3
0
Wednesday 22 Nov 2017 00:39

حزب اللہ کیخلاف عرب لیگ کا الزام مسترد

حزب اللہ کیخلاف عرب لیگ کا الزام مسترد
تحریر: عرفان علی

سعودی عرب کی درخواست پر عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس لیگ کے صدر دفتر قاہرہ میں جنرل سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف بلایا گیا تھا، اس لئے ناراضگی کے اظہار کے لئے لبنان کے وزیر خارجہ جبران باسل نے اس میں شرکت سے گریز کیا، البتہ عرب لیگ میں لبنان کے مستقل مندوب سفارتکار انطون عزام نے اس اجلاس میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ اس اجلاس میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اور بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد ال خلیفہ نے ایران مخالف تقریر کی اور عرب وزرائے خارجہ کو ایران مخالف اقدامات کے لئے اکسایا۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی سمت جو میزائل یمن کی دفاعی فوج نے فائر کیا تھا، اس کے بارے میں عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابولغیث نے الزام لگایا کہ یہ ایران کا تیار کردہ تھا۔ حالانکہ یمن کی دفاعی فوج اور عوامی رضاکار فورس بشمول حوثی حرکت انصار اللہ نے بارہا واضح کیا کہ برکان دوم نامی میزائل یمن کے اندر ہی تیار کیا گیا ہے۔ جہاں تک ایران کے جواب کا تعلق ہے تو اس ہنگامی اجلاس سے ایک روز قبل ہی ایرانی وزیر خارجہ نے عربی میں ایک ٹویٹ کیا، جس میں کہا کہ وہ اقوام متحدہ کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کرچکے ہیں کہ یمن کی المناک صورتحال کے حل کے لئے چار نکاتی منصوبے پر فوری حل کیا جائے۔ یاد رہے کہ یمن جنگ سعودی عرب کی جانب سے مسلط کردہ ایسی یکطرفہ جنگ ہے کہ اس کے اتحادی ممالک امریکہ و برطانیہ میں بھی اس جنگ کی شدید مخالفت پائی جاتی ہے اور اس جنگ کی وجہ سے وہاں کی سعودی اتحادی حکومتیں بھی عوام و خواص کے دباؤ کا شکار ہیں اور سبھی کو یہ معلوم ہے کہ یمن کا سعودی عرب نے ہر طرف سے گھیراؤ کر رکھا ہے، اس لئے یہاں ایران اسلحہ پہنچا ہی نہیں سکتا۔

ایران اور حزب اللہ کے خلاف الزامات کی جنگ میں شدت پیدا کرنے کی یہ سعودی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ عراق میں داعش کا آخری ٹھکانہ تباہ کرکے سرحدی شہر القائم کا کنٹرول عراقی افواج نے سنبھال لیا ہے۔ شام کے سرحدی شہر بوکمال سے بھی داعش کا صفایا کیا جا چکا ہے۔ سعودی، امریکی و اسرائیلی مثلث کا عراق اور شام کے خلاف جو تکفیری نیابتی جنگ کا منصوبہ تھا، وہ ناکام ہوچکا۔ شام کے صدر بشار الاسد حکومت میں ہیں اور ان سے غداری کرنے والے سابق وزیراعظم ریاض حجاب نے سعودی سرپرستی میں چلنے والی اعلٰی سطحی مذاکراتی کمیٹی سے پیر 20 نومبر کو استعفٰی دے دیا ہے، جبکہ جنیوا میں مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ یمن کی جنگ بھی سعودی عرب کے اقتصادی زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوری ہے کہ اس کے مالی ذخائر جو اگست 2014ء میں737 بلین ڈالر تھے اب گھٹ کر 475 بلین ڈالر رہ گئے ہیں۔ ایک طرف یہ ناکامیاں ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب کی داخلی سیاست ہے کہ جہاں محمد بن سلمان کی جلد بازی اور انتقامی کارروائیوں کے سبب آل سعود کے شاہی خاندان کے اندر خانہ جنگی میں تبدیل ہونے کا خدشہ ہے۔ تیسری طرف امریکہ کے احمق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اسرائیل نواز یہودی داماد جاریڈ کشنر سے سعودی ولی عہد کی نئی نئی دوستی ہوئی ہے اور اب سعودی ولی عہد کو جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لئے زیادہ تیز رفتاری سے اقدامات کرنے کا بھی اشارہ ملا ہے۔ اس سعودی، امریکی، اسرائیلی مثلث کے ناپاک عزائم کی راہ میں اگر کوئی طاقتور رکاوٹ ہے تو وہ مقاومت اسلامی کا محور ہے، جس کے اہم ترین فریق ایران اور حزب اللہ ہیں۔ لہٰذا بہت ہوشیاری کے ساتھ ان نقصانات کا غصہ اتارنے کے لئے اور نازک سعودی داخلی سیاست اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی خبروں سے توجہ ہٹانے کے لئے لبنان کی داخلی سیاست میں مداخلت شروع کرکے عربوں کی توجہ ایران اور حزب اللہ پر کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ یہ الزامات بھی نئے نہیں ہیں۔

عرب لیگ اور خلیج فارس کے عرب ممالک کی تنظیم جی سی سی نے سعودی دباؤ میں مارچ 2016ء میں بھی حزب اللہ پر دہشت گردی کا لغو اور بے بنیاد الزام لگایا تھا۔ اب 19 نومبر بروز اتوار عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں حزب اللہ کے خلاف ایک اور بے بنیاد قرارداد منظور کی گئی۔ پیر کے روز فلسطین کی مقاومتی اسلامی تحریک حماس نے بیان جاری کرکے اس قراداد کو مسترد کر دیا۔ بیان میں عرب لیگ سے کہا گیا کہ لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے خلاف اس بیان کی بجائے اسرائیل کے فلسطین کے خلاف اقدامات کو دہشت گردی کہا جائے۔ پیر کے روز لبنان کے صدارتی بعبدہ محل میں لبنانی صدر میشال عون نے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیث کو کھری کھری سنا دیں۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی تنازعات کی قیمت لبنان کو ادا نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ لبنان ان تنازعات کا ذمے دار نہیں ہے، نہ ہی لبنان نے کسی ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لبنان یہ برداشت نہیں کرے گا کہ کوئی یہ تاثر دے کہ لبنان دہشت گردی میں شراکت دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان اس قابل ہے کہ وہ 1978ء سے 2006ء تک اسرائیل کی جارحیت کا سامنا کرتا رہا ہے۔  وہ اس قابل ہے کہ اس نے اپنی سرزمین اسرائیل کے قبضے سے آزاد کروائی اور اب بھی اسرائیلی دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے، اس لئے لبنان یہ حق رکھتا ہے کہ وہ دھمکیاں دینے والے اسرائیل سے لڑے اور اسے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے شکست دے۔ لبنان کی قومی و اسلامی مقاومتی تحریک حزب اللہ کے خلاف قرارداد کے خلاف لبنان کے نمائندے نے بھی بروقت تحفظات کا اظہار کیا۔ لبنان کے نمائندے نے کہا کہ عرب ممالک پر حملے قابل مذمت ضرور ہیں، لیکن اصل مسئلہ عربوں کے آپس کے اختلافات ہیں، جس کی وجہ سے عالمی و علاقائی قوتوں کو مداخلت کا موقع ملتا ہے۔

لبنان کی پارلیمنٹ کے رکن قاسم ہاشم نے عرب لیگ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سیاسی معاشرے کا حصہ ہے اور اس کا اپنا عوامی اور سیاسی وزن ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور کابینہ کا بنیادی جزو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ تمام سیاسی معاملات اور موجودہ بحرانی حالات سے بہت ہی مثبت و عقلمندانہ انداز میں نمٹ رہی ہے اور عرب ممالک پر بھی لازم ہے کہ لبنان کی ان خاصیتوں کو مد نظر رکھیں۔ لبنان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری نے فیس بک کے ذریعے عرب ممالک کو وہی پیغام دیا، جو صدر میشال عون نے دیا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم اسرائیلیوں سے لڑ چکے ہیں۔ جب لبنان کے صدر یا اسپیکر یہ کہتے ہیں کہ لبنان اسرائیل سے لڑچکا ہے یا اپنی زمین آزاد کروا چکا ہے تو با الفاظ دیگر وہ دنیا کو اور خاص طور پر ان بزدل عرب حکومتوں کو یہ حقیقت بتا رہے ہوتے ہیں کہ حضور یہ سب کچھ اسی حزب اللہ نے کیا ہے، جسے آپ غلط طور دہشت گرد کہتے ہیں! عراق نے بھی ایران اور حزب اللہ کے خلاف جملوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اصل میں عرب لیگ کو استعمال کرنے کے باوجود سعودی عرب کی سعد حریری کو بلوا کر استعفٰی کے اعلان والی حرکت ناکام ہو چکی ہے، کیونکہ لبنان سے وہ نتیجہ حاصل نہیں ہوا بلکہ الٹا سنی عرب بھی سعودی عرب سے ناراض ہیں۔ جس لبنان کو وہ حزب اللہ کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے اور جس لبنانی صدر کو وہ بلیک میل کرنا چاہتے تھے، اب اسی ملک لبنان میں پیر کے روز سعودی عرب نے ولید ال یعقوب کو سفیر بنا کر بھیج دیا ہے۔ سعودی بادشاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے لبنان کے یوم آزادی کی مناسبت سے تہنیتی پیغامات بھی بھیجے ہیں اور امریکی صدر ٹرمپ نے بھی تہنیتی پیغام ارسال کیا ہے۔ دوسری جانب فرانس اور مصر کے حکمرانوں نے سعودی عرب کو بتا دیا ہے کہ سعد حریری کا استعفٰی ایک غلط قدم تھا، جو سعودی بادشاہت نے اٹھایا۔

ان سطور کے لکھے جانے تک سعد حریری فرانس سے مصر کے دارالحکومت قاہرہ بھی پہنچ چکے ہیں، جہاں صدر فتاح السیسی سے ان کی ملاقات ہوئی ہے اور ان کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا گیا ہے۔ کل لبنان میں انہوں نے یوم آزادی کی تقریبات میں شرکت کرنا ہے۔ ال سیسی نے میشال عون سے بھی فون پر گفتگو کی ہے۔ دونوں نے لبنان کے داخلی سیاسی استحکام اور سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے کی تاکید کی۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے تازہ ترین خطاب کے یہ دو جملے ہی سعودی عرب کے لئے کافی ہیں کہ حزب اللہ نے یمن، کویت، بحرین سمیت کسی بھی خلیجی ملک میں ایک پستول بھی نہیں بھیجا، انکا اسلحہ صرف غزہ میں فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں تک پہنچا یا شام میں تکفیریوں کے خلاف استعمال ہوا اور دوسرا جملہ یہ کہ سعودی اس لئے الزام لگا رہے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر بہت ہی سست ہیں اور وہ سر پر اوڑھنے والے رومال کفیہ کو باندھنے والی کالی ڈوری عقال کو بھی دوسرے ملک سے درآمد کرتے ہیں، خود تیار نہیں کرتے! حزب اللہ اور ایران کے حامی یہ نہ سمجھیں کہ گیم از اوور! سعودی، امریکی، صہیونی مثلث نے ابھی اور گر بھی آزمانے ہیں۔ سعد حریری کی فیس سیونگ اور استعفٰی سے دستبرداری کے لئے حسن نصراللہ کی تقریر ہی کافی ہے کہ حزب اللہ نے ان ممالک میں مداخلت کی ہی نہیں ہے، جس کا الزام اس پر لگایا گیا ہے۔ مداخلت مداخلت کا شور مچا کر یہ حقیقت چھپائی نہیں جاسکتی کہ لبنان میں فرانس اور سعودی عرب کی مداخلت کی ایک طویل تاریخ ہے، جس سے پوری دنیا آگاہ ہے، جبکہ ایران کے چار سفارتکار بھی لبنان سے 35 سال قبل اغوا کئے گئے، جن کے بارے میں ایران کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ اس کے علاوہ لبنان میں ایران کے سفارتخانے پر خودکش حملہ بھی ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ لبنان کو اسرائیلی قبضے سے نجات دلانے والی حزب اللہ کی مدد و حمایت بھی ایران ہی کرتا ہے، اس لئے فرانس اور سعودی عرب کی نسبت، ایران کا لبنان پر زیادہ حق بنتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 684947
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
سلام۔۔ عرفان صاحب یہ ایک بلاگ کے کچھ حصے ہیں، جو زکریا ایوبی نے روزنامہ دنیا میں لکھا ہے۔۔
محمد بن سلمان خطے کے دوسرے ممالک کو سعودی عرب کے تابع بنانا چاہتے ہیں، لیکن اس کے لئے انہوں نے جو راستہ چنا ہے، وہ آگے جا کر پورے خطے کے لئے تباہی لا سکتا ہے۔ جیسے جرمنی کو عظیم بنانے کا نعرہ لگا کر ہٹلر نے پورے یورپ کو میدان جنگ بنا لیا تھا۔ ایسے ہی محمد بن سلمان کے ایک غلط قدم سے مشرق وسطٰی میں خون کی ندیاں بہہ سکتی ہیں۔ سعودی عرب کو امریکہ اور اسرائیل کی براہ راست حمایت حاصل ہے۔ شہزادوں کے خلاف کریک ڈاؤن کو سب سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سراہا تھا جبکہ ایران کے خلاف اسرائیل نے سعودی عرب کو انٹیلیجنس شیئرنگ کی پیشکش کی ہے اور سعودی عرب نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا۔ ان دونوں ملکوں کا حریف اول ایران ہے، جس کو سعودی عرب بھی اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ ٹرمپ کے ساتھ محمد بن سلمان کی یاری دوستی کا یہ عالم ہے کہ بطور صدر سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کرنے پر بھی ٹرمپ کو محمد بن سلمان نے راضی کیا تھا اور اب سعودی عرب میں محمد بن سلمان وہی کچھ کر رہے ہیں، جو ٹرمپ چاہتے ہیں۔ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو بہت جلد امریکہ ایران کے خلاف بھی سعودی عرب کو اکسا سکتا ہے۔ اگر محمد بن سلمان وہ سب کرنے پر راضی ہوگئے جو امریکہ اور اسرائیل چاہتے ہیں تو مشرق وسطٰی کو ایک خونریز جنگ کا شکار ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
احمد یاسین
Iran, Islamic Republic of
عرفان بھائی ما شاء اللہ پاکستانی اخباروں میں لکھنے والے بھی حقیقت کو اپنے معاشرے میں بیان کرنے لگے ہیں، خدا ان کی حق گوئی کو سلامت رکھے۔ ایک کالم ایاز امیر صاحب نے آج لکھا ہے ۔۔حزب اللہ کیوں کٹھکتی ہے۔۔ ایک پیراگراف اسلام ٹائمز کے ناظرین کے لئے۔۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ ایران کے قریب ہے۔ ایران اس کی مدد کرتا ہے۔ یہ قدر تو دونوں میں مشترک ہے کہ اِن کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کے وجہِ اشتراک ان کی اسرائیل اور امریکہ دشمنی ہے۔ بیشتر عرب ممالک نہ صرف امریکہ کے قریب ہیں بلکہ امریکہ ان کا گاڈ فادر اور محافظ ہے۔ بیشتر عرب ممالک کی اسرائیل سے دشمنی الفاظ کی حد تک ہے۔ عملاً وہ اس سے سمجھوتہ کرچکے ہیں۔ وہ اسرائیل یا امریکہ کے خلاف کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات‘ الفاظ کی حد تک بھی کچھ نہیں کہتے۔ حزب اللہ اور ایران البتہ کئی لحاظ سے اسرائیل اور امریکہ سے برسر پیکار ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ شام میں کیا صورتحال بنی۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں بشار الاسد کو گرانا چاہتی تھیں، لیکن حزب اللہ بشار الاسد کی مدد کو پہنچی اور اس کے فوجی دستوں نے مملکتِ شام میں جا کر لڑائی میں حصہ لیا اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہی کچھ ایران نے کیا اور روس بھی اپنی فوجی طاقت کے ساتھ بشار الاسد کے ساتھ کھڑا ہوا۔ شام میں مکمل طور پہ امن قائم نہیں ہوا، لیکن جو خانہ جنگی 2011ء سے شروع ہوئی، اس میں اب بشار الاسد کا پلڑا بھاری ہے اور انہیں ہٹانے کی تمام تر تدبیریں ناکام ہو چکیں۔
Pakistan
ماشاء اللہ. یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستانی خواص اور دانشور حق بیان کر رہے ہیں۔
ہماری پیشکش