0
Wednesday 20 Dec 2017 22:30

اے ارض مقدس۔۔۔۔ ہم آرہے ہیں!

اے ارض مقدس۔۔۔۔ ہم آرہے ہیں!
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ارض مقدس فلسطین جسے انبیاء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے ایک بار پھر تحرک، بیداری، حمیت، غیرت، ایثار، قربانی، جہاد، دعوت اور اتحاد کی عملی تصویر بنی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب سے امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے متنازعہ اور غیر انسانی و غیر آئینی فیصلہ کہ یروشلم اسرائیل کا دارالخلافہ ہے، سنایا ہے، یہاں ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے، یہاں کے باسی جو گذشتہ سات آٹھ دہائیوں سے عالمی ضمیر فروشوں اور صیہونی ایجنٹوں کے ہاتھوں گھروں سے بے دخل کئے جا رہے ہیں، ان کا خون بہایا جا رہا ہے، انہیں بنیادی ترین انسانی و بین الاقوامی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، ان ستر برسوں میں یہاں کا ہر گھر بلکہ ہر فرد متاثر ہوا ہے، اس کے باوجود یہاں پر بیداری ہے، تحرک ہے، میدان میں آمادگی ہے، قربانی کا جذبہ ہے، ایثار گری کی ان مٹ مثالیں ہیں، شوق شہادت ہے، جبر و تشدد، قید و بند کی صعوبتیں ان کے اندر سے ان کا جذبہ آزادی نہیں چھین سکیں اور وہ پتھروں، غلیلوں سے دنیا کی جدید ترین فورسز کا مقابلہ کر رہے ہیں، اقوام متحدہ میں امریکہ کے فیصلے کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کر دیا گیا ہے، یہ پہلا موقعہ نہیں کہ امریکہ نے اسرائیل نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرارداد کو ویٹو کیا، اس پہلے جتنی بھی قراردادیں اسرائیل کی جارحیت، مظالم اور سفاکیت کے خلاف پیش کی گئیں انہیں ویٹو ہی کیا گیا۔ اسرائیل کو اسی واسطے امریکہ کی ناجائز اولاد سے تشبیہ دی گئی اور اسے اس خنجر سے تشبیہ دی گئی، جس کا پشتہ امریکہ کے ہاتھوں میں ہے اور وہ اسے مسلمانوں کے قلب میں پیوستہ کر رہا ہے۔

القدس اور اس کے باسیوں کے جسم پر آنے والے ہر زخم کا ذمہ دار امریکہ ہی ہے اور اس سے اس کا حساب لیا جائے گا، امام راحل خمینی بت شکن کی رہبری میں آنے والے اسلامی انقلاب کی شعاعوں اور کرنوں کو گذشتہ سینتیس برس سے روکنے کا مکروہ کھیل اسی لئے کھیلا جا رہا ہے کہ اس بت شکن کے فرزند القدس شریف کو اسرائیل کے ناپاک پنجوں سے آزادی نا دلوا سکیں، مگر ان کی بھول ہے کہ وہ ایسا کرسکیں گے اور کامیاب ہو پائیں گے، ہم یقین سے کہتے ہیں کہ ہم القدس شریف کو آزاد کروانے ضرور آئیں گے، القدس ہمارا ہے اور ہم ہی اس کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کو نچھاور کرکے آزاد کروائیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ القاعدہ کیوں بنائی گئی، طالبان کا گھنائونا کھیل کس لئے کھیلا گیا، ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر سے لشکریوں کو جمع کرکے اسلام پر کیسے حملہ کروایا گیا، کیسے گلے کاٹے گئے، کیسے خون کے دریا بہائے گئے، کیسے سفاکیت کے جدید انداز اختیار کئے گئے اور کیوں کلمہ لا الہ الا اللہ  کے نام کو استعمال کیا گیا؟ ہمیں معلوم ہے کہ داعش کا منصوبہ کس لئے بنایا گیا اور کیسے اس کو امت مسلمہ کے قلب میں لا کھڑا کیا گیا، ہم جانتے ہیں کہ اس کا نام نہاد اسلام اور سفاکیت کن کی پیداوار تھی، ہم جانتے ہیں کہ اسلامی تاریخ سے بھرے ملکوں عراق و شام میں ان نام نہاد اسلام پسندوں کے لبادے میں، کس مقصد کیلئے تباہی لائی گئی۔ عراق، لبنان، یمن، بحرین، حجاز مقدس اور شام میں عالمی سازشوں کے مقابل لکھی جانے والی لہو رنگ تاریخ ہماری تاریخ ہے۔۔۔ یہ خمینی کے فرزندان کی تاریخ ہے، جنہیں القدس کی آزادی سے روکنے کیلئے راستے کی کھڑی کردہ اونچی دیواروں کو گرانے میں اپنے لہو کے نذرانے پیش کرنے پڑے تو ان کے قدم لڑکھڑائے نہیں۔۔۔۔۔

خمینی کے فرزند اپنے ہدف سے پیچھے نہیں ہٹے، نہ ہی مقصد کو بھولے ہیں۔۔۔۔ ہمارا درس یہی ہے کہ قبلہ اول کی آزادی صرف مسلح جہاد سے ہی ممکن ہے، جب تک امت اس جہاد کو مکمل اختیار نہیں کر لیتی، راستے میں دیواریں سامنے آتی رہیں گی۔۔۔ مگر یہ واضح رہے کہ خمینی کے فرزندوں کے سامنے تم لاکھ دیواروں کو کھڑا کر لو، یہ ایک دن آنے والے ہیں، وہ دن دور نہیں جب اسرائیل کا ناجائز وجود اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا اور قبلہ اول آزاد ہوگا، پھر خمینی کے فرزند القدس شریف میں قبة الصخرا کے نیچے نماز شکرانہ اور نماز وحدت و اخوت ادا کریں گے۔۔۔۔ اے القدس کے باسیو! گھبرانا مت کہ خمینی کے فرزند جلد ہی آپ کے شانہ بشانہ لڑنے کیلئے آ رہے ہیں، راستے کی دیواریں گرا رہے ہیں۔۔۔ ہمیں عراق میں الجھایا گیا، ہم نے اس دریا کو عبور کر لیا اور القدس کے دشمنوں کو مات دی، شام میں ہمارا ٹاکرا بیت المقدس کے دشمنوں سے کروایا گیا، تاکہ القدس کی آزادی کو روکا جا سکے، مگر ہم نے ہر اس طاقت کو مات دی، جس نے کسی بھی نقاب میں ہمارا راستہ روکا، ہم نے چہروں سے نقاب نوچ لئے، ہم نے منافقوں کو ننگا کر دیا، ہم نے خائنوں کو رسوا کر دیا، ہم نے بہروپیوں کے چہروں کو امت پہ آشکار کر دیا، ہم واضح کرتے ہیں کہ اس راستے میں بہنے والے خون سے گھبرائے نہیں، ہم تھکے نہیں، ہم مرجھائے نہیں، ہم نے شہداء کے خون سے مزید روشنی پائی ہے، ہم آ رہے ہیں۔۔۔۔

اے سرزمین مقدس کے شہداء پرور باسیو! آپ کی عظیم قربانیاں رنگ لائیں گی۔۔۔ اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔۔ ارض مقدس فلسطین میں اسلام کے سبز پرچم میں لپٹی شہداء کی لاشوں سے عہد ہے کہ اے شہداء کے وارثو۔۔ تم تنہا نہیں ہو، ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، ہم آگے بڑھ رہے ہیں اور بڑھتے ہی جائیں گے، تاوقتیکہ القدس شریف کو نجس و ناپاک ہاتھوں سے واپس نہیں چھین لیتے۔۔۔۔ یاد رکھو١ ہم کربلائی ہیں اور کربلا کا درس حریت یہی ہے کہ قلت تعداد اور ہتھیاروں سے گھبرانا نہیں ہے، کربلا سیکھاتی ہے کہ کیسے خون تلواروں پہ فتح مند ہوتا ہے، ہم ٹینکوں کے سامنے غلیلوں سے مسلح ہو کر بھی دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ہم زندہ ہیں اور اسرائیلی سپاہی جدید اسلحہ سے لیس ہو کر بھی ان غلیلیوں کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، یہ موت سے کس قدر ڈرتے ہیں، فرار اختیار کرتے ہیں اور ہم موت کو کس طرح مسکرا کے گلے لگاتے ہیں۔۔۔۔ سلام ہے ان کربلائی جذبوں سے سرشار مائوں پہ جو گذشتہ ستر برس سے مسلسل اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اس مقدس سرزمین کی آزادی کیلئے میدان میں بھیج رہی ہیں، ان کی لہو رنگ لاشیں وصول کر رہی ہیں، اپنی عزتوں کو پائمال ہونے سے بچانے کیلئے اپنے فرزندوں کی تربیت کربلائی مائوں کی طرح کرتی ہیں، اپنی آبائی زمینوں کو غاصبوں سے واپس لینے کیلئے گولیوں اور ٹینکوں سے ٹکرا جاتی ہیں، سلام ہے ان بہنوں پر جو نہتی ہو کر بندوق برداروں کے سامنے اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ میدان عمل میں اتری دکھائی دیتی ہیں، قسم بخدا یہ بہنیں ہمیں ان نام نہاد خلیفوں، شاہوں، امت کے ٹھیکیدار مذہبی جغادریوں اور بے غیرت خادمین الحرمین سے زیادہ عزیز ہیں، جن کی زبانیں ان مظالم پر خاموش ہیں، جیسے انہیں سی دیا گیا ہو یا انہیں زنجیروں میں جکڑ کے تالے لگا دیئے گئے ہوں۔۔۔۔!
خبر کا کوڈ : 691405
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش