0
Monday 5 Feb 2018 20:40

کراچی سینٹرل جیل کا انتظام جیل انتظامیہ کی بجائے خطرناک جہادی قیدی کیجانب سے چلائے جانیکا انکشاف

کراچی سینٹرل جیل کا انتظام جیل انتظامیہ کی بجائے خطرناک جہادی قیدی کیجانب سے چلائے جانیکا انکشاف
ترتیب و تدوین: ایس جعفری

دہشتگردوں کی جانب سے کراچی سینٹرل جیل کو توڑنے کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے سندھ حکومت نے انتہائی خطرناک قیدیوں کو اندرون سندھ کی مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا، جبکہ دوسری جانب کراچی سینٹرل جیل کا انتظام جیل انتظامیہ کی بجائے خطرناک جہادی قیدیوں کے ہاتھوں میں ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے، جیل اسٹاف پر جہادی قیدیوں کی مرضی چلتی ہے اور جیل اسٹاف خوف یا نااہلی کے باعث ان قیدیوں کی ہدایات پر عمل کرتا ہے، جیل اسٹاف کو جہادی قیدیوں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خطرناک دہشتگرد قیدیوں کی جانب سے کراچی سینٹرل جیل کو توڑنے کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے سندھ حکومت نے انتہائی خطرناک قیدیوں کو اندرون سندھ کی مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا اور جیل حکام کو سختی سے ہدایت کر دی ہے کہ قیدیوں کی نقل و حرکت اور جیلوں کی تفصیلات سے متعلق کسی کو بھی آگاہ نہ کیا جائے۔ سندھ حکومت کے انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق وفاقی انٹیلی جنس اداروں کے سندھ میں تعینات سربراہوں نے وزیراعلٰی سید مراد علی شاہ کو خفیہ رپورٹ کے ذریعے آگاہ کیا تھا کہ کچھ گرفتار ملزمان نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی سینٹرل جیل کو توڑنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے اور جہادی تنظیموں کے قید ملزمان کو فرار کرایا جائے گا۔ خفیہ اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں وزیراعلٰی سندھ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے آئی جی جیل خانہ جات کو حکم دیا ہے کہ فوری طور پر جہادی اور خطرناک قیدیوں کو اندرون سندھ کی مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا جائے، جس کے بعد گذشتہ ماہ 28 جہادی اور خطرناک قیدوں کو سکھر، لاڑکانہ اور نارا جیل منتقل کر دیا گیا۔

دوسری جانب کالعدم جماعت لشکر جھنگوی کے 2 ہائی پروفائل قیدی دہشتگردوں شیخ محمد ممتاز عرف فرعون اور محمد احمد خان عرف منا کے کراچی سینٹرل جیل سے فرار ہونے کے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ میں جیل میں سکیورٹی کے ناقص انتظامات اور بدترین اندرونی صورت حال کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ثناء اللہ عباسی نے آئی جی سندھ کو پیش کر دی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی سینٹرل جیل کا انتظام جیل انتظامیہ کی بجائے جہادی قیدی چلا رہے ہیں، جیل کے اسٹاف پر ان کی مرضی چلتی ہے اور جیل کا اسٹاف خوف یا نااہلی کے باعث ان قیدیوں کی ہدایات پر عمل کرتا ہے، نتیجاً جیل کے قیدی ہی کورٹ کلرک اور مددگار بنے ہوئے ہیں اور وہی جیل کے وارڈز اور کھولیوں کو کھولنے کا انتظام سنبھالتے ہیں، انہی جہادیوں نے خود کو وارڈز کا ذمہ دار بنایا ہوا ہے، ایسے قیدیوں نے جیل کے اندر خفیہ طور پر سہولتیں حاصل کر رکھی ہیں، ایسے قیدی جہادی قیدی حافظ رشید اور سرمد صدیقی اور ایم کیو ایم کے منہاج قاضی کی طرح جیل کے ڈان بنے ہوئے ہیں اور وہ جیل کے باہر اپنے نیٹ ورک کو کنٹرول کرتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی سینٹرل جیل کے قیدی اپنے کورٹ پروڈکشن آرڈر بھی خود ہی ایک دوسرے کو پہنچاتے ہیں، حتٰی کہ قیدیوں سے ملنے کیلئے آنے والے ملاقاتیوں کا انتظام بھی قیدیوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیل اسٹاف کو جہادی قیدیوں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں ملتی رہتی ہیں، حافظ قاسم رشید جیسے قیدیوں کو کئی مرتبہ سرعام یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ وہ آئی جی جیل خانہ جات کے بھائی کے قتل کے ذمہ دار ہیں اور وہ کسی بھی جیل اسٹاف کو باآسانی قتل کرا سکتے ہیں، اس وجہ سے جیل کا اسٹاف مکمل طور پر دباؤ میں ہے اور ان کا جہادی قیدیوں پر حکم نہیں چلتا۔

رپورٹ میں جیل میں سکیورٹی کے ناقص انتظامات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جیل کے ساتھ زیرِ تعمیر جوڈیشل کمپلیکس پر کئی ٹھیکے دار کام کر رہے ہیں، اس سلسلے میں مضبوط شواہد ملے ہیں کہ فرار ہونے والے قیدی باہر کے سہولت کاروں کی مدد سے جیل توڑ کر فرار ہوئے، جو مزدوروں کے روپ میں آئے ہوںگے، کیونکہ جوڈیشل کمپلیکس کے ٹھیکے دار سکیورٹی اقدامات پر عملدرآمد نہیں کرتے اور ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے مزدوروں کو چیک نہیں کیا جاتا۔ فرار ہونے والے قیدیوں اور ان کے سہولت کاروں نے سکیورٹی کی ایسی صورت حال سے فائدہ اٹھایا ہوگا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ جیل کے 15 افسران و اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے، لیکن جیل میں کئی ایسے مشتبہ قیدی موجود ہیں، جن پر شک ہے کہ انہوں نے فرار ہونے والے قیدیوں کے فرار میں مدد کی۔ دوسری جانب موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک اور ایڈیشنل آئی جی پولیس آفتاب پٹھان نے جیل کے معاملات کو ہی ٹیک اوور کرنے کا منصوبہ بنا لیا اور محکمہ داخلہ کو ایک خط تحریر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جیل کے ڈی آئی جیز اور جیلرز کا تبادلہ کرکے ان کی جگہ پاکستان پولیس سروس (پی ایس پی) کے افسران کو تعینات کیا جائے۔ نجی اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ سندھ قاضی شاہد پرویز نے بتایا کہ اپیکس کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں آئی ایس آئی اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق تمام ہائی پروفائل قیدیوں کو مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے، جبکہ سزا یافتہ خطرناک دہشتگردوں اور قتل کی وارداتوں میں ملوث قیدیوں کو بھی کراچی سینٹرل جیل سے اندرون سندھ کی مختلف جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ جیل انتظامیہ کی درخواست پر جیل میں منشیات، موبائل فونز اور دیگر مختلف اشیاء کی موجودگی کی اطلاع پر رینجرز، جیل انتظامیہ اور پولیس کا مشترکہ آپریشن کرکے تمام اشیا قبضے میں لے لی گئی ہیں اور ملوث جیل اہلکاروں کے خلاف مقدمات بھی درج کر لئے گئے ہیں۔ صوبائی وزیر جیل ضیاء لنجار مستقل بنیادوں پر سرپرائز دورے بھی کر رہے ہیں، تاکہ انتظامیہ مزید چوکنا رہتے ہوئے منفی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے۔ قاضی شاہد پرویز نے بتایا کہ ایڈیشنل آئی جی پولیس آفتاب پٹھان کی جانب سے جیل افسران کے بجائے پی ایس پی (پاکستان پولیس سروس) کے افسران تعینات کرنے کی تجویز وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے مسترد کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ آئی جی پولیس آفتاب پٹھان نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، انہیں صرف ڈی ایس پی زاہد حسین کی انکوائری کا مینڈیٹ دیا گیا تھا، لیکن انہوں نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا اور زاہد حسین کے بجائے جیل ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے تجاویز ارسال کر دیں، جس کا انہیں اختیار ہی حاصل نہیں تھا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جیل میں افسران کی کمی کو دور کرنے کیلئے پبلک سروس کمیشن سے درخواست کر دی ہے، تاکہ جلد از جلد بھرتیوں کا عمل مکمل ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ قیدیوں کو عدالتوں تک لے جانے کیلئے پولیس وینز کی فراہمی پولیس کی ذمہ داری ہے اور 85 فیصد معاملات ٹھیک چل رہے ہیں، کچھ کمی ہے جسے جلد پورا کر دیا جائے گا۔

آئی جی جیل خانہ جات نصرت منگن نے کہا ہے کہ جیل انتظامیہ اور رینجرز کے مشترکہ سرچ آپریشن کے دوران سینٹرل جیل کراچی سے منشیات اور موبائل فونز برآمد کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں، جبکہ مطلوبہ جیل عملہ بھی دستیاب نہیں، اس لئے جیل انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف قیدی جب پیشی کے موقع پر باہر نکلتے ہیں، تو مختلف طریقوں سے موبائل فونز اور منشیات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس کی بیخ کنی کیلئے بھرپور اقدامات بھی کئے جاتے ہیں، رینجرز کے ذریعے حالیہ سرچ آپریشن بھی جیل انتظامیہ نے خود خط لکھ کر کرایا تھا، چونکہ جیل انتظامیہ کو شک ہوگیا تھا کہ قیدیوں کے پاس منشیات اور موبائل فون موجود ہیں، اس لئے رینجرز کی بھاری نفری کے ساتھ مل کر آپریشن کے بعد منشیات اور موبائل فون ضبط کئے گئے۔ آئی جی جیل نے مزید بتایا کہ دنیا بھر بشمول امریکہ اور برطانیہ کی جیلوں میں بھی قیدی جیلوں میں منشیات اور موبائل فون حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور لندن کے حالیہ دورے کے موقع پر بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ قیدی جیلوں کے اندر منشیات اور موبائل فون نہ جانے کس طرح حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ نصرت منگن نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جیلوں کو محفوظ بنانے کیلئے سکیورٹی انتظامات میں اضافہ کر دیا گیا ہے، جبکہ کراچی سینٹرل جیل سے ہائی پروفائل، خطرناک اور سزا یافتہ قیدیوں کو بھی بتدریج مختلف جیلوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 702510
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش