0
Thursday 7 Dec 2017 13:29

ہفتہ وحدت اور امت مسلمہ کی موجودہ صورتحال

ہفتہ وحدت اور امت مسلمہ کی موجودہ صورتحال
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

کسی تربیت کے دوران استاد نے یہ بتایا تھا کہ ہر تنازع اپنے اندر ایک انرجی لئے ہوتے ہوتا ہے، یہ انرجی ایک طاقت ہے، یہ طاقت منفی انداز میں استعمال ہو کر افراد، خاندانوں، قوموں اور ملکوں کو تباہ و برباد کر دیتی ہے، لیکن اگر اسی طاقت کا بہتر استعمال کیا جائے تو یہ انرجی مثبت استعمال ہوکر افراد و اقوام کی ترقی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ بہترین قیادت فقط تنازعات کو حل نہیں کرتی بلکہ تنازع میں موجود اس قوت و طاقت سے اپنی قوم کی تعمیر بھی کرتی ہے، میرے لئے تربیت کا یہ حصہ بہت حیران کن تھا، میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ استاد نے اس کے لئے کافی مثالیں دیں۔ بات سمجھ میں آگئی کہ واقعاً یہ ممکن ہے کہ تنازع سے تعمیر کی طرف بڑھا جا سکے۔ ہم مسلمان چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں الجھ جاتے ہیں، ہاتھ کھولنے باندھنے  سے لیکر مسئلہ نور و بشر تک، ہم نے ہر علمی مسئلہ کو تنازع بنا دیا ہے۔ نبی اکرم کی ولادت کے حوالے سے بھی مسلمان علماء کے درمیان اختلاف ہے، یہ اختلاف افتراق مناظرے کا باعث بن سکتا تھا، دنیا بھر میں مسلمانوں جگ ہنسائی ہوتی کہ دیکھو کیسے لوگ اپنے نبی کے یوم ولادت کے بارے میں بھی لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔ یہ بات امام خمینیؒ کے علم میں لائی گئی کہ اسلام اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے۔؟ آپ دشمن کی چالوں کو سمجھتے تھے، اس لئے فرمایا 12 اور 17 میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے، خاتم الانبیاءؑ کی دنیا میں آمد اتنی بڑی خوشی ہے کہ ہم اسے بارہ سے منانا شروع کریں گے اور سترہ تک پورا ہفتہ منائیں گے، تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ مسلمانوں کا نبی اس دنیا میں آیا ہے۔ اس طرح امام خمینیؒ نے ایک تنازع کو جو مسلمانوں کی کمزوری کا باعث بن سکتا تھا، اسے مسلمانوں کے لئے ایک طاقت کا سرچشمہ بنا دیا۔

آج امت مسلمہ لہو لہو ہے، ہمیں کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔ برما کے مسلمان سے نیشنلٹی کا حق بھی چھین لیا گیا ہے، انہیں تعلیم، صحت، نوکری غرض ہر طرح کے بنیادی وسائل سے محروم کر دیا ہے، ان کی بستوں کو جلا دیا ہے، ہزاروں کو شہید کرکے لاکھوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا ہے اور حد یہ ہے کہ ان مظلوم مسلمانوں پر بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز بھی گولیاں برساتی ہیں۔ لاکھوں روہنگیا مسلمان نامساعد حالات میں کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے مسلم امہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ عراق کے ایک حصہ کو داعش جیسے خونخوار گروہ کے قبضے میں دیکر مسلمانوں کا استحصال کرایا گیا، عراق کا پورا یہ حصہ تباہ ہوگیا ہے، ایک نسل تعلیم سے محروم رہ گئی ہے اور خطہ میں فرقہ واریت کے بیج بونے کی کوشش ہو رہی ہے۔ شام تباہ کر دیا گیا، ایک خوبصورت مسلمان ملک جو بڑی تیزی سے ترقی کر رہا تھا، اسے کھنڈرات کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ وہاں اتنے گروہ پیدا کئے گئے کہ ایک ہی وقت میں کئی گروہ آپس میں لڑ رہے ہیں اور شامی حکومت سے بھی لڑ رہے ہیں، مگر سب کا نتیجہ ایک ہی ہے، گولی جدھر کی چلتی مسلمان کا مال اس پر خرچ ہوتا ہے، وہ جس کے سینے میں بھی لگے زمین پر خون مسلمان کا ہی گرتا ہے۔

اب یمن ایک بڑا محاذ بن رہا ہے، جہاں پہلے فضائی حملوں سے ہزاروں لوگوں کو شہید کر دیا گیا اور رہی سہی کسر ناکہ بندی نے پوری کر دی۔ ہیضہ کی وباء نے وہاں کے ہزاروں بچوں کو نگل لیا اور خوراک کی کمی ایک انسانی المیہ کو جنم دے رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ جنگ بے شک لڑتے رہو، مگر ان بچوں کو خوراک اور دوا تو پہنچانے دو، مگر یہ اقتدار اتنی ظالم چیز ہے کہ جو بادشاہوں سے بیٹے اور بیٹوں سے باپ قتل کرا دیتا ہے۔ علی عبدالصالح کے قتل کے بعد یہ مسئلہ مزید پیچید ہ ہوگیا ہے اور آثار بتا رہے ہیں آنے والے دنوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ ویسے ستر سال سے فلسطین جل رہا ہے، آئے روز اہل فلسطین قربانیاں دیتے آ رہے ہیں، اب ان پر کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ان کی شناخت کی علامت قدس شریف کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، مسلمانوں کو فرقہ واریت میں الجھا کر اور باہمی جنگوں میں اتنا زخمی کر دیا گیا کہ اب ان میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں سوچنے کی طاقت ہی نہیں ہے۔

اندرونی طورپر بہت سے فکری تحریکیں جو مسلمانوں کو جادہ حق سے ہٹانے کے لئے بڑی تیزی سے کام کر رہی ہیں۔ الحاد و زندقہ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کے ذہنوں کو اسلام سے دور کر رہا ہے۔ بہت سے جوان ظاہری طور پر اسلام کا انکار نہیں کرتے مگر انہیں عمل سے دور کر دیا گیا ہے، یہ فکری تحریکیں ایک بڑی علمی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہیں کہ علمی سطح پر الحاد جدید کا جواب دیا جائے۔ اندرونی طور پر مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ قیادت کا بحران ہے، مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی لسٹ اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چل جائے گا کہ قیادت کا کتنا بڑا بحران ہے، اکثر جگہوں پر بادشاہتیں قائم ہیں، جن کے نزدیک سب سے بڑا مفاد اپنے خاندانی اقتدار کا تحفظ ہے اور اس کے لئے وہ اسرائیل سے بھی ہاتھ ملا لیتے ہیں، مگر باہمی اتحاد کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیتے ہیں، کیونکہ اس سے ان کے شخصی اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق وہ سکتا ہے۔ اسی طرح فرقہ واریت نے بھی امت کو جکڑ رکھا ہے، پہلے دو فرقوں میں تقسیم تھے، اب تو ہر فرقہ آگے دسیوں چھوٹے چھوٹے فرقوں میں بٹ چکا ہے۔ یہ تمام چیلنجز امت کو درپیش ہیں۔ نبی اکرم کی ولادت کے ایام ہیں، جشن و خوشی کے ایام ہیں، ہمیں بطور امت ان تمام مسائل کے حل کے بارے میں سوچنا ہے، ان تمام مسائل کی جڑ باہمی افتراق ہے، ایک دوسرے پر اعتماد نہ ہونا ہے، ہفتہ وحدت ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم نبی اکرم کی ایسی امت بنیں کہ جو جسم واحد کی سی ہو، جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا حصہ تڑپ جائے۔
خبر کا کوڈ : 688411
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش