0
Wednesday 27 Dec 2017 22:45

سیاسی منظر اور امکانی دینی سیاست

سیاسی منظر اور امکانی دینی سیاست
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ملک میں جاری سیاسی انتشار، افراتفری اور بے یقینی کیساتھ حالات کا رخ مزید گھمبیر ہونے کی نوبت دیکھی جا سکتی ہے، اپوزیشن جماعتیں اگرچہ اس وقت تک کسی بڑے قومی یا نیشنل سطح کے اتحاد کو قائم کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں، مگر ایک خواہش سب کی ہے کہ کسی بھی طرح موجودہ حکومت اپنے دن پورے نہ کرسکے اور اگر یہ پاکستان پیپلز پارٹی کو دیکھیں تو اس کی خواہش ہے کہ کسی بھی طرح مارچ میں ہونے والے سینیٹ یعنی ایوان بالا کے انتخابات سے پہلے حکومت کا بوریا بستر گول ہو جائے، یہ کیسے ہو، اس کے بارے میں سبھی جماعتیں الگ الگ آراء اور نظر رکھتی ہیں، خصوصی طور پہ پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں میں اس حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں، شائد کوئی بھی جماعت پارلیمنٹ سے مستعفی ہو کر حکومت گرانے کے حق میں فی الحال دکھائی نہیں دیتی، اگر ایسا ہوتا تو پھر پاکستان کے نامور سیاستدانوں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب آصف علی زرداری کی منہاج القرآن یاترا کی نوبت شائد نہ آتی۔ یہ بات کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہے کہ تمام سیاسی کردار ایک دوسرے کو استعمال کرنے کی کوششوں میں ہیں، بالخصوص پاکستان عوامی تحریک کے سانحہ ماڈل ٹائون ایشو کو استعمال کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو گرانے اور اس کے ذمہ دار شہباز شریف کو ہتھ کڑی لگوانے کی خواہش سب میں دیکھی جا سکتی ہے، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس بار علامہ طاہر القادری کافی سنجیدگی کیساتھ اپنے کیس کو سامنے لا رہے ہیں اور کسی بھی قسم کی جلد بازی نہیں دکھا رہے۔ انہوں نے مختلف سیاستدانوں کی ہمدردی سمیٹی ہے اور اپنے ہاں میزبانی کا شرف بخشتے ہوئے اپنے کیس کو زندہ رکھا ہے، جبکہ اگلے مرحلے کیلئے بھی مشاورت کا عمل اور اکیلے فیصلے کرنے کے بجائے دیگر جماعتوں کو ملا کر میدان میں مکمل تیاری کیساتھ اترنے کو ترجیح دی ہے۔

علامہ طاہر القادری نے تحریک چلانے اور اس کو کامیاب بنانے کیلئے اے پی سی بلوا رکھی ہے، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی جائے گی۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو حکمرانوں کیلئے اسی اہل سنت مکتب کے بزرگان نے بھی طبل جنگ بجا رکھا ہے اور وہ بھی مختلف شہروں میں جلسے منعقد کرکے عوامی رائے کو مسلم لیگ کے خلاف کرنے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پورا زور لگا رہے ہیں کہ حکومت میں اہم ترین وزیر رانا ثناء اللہ جس نے قادیانیوں کے حق میں بہت ہی ناقابل قبول بیانات ریکارڈ کروائے اور اپنے موقف کا دفاع کرتا آ رہا ہے، کو وزارت سے فارغ کروانے کا مطالبہ پورے شد و مد سے کیا جا رہا ہے۔ پیر حمید الدین سیالوی جو نون لیگ سابق سینیٹر بھی ہیں، اپنے ساتھ کئی ایم پی ایز اور ایم این ایز کو ملا کر فیصل آباد میں ایک تاریخی جلسہ بھی کرچکے ہیں، جس میں اہل سنت کی تقریباً تمام اہم جماعتوں نے شرکت کی اور مطالبات کے حق میں اپنا موقف بھی پیش کیا۔ اب یہ لوگ پنجاب کے حکمرانوں کو شہر بہ شہر للکار رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں ایک بار پھر دینی و مذہبی سیاست اہل سنت کے ہاتھوں میں جا رہی ہے۔؟ کیا اہل سنت جو تعداد میں سب سے زیادہ ہیں، وہ دینی سیاست کے سرخیل بن پائیں گے اور اتنے ہی موثر ثابت ہونگے جتنے اس وقت دیوبندی ہیں۔؟ کیا اسلام آباد میں تحریک لبیک پاکستان کا دھرنا اور لاہور و پشاور کے الیکشن میں اپنے وجود کا بھرپور اظہار کرنے کے بعد انہیں آئندہ الیکشن میں بھی وہی پذیرائی حاصل ہوسکے گی۔؟ یہ بذات خود ایک سوال ہے کہ آئندہ الیکشن میں دینی و مذہبی جماعتوں کی کیا پوزیشن ہوگی،؟ آیا یہ لوگ ملک میں روز بروز پھیلتی مذہبی شدت پسندی کا فائدہ ووٹ کے حصول کی شکل میں اٹھا سکیں گے یا ان کے کھوکھلے وجود ایک بار پھر ظاہر ہو کر انہیں عوامی سطح پر ننگا کر دیں گے۔؟

اگر ہم مجموعی طور پہ دیکھیں تو یہ بات سامنے آچکی ہے کہ سابقہ دور میں ایک صوبہ میں حکومت کرنے والا مذہبی اتحاد ایک بار پھر بحال ہوچکا ہے، میری مراد متحدہ مجلس عمل ہے، جس میں چھ دینی سیاسی جماعتیں شامل ہیں اور ماضی میں صوبہ سرحد میں حکومت بھی انہی کے ہاتھ میں تھی۔ اب ایک بار پھر اس اتحاد کو مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے اہم عہدیدار جناب سینیٹر مولانا عبدالغفور اور کچھ دیگر کی کاوشوں سے بحال کر دیا گیا ہے، ان پارٹیوں کی طرف سے یہ اعلان ہوچکا ہے کہ ہم اگلا الیکشن اسی پلیٹ فارم سے کتاب کے نشان پر لڑیں گے۔ یاد رہے کہ اس اتحاد میں اہل تشیع کی نمائندگی علامہ سید ساجد علی نقوی کی جماعت اسلامی تحریک کرتی ہے، جبکہ اہل سنت کی طرف سے نمائندگی جمعیت علماء پاکستان نورانی کو حاصل ہے، جبکہ جمعیت علماء اسلام ایف اور جمعیت علما اسلام سین کیساتھ ساتھ جمعیت اہلحدیث کے سینیٹر علامہ ساجد میر، چھٹی جماعت جو اس اتحاد میں اہم کردار ادا کرتی آئی ہے، وہ جماعت اسلامی ہے، جس کے مرکز منصورہ میں ابتدائی میٹنگ میں ہی یہ فیصلہ سامنے آیا تھا کہ متحدہ مجلس عمل کو بحال کیا جائے گا۔ بعد ازاں کراچی میں منعقدہ ایک اجلاس میں اتحاد بحال کرنے کا اعلان بھی کیا گیا، اب اس اتحاد کے مختلف لیول کے اجلاس جاری رہتے ہیں، یہ بات قابل غور ہے کہ مولانا سمیع الحق کی جماعت جمعیت علماء اسلام سین نے اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے اور انہوں نے صوبہ کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اپنے اتحاد کا برملا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ مولانا سمیع الحق کے رفقاء نے جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کو موجودہ حکمرانوں سے مالی فوائد کے حصول اور کرپشن کے الزامات بھی لگائے ہیں اور کہا ہے کہ یہ لوگ پانچ سال سے حکومت میں رہ کر مزے لوٹ رہے ہیں اور اب الگ سے الیکشن لڑنے کی بات کر رہے ہیں، جبکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ کے پی کے حکومت نے مولانا سمیع الحق کے مدرسہ حقانیہ اور اس سے ملحقہ دیگر مدارس کو ایک بڑی گرانٹ دی اور باقاعدہ بجٹ میں ان کیلئے رقم مختص کی، جبکہ اسی صوبہ میں سرکاری طور پر ہر ماہ دس ہزار روپے مشاہرہ کی شکل میں پیش اماموں کو دیئے جا رہے ہیں، جو ایک بڑی رقم ہے۔

اسیطرح بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کے پی کے حکومت نے بعض ایسے کام بھی کئے ہیں، جو متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں بھی نہیں ہوسکے تھے، بالخصوص فرقہ پرستوں کے مطالبے پر خلفاء کے ایام کو سرکاری سطح پر منانے کا فیصلہ کیا گیا اور سرکاری چھٹی کی گئی، اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متحدہ مجلس عمل اس سے بڑھ کر کچھ کرکے دکھانے کی پوزیشن میں ہے اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے مکتب تشیع کی ایک اہم جماعت کے چلے جانے سے اور ان کیساتھ اپنی کمٹمنٹس طے کرنے کے بعد جو لوگ اگلے الیکشن سے قبل قومی سطح پر اتحاد اور وحدت کی کاوشیں کرنے بارے سوچ رہے تھے، ان کی کوششیں کیا صورت اختیار کریں گی۔ آیا اسلامی تحریک اور اس کی قیادت متحدہ مجلس عمل کو چھوڑنے کی پوزیشن میں ہوگی، تاکہ ملی سطح پر تمام جماعتیں اور قیادتیں مشترکہ طور پہ کسی ایک پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر اپنا حصہ بہتر طور پر لے سکیں، یا پھر سابقہ دور کی طرح ہی ہمیں وعدوں پہ ٹرخایا جائے گا۔؟ سیاست کے بارے کہتے ہیں کہ یہ بڑی ظالم ہوتی ہے اور طاقت و اختیار اور دولت کا نشہ ایسی چیز ہے، جو خونی رشتوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیتا ہے۔ آیا ہمارے نظریاتی اور مکتبی مخالف ہمارے لئے کسی اختیار کی جنگ لڑ سکتے ہیں، یا ہم اپنے حق کے حصول کیلئے ان پر انحصار کرسکتے ہیں یا ہمیں اپنوں کو گلے لگانا ہوگا، اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔ فی الحال تو قوم لسی پی کر سو رہی ہے اور جماعتیں اپنی صف بندیاں کر رہی ہیں، قوم کے بڑے اس وقت میدان میں آتے ہیں، جب وقت گزر چکا ہوتا ہے اور کئی دوسری طاقتیں موثر ہوچکی ہوتی ہیں۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے الیکشن اور نتائج ہمارے سامنے ہیں اس کو ہم آج بھی بھگت رہے ہیں 2018ء کے الیکشن بھی خدا نہ کرے ایسے ہی ہم پر بھاری پڑیں۔۔۔!
خبر کا کوڈ : 692986
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش