

دوسری طرف ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق بیانات کو دیکھیں، وہ کس طرح عزت اور وقار کی بات کرتا ہے اور پاکستان کو دھوکا دینے والا ملک قرار دیتا ہے۔ اگست ٹرمپ نے دھمکی دی کہ دہشت گرد تنظیموں کے لیے پاکستان محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے، امریکہ اس پر خاموش نہیں رہے گا، ہم سالوں سے پاکستان کی اربوں ڈالر سے مدد کر رہے ہیں اور وہ لوگ ان دہشت گردوں کو شہ دے رہے ہیں جن سے ہم بر سر پیکار ہیں، اسے فوری طور پر بدلنا چاہیے۔ اسی طرح دسمبر 2011ء میں ٹرمپ نے پاکستانی فوج کو بزدلی کا طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ہماری (یعنی امریکہ کی) بہادر نیوی سیلز کی ٹیم اسامہ بن لادن کو پکڑنے گئی اس وقت انھوں (پاکستانی افواج) نے (امریکی افواج کیخلاف) کچھ نہیں کیا۔ جنوری 2012ء میں ٹرمپ نے کہا کہ ہم انھیں (پاکستان کو) کروڑوں اربوں ڈالر دے رہے ہیں اور اس کے بدلے ہمیں کیا ملا؟ دھوکہ اور بے عزتی اور اس سے بھی بدتر، چھ سال تک اسامہ بن لادن کو چھپانے کے لیے پاکستان ہم سے کب معافی مانگے گا؟۔ گذشتہ سال پاکستان میں امریکہ اور بھارت کی پشت پناہی سے دہشت گردی کرنیوالے گروہ کی جانب سے ہونے والے حملے کے بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا تھا کہ ایک اور شدت پسند اسلامی حملہ، اس بار پاکستان میں مسیحی خواتین کو شکار بنایا گیا، 67 لوگوں کی موت، 400 زخمی، میں تنہا ہی اس (مسئلے کو) کو حل کر سکتا ہوں۔

بحیثیت قوم، بحیثیت مسلمان، ہمارا دین، اقدار اور عقل کہاں اجازت دیتے ہیں کہ اس ذلت جو قبول کیے رکھیں، یہ کیسا موقف ہے کہ ہمیں امریکہ کی امداد نہیں بلکہ اعتماد چاہیے، کیا شیطان کی امداد یا اعتماد کوئی معنی رکھتا ہے۔ خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں کہ ٹرمپ کی اس ٹویٹ پر ساڑھے سات ہزار سے زیادہ کمنٹس آئے ہیں اور اس 12 ہزار بار سے زیادہ ری ٹویٹ کیا گيا ہے جبکہ 60 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسے پسند کیا ہے۔ شاید ٹرمپ کی اس نرمی کی وجہ حقانی نیٹ ورک کی حراست میں رہنے والے امریکی کینیڈین خاندان کی رہائی ہے جس میں پاکستان کی خاطر خواہ کوشش نظر آئی ہے۔ ایسا پہلی دفعہ تھوڑی ہوا ہے کہ پاکستانی حکام نے کسی بہانے یا پہلے سے ڈئیزائن کی گئی بارگینگ چپ کو استعمال کر کے، عزت و ذلت سے بالاتر ہو کر، امریکیوں کو خوش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو۔ کیا قومی وقار اور ملک کے شایان شان ہے؟۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ میں نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ پاکستان نے برسوں تک ہمارا بہت فائدہ اٹھایا ہے، لیکن اب ہم پاکستان کے ساتھ حقیقی تعلقات کا آغاز کر رہے ہیں۔ پاکستان امریکہ کا پھر سے احترام کر رہا ہے۔ کیا ہم نے امریکیوں کے سامنے ایک بار پھر گھٹنے نہیں ٹیک دیئے، اس کا جواز کیا ہے، صرف آئی ایم ایف کی اگلی قسط کیلئے ٹرمپ کا ووٹ، کیا عزت، وقار اور قابل فخر مقام اسی کا نام ہے؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر کوئی بتا سکتا ہے کہ امریکہ کی امداد کی بجائے امریکہ کے اعتماد کا نعرہ کیسے پاکستان کی جیت ہے؟۔ دنیا امید پہ قائم ہے، انشا اللہ، کیپٹن حسنین شہید اور ہزاروں شہداء کا خون ضرور رنگ لائے، پاکستان امریکی چنگل سے ضرور آزاد ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 677095
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش