0
Thursday 8 Feb 2018 12:31

انقلاب اسلامی ایران۔۔۔۔۔1979ء سے آج تک کا سفر

(11 فروری انقلاب کی سالگرہ کی مناسبت سے)
انقلاب اسلامی ایران۔۔۔۔۔1979ء سے آج تک کا سفر
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

ایران کے اسلامی انقلاب کو اگر ایک ملک میں تبدیل ہونے والے نظام کی حد تک دیکھا جائے تو شاید اس میں معمولی خاصیتیں نظر آئیں یا صرف خطے اور ملک کے حوالے سے تبدیلیاں نظر آئیں، لیکن انقلاب اسلامی ایران کو اس کی فکر، اس کی قیادت، اس کے نظریئے، اس کے انداز اور اس کے استقلال و استحکام کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمیں یہ انقلاب ایک خطے اور ملک کا انقلاب نہیں بلکہ پوری دنیا پر محیط انقلاب نظر آتا ہے، جس کا تعلق کسی ایک ملک کے باشندوں سے نہیں بلکہ دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں کے قلوب کی تبدیلی سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران سے دنیا بھر کے انسان متاثر ہوئے اور اس انقلاب کے عالم اسلام میں بالخصوص اور دیگر اقوام و مذاہب میں بالعموم مثبت اور حریت پر مبنی اثرات مرتب ہوئے اور ہمارے موجودہ ادوار میں موجود انقلابیوں، حریت پسندوں اور خودداروں کو اس انقلاب سے بہت رہنمائی اور حوصلہ ملا۔ انقلاب اسلامی ایران کے قیام کے آغاز کے دنوں میں بعض قوتوں نے کہا کہ یہ جذباتی انقلاب ہے، جو چار دنوں کے بعد ختم ہو جائے گا۔ بعض قوتوں نے کہا کہ یہ ایک فرقے اور مسلک کا انقلاب ہے، جو صرف اس مسلک کے پیروکاروں تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔ بعض قوتوں نے کہا کہ یہ انقلاب فقط ایک خطے سے متعلق ہے، لہذا جلد ختم ہوجائے گا۔ بعض قوتوں نے کہا کہ یہ انقلاب فقط امریکی مخالفت پر مبنی ہے، لہذا اس کو پائندگی حاصل نہیں ہوسکے گی۔ بعض قوتوں نے کہا کہ یہ انقلاب چند مولویوں کا برپا کیا ہوا ہے، جو چند دنوں بعد باہم دست و گریباں ہو جائیں گے۔ بعض قوتوں نے کہا کہ یہ انقلاب فقط ’’امام خمینی شو‘‘ ہے، جو ان کی وفات کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ بعض قوتوں نے کہا کہ یہ ایک نسل تک محدود ہے، نئی آنے والی نسل کے ساتھ ہی یہ انقلاب اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ بعض قوتوں نے کہا کہ یہ جبری اور ڈنڈے کے زور پر آنے والا انقلاب ہے، جسے جلد ہی عوام مسترد کر دیں گے۔ بعض قوتوں نے کہا کہ یہ بادشاہت کے خلاف نفرت کی بنیاد پر آنے والا انقلاب ہے، جس کو عوام جلد ہی خود ختم کر دیں گے۔ بعض قوتوں نے کہا کہ ملک چلانا اور عالمی سطح پر شناخت قائم رکھنا مذہبی طبقے کے بس کا روگ نہیں ہے، لہذا عوام جلد ہی مذہبی طبقے سے تنگ آکر انہیں اقتدار سے علیحدہ کر دیں گے۔

بعض قوتوں نے انقلاب کے ختم ہونے کی تاریخیں بھی طے کر دیں اور پیشین گوئیاں بھی کر دی گئیں۔ لیکن وقت اور تاریخ نے ثابت کر دیا کہ 39 سال گزر جانے کے باوجود انقلاب اسلامی ایران نہ صرف پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ فقط ایران نہیں بلکہ دنیا کے کونے کونے سے اس انقلاب کی حمایت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ استعمار اور استکبار کے مظالم خود بخود انقلاب کو مضبوط کرتے چلے جا رہے ہیں اور ماضی میں انقلاب اسلامی کی شدید مخالفت کرنے والے مسلمان و غیر اسلامی ممالک اور طبقات آج انقلاب اسلامی ایران کے شانہ بشانہ ہیں۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ انقلاب جذباتی نہیں بلکہ شعوری اور فکری انقلاب ہے۔ یہ ایک فرقے یا مسلک کا انقلاب نہیں بلکہ عالم اسلام اور انسانیت کا ترجمان انقلاب ہے۔ کسی ایک خطے یا ملک کا انقلاب نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے مظلوموں اور محروموں کا انقلاب ہے۔ یہ انقلاب کسی ایک ملک یا طاقت کے خلاف نہیں بلکہ اصولوں کی بنیاد پر ہر اس ظالم اور جابر و غاصب قوت کے خلاف ہے، جو دنیا پر ناجائز قبضے کرنے اور دہشت گردی کے ذریعے دوسری اقوام کو دبانے کے لئے اقدام کر رہی ہے۔ یہ انقلاب چند مولویوں اور شدت پسندوں و فرقہ پرستوں کا انقلاب نہیں بلکہ روشن فکر، وسیع النظر، اعلٰی سیاسی شعور کے حامل اور دین و دنیا کے تمام معاملات پر گہری نظر رکھنے والے جید علماء، مجتہدین اور اسلامی اسکالرز کا انقلاب ہے۔ یہ انقلاب کسی ایک شخصیت کی نمائش کا ذریعہ نہیں بلکہ دنیا کو ایک صحیح، سچی، مخلص، دیانت دار، علمی، عملی، پاکیزہ، معتدل اور اتحاد و اخوت کی داعی شخصیت (امام خمینیؒ) کی شکل میں قیادت فراہم کرنے والا انقلاب ہے۔ یہ کسی ایک نسل کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے برپا ہونے والا انقلاب ہے۔ یہ جبری اور ظالمانہ انقلاب نہیں بلکہ عوامی خواہشات اور انسانی ضروریات کے تحت آنے والا عوامی اور جمہوری انقلاب ہے، جو انسانوں کو ایک مستقل اور اعلٰی نظام حیات فراہم کرتا ہے۔ یہ انقلاب بادشاہت کی آڑ میں خاندان پرستی اور عوام کو غلام بنانے کے نظام اور اپنے وطن کو غاصب طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے خلاف ہے۔ اس انقلاب نے ثابت کر دیا کہ اگر مذہبی طبقے میں اتحاد، جذبہ، ہم آہنگی، خلوص اور لگن ہو تو صرف ایک ملک پر نہیں بلکہ پوری دنیا پر مذہبی طبقہ حکومت کرسکتا ہے۔ اس انقلاب کے استحکام اور استقلال نے ان پیشین گوئیوں کو غلط ثابت کر دیا، جو انقلاب کے ختم ہونے کے حوالے سے کی گئیں تھیں۔

انقلاب اسلامی ایران آزادی اور حریت کا پیغام ہے۔ یہ انقلاب ایران کی طاقت اور اس کی قیادت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ امریکہ و اسرائیل جیسے ظالم اور جارح ممالک اور ان کے اتحادیوں نے ایران پر حملے کرنے کے بارے میں ہزار بار سوچا اور پھر تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ اگر انقلاب اسلامی ایران طاقتور اور مضبوط نہ ہوتا تو امریکہ کافی عرصہ پہلے عراق، کویت، سعودی عرب، افغانستان اور پاکستان کی طرح ایران کو بھی اپنے تسلط میں لے چکا ہوتا۔ انقلاب اسلامی ایران نے امت مسلمہ کو جس وحدت اور اخوت کی لڑی میں پرویا اس کی مثال گذشتہ کئی صدیوں میں نہیں ملتی۔ رہبر انقلاب امام خمینیؒ اور موجودہ رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مسلمانوں کو ان کے مشترکات پر جمع کرنے اور فروعات کو نظر انداز کرنے کا جو درس دیا، وہ قابل تقلید ہے۔ انہی رہبروں کے درس اخوت و وحدت کے ثمرات دنیا کے تمام ممالک میں نظر آرہے ہیں، پاکستان میں اس کی ایک بڑی اور واضح مثال متحدہ مجلس عمل اور ملی یکجہتی کونسل کی تشکیل اور اس میں رہبر انقلاب کے براہ راست نمائندے و نائب علامہ سید ساجد علی نقوی کی شمولیت اور موجودگی ہے۔ آج پاکستان میں متحدہ مجلس عمل اور ملی یکجہتی کونسل کی وجہ سے پیدا ہونے والا اتحاد، اخوت، وحدت اور امن و آشتی دنیا کے تمام مسلم ممالک کے لئے مثال بن چکا ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں بھی ایم ایم اے اور ملی یکجہتی کونسل کی طرز پر ایک اتحاد تشکیل پا جائے، تاکہ مسلمانوں کی بکھری ہوئی قوت کو یکجا کیا جاسکے اور مشترکہ دشمنوں کا مقابلہ مل کر کیا جاسکے اور عالم اسلام کو مستحکم و مضبوط کیا جاسکے۔

11 فروری کے دن انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ 1979ء سے لے کر آج تک کا سفر بہت ساری تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے، جس پر مختلف سیاسی اور مذہبی تجزیہ نگار اپنی معلومات اور شواہد کے مطابق تجزیہ کاری کرتے ہیں۔ آج ایران پر طویل پابندیوں کی شکل میں بڑے امتحانات کا نتیجہ خوشحالی کی شکل میں آچکا ہے۔ آج کا ایران مذہبی، سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے سینتیس سال پہلے والا ایران نہیں رہا۔ وقت نے اور آزمائشوں نے ایرانی قیادت کو بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ موجودہ حالات میں ایران کی خارجی پالیسیاں یہ شائبہ بھی بہت تقویت کے ساتھ دے رہی ہیں کہ اس انقلاب میں غالب پہلو مذہب اور مسلک کا تھا یا ایرانی قومیت کا؟؟ کیا امریکہ و اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ اختلافات اور پھر مذاکرات کے دوران مذہب اور اسلام کو ترجیح دی گئی یا ملکی و قومی مفادات کو؟ کیا روس، امریکہ، اسرائیل جیسے شیاطین بزرگ اور عرب خطے و یورپ کے بعض شیاطین کوچک کے خلاف فضاء گرم کرنے کے بعد اعتدال کی پالیسی اور پھر قربت و محبت کی پینگیں اصولی سیاست تھی یا بدلتی ہوئی ملکی و قومی ضروریات۔؟ تازہ حالات میں ایران سعودی تنازعہ اور ایران اسرائیل مخالفت میں شدت، ایران اور عالمی طاقتوں کے معاہدے، ایران یورپ اقتصادی معاہدے، ایران چین دوستی کا نیا دور، ایران پاکستان یا ہندوستان انتخاب، اسلامی انقلاب برآمد کرنے کے نئے فارمولے، دیگر ممالک میں ایرانی پالیسیوں کا اثر و نفوذ اور ایران کے تازہ دم منصوبوں پر صاحبان آگہی اور صاحبان جانبداری اپنے اپنے زاویوں سے تبصرہ نگاری کر رہے ہیں، جس سے ایرانی قیادت کو ضرور استفادہ کرنا چاہیے، بلکہ رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکہ و یورپ اور عرب ممالک کے مقابلے میں ایرانی عالمی سفارت کاری بلاشبہ کامیاب رہی ہے۔ جنگ اور عالمی اقتصادی پابندیوں کے کٹھن ترین دور میں بھی اور موجودہ حالات میں بھی ایران نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے، جو کم از امریکہ، پاکستان اور سعودی عرب کے لئے بہت بڑا سبق ہے، کیونکہ یہ تینوں ممالک ابھی تک دنیا کو اپنے موقف کے حوالے سے چند دن بھی قائل نہیں رکھ سکے۔

یہاں اس خطرے کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ موجودہ ایرانی قیادت کو امام خمینی ؒ کے متعین کردہ راستے اور اسلامی انقلاب کے بنیادی اصولوں سے روگردانی سے مکمل گریز کرنا ہوگا، اگرچہ رہبر انقلاب جناب آیت اللہ علی خامنہ ای کی موجودگی میں کسی قسم کی بڑی روگردانی ممکن نہیں، لیکن پھر بھی اختلاف نظر کے بہانے انقلاب کی شکل تبدیل کرنے کی کوششیں اندرون خانہ جاری ہیں۔ یہ بھی تسلیم شدہ بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اور ہر دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ملکوں، خطوں اور انقلابات کی پالیسیاں بھی تبدیل کرنا پڑتی ہیں اور خدوخال میں تھوڑا بہت اتار چڑھاو کرنا پڑتا ہے، لیکن انحراف کی کوئی بھی شکل اصل چیز کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ امت مسلمہ کے ہر مخلص اور اسلام دوست انسان کی خواہش ہے کہ ایران اپنی اعلٰی صلاحیتوں سے عالم اسلام کی رہنمائی و قیادت کرے اور مسلمانوں کے درمیان عالمی سطح پر وحدت و اخوت کا ایسا ماحول قائم کرے، جو صدیوں قائم رہے۔ عالم اسلام کے اعلٰی مفادات کی خاطر اگر اپنے ملکی مفادات کی قربانی دینا پڑے تو اس میں ذرہ برابر گریز نہ کیا جائے بلکہ اسلامی ایثار کا شاندار مظاہرہ کیا جائے۔ امید نہیں بلکہ یقین کیا جا رہا ہے کہ عالمی پابندیوں کے خاتمے اور دنیا کے ساتھ ایران کے اقتصادی و کاروباری معاہدوں کے بعد خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے، جس کے ثمرات صرف ایران کی حد تک نہیں بلکہ ایران کے ہمسایہ ممالک پاکستان اورافغانستان کو بھی حاصل ہوسکتے ہیں، لہذا اس خوشحالی سے فائدہ اٹھانے کے لئے دونوں ممالک کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے عوام پر رحم کرتے ہوئے امریکہ و سعودی عرب کی کاسہ لیسی ختم کریں اور ان کے احکامات و پالیسیوں پر بسر و چشم عمل کرنے کی بجائے ایران اور چین کے ساتھ دوستی اور تعلقات کے نئے دور کا آغاز کریں اور تیل و گیس سمیت ہمہ قسم کے کاروباری معاہدے کریں، تاکہ پاکستان و افغانستان کی تباہ حال معیشت اور برباد شدہ امنیت کا خاتمہ ہو۔ اس راستے میں امریکہ و سعودی عرب یقیناً حائل بھی ہوں گے، بلکہ بلیک میلنگ پر مبنی دھمکیاں بھی دیں گے، لیکن ہمیں استقامت اور خودداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، چاہے اس کے لئے کچھ عرصہ مشکلات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس حوالے سے ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے طویل اور صبر آزما مقابلہ کیا، بالآخر فتح ایران کا مقدر ٹھہری۔ ہمارے خطے میں موجود دہشت گردی جیسے بڑے مسئلے کا حل بھی اسی میں مضمر ہے کہ ہم داعش و طالبان و القاعدہ و لشکر جھنگوی کے تخلیق کاروں، سرپرستوں اور فنڈز فراہم کرنے والوں یعنی امریکہ و اسرائیل و سعودی عرب کی نفی کریں اور ایران و چین کے ساتھ اعلانیہ تعلق اور اقتصادی و کاروباری معاہدوں کو تقویت دیں اور خطے کو امن و ترقی و خوشحالی کی مثال بنائیں۔
خبر کا کوڈ : 703310
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش