0
Monday 8 Jan 2018 22:59

امریکی رویہ اور خطے کی بدلتی صورتحال

امریکی رویہ اور خطے کی بدلتی صورتحال
تحریر: طاہر یاسین طاہر

عالمی منظر نامے میں چیزیں یکا یک تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ ان کے پیچھے تھینک ٹینک کام کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے فیصلہ ساز ممالک تو بہرحال تھینک ٹینکس کی رائے کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے طویل مدتی پالیسیاں بناتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک  البتہ جز وقتی پالیسیاں بناتے ہیں، جو فیصلہ ساز ممالک کی طویل مدتی پالیسیوں سے جڑی ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے طالبعلم جانتے ہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کس طرح اپنے علاقائی مہروں کو کام میں لاتی ہے۔ کیسے پروپیگنڈا انڈسٹری کو چالو کیا جاتا ہے اور کس طرح سوچوں کو یرغمال بنا کر نئے نئے بیانیے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ ممالک ہوں، ٹکڑوں میں بٹی اقوام ہوں، یا ترقی یافتہ و ترقی پذیر معاشرہ، ان سب کی اکائی انسان ہی ہے، فرد ہی معاشرہ کی بنیاد ہے اور یہی معاشرہ ملک و ریاست کی شکل اختیار کرتا ہے۔ عالمی، علاقائی اور مقامی نوعیت کے واقعات اتنی سرعت سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں کہ لمحہ بھر کو ٹھہرنے کی بھی مہلت نہیں ملتی۔ کسی ایک موضوع پہ یکسو ہوں تو اس سے اہم موضوع سامنے آجاتا ہے، اس سے گلو خلاصی چاہیں تو کوئی نئی خبر بلا رہی ہوتی ہے۔ ملکی داخلی صورتحال اولین ترجیح ہے۔ سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی کو ملک کے خلاف ہونے والی عالمی و مقامی سازشیں تو نظر نہیں آرہی ہیں مگر انھیں ہر موڑ ہر گلی میں اپنے خلاف سازشیں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ اس سازش کے تانے بانے وہ کہاں ملائیں گے؟ چکوال کے جلسہ میں مبینہ طور جو جعلی نوٹ میاں نواز شریف پہ برسائے گئے۔؟

وہ قومیں جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں، جن کے لیڈروں کی ساری "سیاسی بصیرت" اپنی ذات اور خاندان کے گرد گھومے۔ کالم بہرحال میاں صاحب یا کسی اور سیاسی لیڈر کی بصیرت پہ نہیں، بلکہ اجتماعی سیاسی اور قومی بصیرت کی تصویر کشی کی کوشش ہے۔ عالمی منظر نامے پہ کئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، بالخصوص گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنے کئی اہداف حاصل کئے۔ کہاں؟ افغانستان، عراق، شام، لیبیا، تیونس، مصر، پاکستان، بھارت، سعودی عرب، یو اے ای، ترکی، اسرائیل الغرض پوری دنیا میں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا، امریکہ نے خسارہ اٹھایا تو وہ غلطی پہ ہے۔ اعداد و شمار کے ماہرین صرف عراق و افغانستان کی جنگ پہ امریکی اخراجات بلین ڈالرز میں گنواتے ہیں۔ لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اتنے ڈالر خرچ کرکے بھی امریکہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پاکستان کو امداد روکنے کی دھمکی دے۔ جو یہ بتاتے ہیں کہ امریکی معیشت تباہ ہوچکی ہے، وہ یہ بتانا کیوں بھول جاتے ہیں کہ آج بھی امریکہ کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور اسلحہ ساز فیکٹریاں امریکہ کے لئے دنیا بھر سے پیسہ اکٹھا کر رہی ہیں۔ نعرہ زنی ایک اور مگر دلکش چیز ہے۔ قوموں کی امنگ اور ان میں جذبہ پیدا کرنے کو یہ بہت ضروری ہے، لیکن عملی اقدامات اس سے بھی زیادہ ضروری ہوتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد ہی نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے پاکستان امریکہ کا جنگی پارٹنر ہے۔ ہاں نائن الیون کے بعد یہ پارٹنر شپ ایک اور طرح کی بنی۔ بے شک نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکہ کا ہی ساتھ دینا تھا، یہی دانش مندی تھی اور پرویز مشرف کی جگہ کوئی بھی ہوتا، اس کا فیصلہ یہی ہونا تھا۔ خرابی البتہ یہ ہے کہ ہم اپنی قربانیوں پہ دنیا کو صحیح طرح قائل نہ کرسکے۔

ملکوں کی دوستیاں فرد کی ذاتی دوستیوں کی طرح نہیں ہوتیں، بلکہ مفادات دیکھے جاتے ہیں۔ کئی بار اور دنیا کے کئی ممالک نے مختلف فورمز پہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جانی و مالی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے، لیکن یہ اعتراف بھی مشروط ہوتا ہے۔ اس اعتراف میں مزید کرو کی گونج ہوتی ہے۔ یہ گونج بش سینئیر و جونئیر کی آواز میں بھی تھی، کلنٹن کی آواز میں بھی تھی، اوبامہ کی آواز میں بھی تھی اور ٹرمپ تو کہتا ہی بڑے جارحانہ اور غیر سفارتی انداز میں ہے۔ جو قلم کار یہ سمجھتے ہیں ٹرمپ واقعی خبطی ہے، انھیں اس حوالے سے امریکی پالیسی ساز اداروں، ان کی کارکردگی اور دبائو بڑھانے کے طریقوں کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ٹرمپ جیسے جارحانہ مزاج صدر کی آڑ میں امریکہ خطے میں کئی اقدامات کا خواہاں ہے۔ اوبامہ نے کہا تھا کہ افغانستان سے فوج بلوا لیں گے اور بلوائی بھی گئی، مگر یہ امریکی پالیسی نہ تھی کہ ساری فوج نکال لی جائے اور جنگ کو ختم کر دیا جائے۔ امریکہ کے اس خطے میں مفادات پہلے سے بڑھ چکے ہیں۔ ان بڑھتے ہوئے مفادات کا کوئی محافظ کوئی نگہبان بھی تو اسے چاہیے۔ وہ خواہ اسرائیل کی شکل میں ہو یا بھارت کی شکل میں۔ کسی ملک کے بجائے کوئی گروہ یا کئی گروہ اور این جی اوز بھی ہوسکتی ہیں۔

یہ نئی امریکی پالیسی کی مبہم شکل ہے، جو آہستہ آہستہ واضح ہوتی چلی جائے گی۔ امریکہ کا درد سر سی پیک بھی ہے اور جماعتہ الدعوہ سمیت کئی کالعدم تنظیمیں بھی ہیں۔ دوہری پالیسیاں بنانے کے ماہر امریکہ نے خطے میں اپنے قیام کی بنا بھی دہشت گرد تنظیمیں ہی قرار دی ہوئی ہیں۔ امریکہ دیکھ رہا ہے کہ پاکستان دفاعی پیداوار میں بھی خود مختار ہونے کی پالیسی پہ گامزن ہے اور معاشی طور پہ استحکام کے لئے بھی سی پیک جیسے بڑے پروجیکٹ کا مالک ہے۔ وائٹ ہائوس دیکھ رہا ہے کہ پاکستان، چین، روس اور ایران کے ساتھ مل کر خطے اور دنیا کی سیاست میں اہم کردار کا خواہاں ہے۔ بے شک پاکستان کے پاس دستیاب مواقع میں سے یہی ہے کہ امریکی بدکلامی کے جواب میں روس، ایران اور چین جیسے خطے اور دنیا کے با اثر ممالک کے ساتھ اپنے ربط کو مزید گہرا اور با اعتماد کرے۔ چین کے ساتھ گہرا باہمی اعتماد کا رشتہ موجود ہے۔ اس سے مراد یہ قطعی نہیں کہ امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرکے جنگ کی جائے یا دہشت گردی کی جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا جائے، بلکہ زمینی حقائق کا مطالبہ یہی ہے کہ ایسا کیا جائے۔ کیا افغانستان میں داعش کا ٹھکانہ بے سود ہوگا؟ کیا اس سے روس، ایران، چین اور پاکستان متاثر نہیں ہوں گے؟ بے شک ہوں گے، اس لئے نئی پیش بندی کی ضرورت ہے۔

امریکہ کی پوری کوشش ہوگی کہ افغان جنگ کی آگ پاکستان کے اندر تک کھینچ لائے۔ امریکہ یہ بھی چاہے گا کہ وہ معاشی پابندیوں کے ذریعے پاکستان کو دبائو میں لائے۔ اس مرحلے پر سفارتی محاذ پہ پاکستان کو بہت متحرک اور مدلل ہونا پڑے گا۔ دنیا کی نئی نقش گری کی بنا اسی خطے سے ڈالی جائے گی۔ افغانستان کو فتح کرنا امریکہ کا کبھی مقصد نہ رہا بلکہ وہ ایسے اسباب پیدا کرتا رہے گا کہ افغانستان میں امریکی قیام کو وسعت ملے۔ اس کے لئے دہشت گردی، داعش، طالبان وغیرہ کی شکل میں امریکہ کے پاس بہت سے آپشن ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ڈو مور پاکستان کیا کرے؟ کیا پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانی و مالی نقصان نہیں اٹھایا؟ یہ الزام لغو ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنے والے بھی افغانستان میں اڈے بنائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے عوام اور پاک فوج بڑی دلیری سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکی رویہ کسی بھی طور ایک دوست، اتحادی اور ایک ذمہ دار عالمی طاقت کا سا نہیں ہے۔ تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کے حالات کو تیزی سے خراب کرنے میں امریکہ اپنے تمام وسائل اور مہارتیں استعمال کرے گا اور اس خطے کو مستقل جنگ زدہ علاقہ بنا دے گا۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے پاکستان، روس، ایران اور چین کا دفاعی و معاشی اتحاد نہایت ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 695814
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش