0
Tuesday 13 Feb 2018 22:50

ملتان، انقلاب اسلامی ایران کی 39 ویں سالگرہ کے موقع پر خانہ فرہنگ میں تقریب، آنکھوں دیکھا حال

ملتان، انقلاب اسلامی ایران کی 39 ویں سالگرہ کے موقع پر خانہ فرہنگ میں تقریب، آنکھوں دیکھا حال
رپورٹ: ایم ایس نقوی

انقلاب اسلامی ایران کی 39 ویں سالگرہ کے موقع پر ملک کے دیگر شہروں کی طرح ملتان میں بھی خانہ فرہنگ اسلامی جمہوری ایران کے زیراہتمام تقریب کا اہتمام کیا گیا، تقریب کے میزبان اسلام آباد سے تشریف لائے ہوئے ثقافتی قونصلر اسلامی جمہوریہ ایران (اسلام آباد) آقای شہاب الدین دارائی تھے۔ تقریب کے مہمان خصوصی سابق اسپیکر قومی اسمبلی و سابق وفاقی وزیر سید فخر امام تھے، دیگر مہمانوں میں سابق ممبر صوبائی اسمبلی سید احمد مجتبٰی گیلانی، پروفیسر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی، مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی، سید زاہد حسین گردیزی، علامہ مجاہد عباس گردیزی، سید زاہد حسین شمسی، خواجہ عبداللہ اور دیگر شامل تھے۔ نظامت کے فرائض حسب معمول معروف شاعر، ادیب اور نقاد شاکر حسین شاکر نے انجام دیئے۔ تقریب سے قبل ملتان کے مقامی صنعتکاروں کے فن پاروں پر مشتمل نمائش کا افتتاح بھی کیا گیا، نمائش میں فن پاروں کے ساتھ ساتھ انقلاب اسلامی سے وابستہ کتب، دستاویزات اور عکس بھی نمایاں تھے۔ رہنمائوں نے اپنے خطاب میں انقلاب اسلامی ایران کے حوالے سے کہا کہ ایرانی عوام نے اپنے لیڈر امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے فرمودات پر عمل کیا اور آج وہ ایک کامیاب ملت ہیں، لیکن پاکستانی قوم نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے فرمودات کو پس پشت ڈال دیا، جس کی وجہ سے آج یہ حالت ہے، رہنمائوں کا کہنا تھا کہ پاک ایران تعلقات کو مزید مضبوط اور گہرا ہونا چاہیے، عالم اسلام کے یہ دو طاقتور ممالک دشمن کی آنکھ کا کانٹا ہیں، ہمیں بھی ایران کی طرح اپنی خود مختاری کا سودا نہیں کرنا چاہیے۔

مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا کہ جب انقلاب اسلامی برپا ہوا تو امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے پوری دنیا کو متوجہ کیا کیونکہ اُس وقت ایک پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ یہ انقلاب فقط شیعی ہے نہ کہ اسلامی ہے، اُنہوں نے حقیقی اسلام ناب محمدی کا ایک نیا چہرہ پیش کیا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے اس انقلاب کے ذریعے تمنائے امام زمانہ علیہ السلام کو پورا کیا، یہ اہلیبیت علیہم السلام کی تمنا تھی کہ رحلت رسول خدا (ص) کے بعد اسلامی حکومتوں کا جو نقشہ بگاڑ دیا گیا تھا، اس کے بعد اسلامی طرز حکومت پر ایک ایسی عادلانہ حکومت وجود میں آئے، جہاں حقیقی اسلامی ناب محمدی عملی طور پر نظر آئے، یہ شرف امام خمینی رضوان اللہ علیہ کو ہی ملتا ہے کہ اُنہوں نے نظام ولایت فقیہ کو متعارف کرایا، ولایت فقیہ ایک ایسا نظام اور سسٹم ہے، جو انسان کو خدا کے ساتھ متصل کرتا ہے، نظام ولایت استکباری طاقتوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوا ہے، امام خمینی کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ وہ عارف تھے اور معرفت خدا رکھتے تھے، وہ دشمن شناس اور دشمن قوتوں سے آگاہ تھے، یہی وجہ ہے جب استعماری قوتیں انقلاب اسلامی کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، اُنہوں نے حزب جمہوری اسلامی کے دفتر میں ایک دھماکہ کرکے گمان کیا کہ اب انقلاب آگے نہیں چل سکتا، لیکن امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے اُس وقت کہا تھا، جب شہید بہشتی سمیت 70 سے زائد پارلیمنٹیرین شہید ہوئے تھے۔ امام نے فرمایا تھا کہ"منطق ما منطق قرآن است، انا للہ و انا الیہ راجعون، بہشتی نیست خدا کہ ہست" ہماری فکر فکر قرآن ہے، ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اُسی کی جانب لوٹ جانا ہے، یہ انقلاب بہشتی نہیں لایا بلکہ یہ انقلاب خدا کی جانب سے ہے، آج انقلاب کو چالیس سال ہونے کو ہیں، الحمداللہ آج بھی انقلاب محفوظ ہاتھوں میں ہے، آج دنیا کا بڑے سے بڑا شیطان نظام ولایت فقیہ اور رہبر معظم کی شخصیت کے سامنے کانپتا ہے۔

سابق ممبر صوبائی اسمبلی سید احمد مجتبٰی گیلانی نے خطاب میں کہا کہ جہاں اسلام اور اسلامی ممالک آجائیں، وہاں ایک مضبوط رشتہ قائم ہے اور قائم رہے گا، ایران کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں، ایران کے ساتھ تعلقات میں مزید وست کی ضرورت ہے، جب تعلقات بڑھیں گے تو آپس میں بھائی چارے کا رشتہ مزید قائم اور منظم ہوگا، انقلاب فرانس میں بھی آیا تھا، انقلاب انڈوپاک میں بھی آیا تھا، انقلاب امریکہ میں بھی آیا تھا مگر نوعیت میں فرق ہے، لیکن جو انقلاب ایران میں آیا، اُس کی مثال وہ خود ہے، امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے جو پالیسی اپنائی اور بنیاد رکھی، آج وہ اُس کا ثمر حاصل کر رہے ہیں، آج اسلامی ممالک اور پاکستان کو اس سے خوشی ہے، ہمیں دوسرے ممالک اور خاص طور پر اسلامی ممالک سے استفادہ کرنا چاہیے، کیونکہ ہمارا ملک اس وقت جس سطح پر ہے، اس میں اس بات پر زور دینا ہے کہ سیاسی لوگ اور جماعتیں سرجوڑ کر نتیجہ نکالیں کہ کس طرح وہ اس ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرسکتے ہیں اور ملک کی عوام خوشحال ہو۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
صبح روشن کی طلب ہے تو اُمید نو سے اُٹھ اقبال
کہ سوئے رہنے سے خوابوں کی تعبیریں نہیں ملتیں

ماہر تعلیم اور دانشور، پروفیسر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی نے خطاب میں کہا کہ سب سے پہلے تو انقلاب اسلامی کی 39 ویں سالگرہ کے موقع پر پوری ایرانی قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، انقلاب ایک تبدیلی کا نام ہے، لیکن ہر تبدیلی کو انقلاب نہیں کہا جاسکتا، دنیا کے مختلف خطوں میں بہت سارے انقلاب آئے ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اُن انقلابات کے اثرات خطے پر کیا مرتب ہوئے اور کتنی دیر تک رہے، اسی طرح جب ایران کا انقلاب آیا تو لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بھی باقیوں کی طرح ایک عارضی تبدیلی ہے، یہ لوگ حکمرانی نہیں کرسکیں گے اور اسے نہیں چلا سکیں گے، لیکن آج اُس انقلاب کو چالیس سال ہونے کو ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ یہ انقلاب مستحکم ہوتا جا رہا ہے، اس انقلاب کے ثمرات اور فوائد پوری دنیا تک پہنچ رہے ہیں، کسی بھی انقلاب کے پیچھے ایک اچھی اور بے لوث قیادت ہوتی ہے، آج انقلاب اگر باقی ہے تو اُنہوں نے امام خمینی اور اُن کے افکار کو باقی رکھا ہوا ہے۔
نہ تاج و تخت میں نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے

اسی مرد قلندر نے وہ انقلاب برپا کیا، جس کے اثرات آج ہم محسوس کر رہے ہیں، ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت قدیمی ہیں، قیام پاکستان سے قبل بھی تجارتی، ثقافتی اور علمی تعلقات قائم تھے، پاکستان بننے کے ساتھ ان تعلقات میں تبدیلی آئی اور یہ تعلقات گہرے ہوتے چلے گئے، آج دونوں ممالک کی دنیا کے مختلف فورمز پر یکساں شرکت موجود ہے، لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ ایران پاکستان کے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی ضرورت ہے، ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ بھی ابھی تکمیل پذیر نہیں ہوسکا، ایران نے اس منصوبے کو اپنی سرحدوں تک پہنچا دیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے ہماری حکومت بھی اسے جلد مکمل کرے، دونون ممالک کے درمیان مزید تعاون اور تعلقات کو پُختہ کرنے کی ضرورت ہے، دونوں ممالک اس خطے کی اور عالم اسلام کی ایک بڑی طاقت ہیں، مستقبل میں ہمیں اپنے اتحاد کے ذریعے دشمن کا مقابلہ کرنا ہے، آخری بات ہمیں کوئی بھی پُرانی چیز اچھی نہیں لگتی لیکن پُرانی دوستی اچھی ہوتی ہے۔

تقریب کے میزبان اسلام آباد سے تشریف لائے ہوئے ثقافتی قونصلر اسلامی جمہوریہ ایران (اسلام آباد) آقای شہاب الدین دارائی نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں آج کی اس تقریب کے سامعین اور مہانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ انقلاب اسلامی کی اس تقریب میں تشریف لائے، میں ایک ایرانی شہری اور نمائندہ ہونے کے ناطے آپ سب کا ممنوں ہوں، آج کے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے رہبر کبیر امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور تمام شہدائے انقلاب و اسلام پر سلام بھیجتا ہوں، رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی خدمت اقدس میں بھی سلام عرض کرتا ہوں کہ جن کی رہبری میں انقلاب اپنے سفر کو طے کر رہا ہے، انقلاب اسلامی ایک ایسے خطے اور ملک میں وقوع پذیر ہوا، جسے مغرب والے امن کے جزیرے کے طور پر متعارف کراتے ہیں، 1979ء میں اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کے بعد کمیونزم نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وہ ایک مثالی معاشرے کے قیام کے لئے ناکام رہے ہیں، شکست سے دوچار ہوچکے ہیں، انقلاب اسلامی ایران کا وقوع پذیر ہونا بھی اسلام کی حیات نو کا باعث بنا، آج دنیا کی تمام قومیں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ایران کی مسلمان قوم نے انقلاب اسلامی کے بعد دشمن کی تمام دھمکیوں اور پابندیوں کے باوجود اپنے اوپر اعتماد کیا، خود انحصاری پر توجہ دی اور اپنے ملک کے جوانوں کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے مقصد میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے، ایرانی قوم نے سائنس، ٹیکنالوجی، ثقافت اور علوم و فنون میں نئی راہیں تلاش کیں، شاندار کامیابیاں حاصل کیں، ٹیکنالوجی کے میدان میں ایٹمی سائنس اور میڈیکل کے شعبے میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ 2017ء میں ہم نے پاک ایران تعلقات کی سترہویں سالگرہ منائی، گذشتہ سال دونوں ممالک کے درمیاں اعلٰی سطحی وفود کا تبادلہ خیال رہا، ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی، ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد آئے، اسی طرح پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سینٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی، وزیر دفاع خواجہ آصف، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق ایران کے دورے پر تشریف لے گئے، لیکن جس طرح باقی مقررین نے کہا میں بھی یہی کہوں گا کہ ہم ان تعلقات میں مزید وسعت چاہتے ہیں، پاکستان کی خوشی ایران کی خوشی اور پاکستان کا دُکھ ہمارا دُکھ ہے۔ آخر میں تمام مہانوں اور سامعین کا شکر گزار ہوں۔پاک ایران دوستی زندہ باد

تقریب کے مہمان خصوصی سابق اسپیکر قومی اسمبلی و سابق وفاقی وزیر سید فخر امام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دو سو سالوں میں دنیا میں چار سے پانچ انقلاب وقوع پذیر ہوئے ہیں، انقلاب فرانس پچھلے دو سو سالوں میں سب سے بڑا انقلاب تھا، اس کے بعد روس کا انقلاب آیا، چین کا انقلاب آیا، لیکن آج جس انقلاب کی ہم 39 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں ایران کا انقلاب اس حوالے سے کافی مختلف تھا، کیونکہ اس کی بنیاد دین پر منحصر تھی، فرانس کا انقلاب اُس کی بادشاہت کے خلاف تھا، ایران کا انقلاب بھی ایک طرح سے بادشاہت کے خلاف تھا، لیکن اس کی بنیاد مذہب تھی، دیکھنا یہ ہے کہ اس انقلاب نے 39 سالوں میں کتنی ترقی کی ہے؟ آج دنیا میں 57 اسلامی ممالک ہیں اور باقی 137 ممالک غیر مسلم ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ آج ہم مسلم ممالک کہاں کھڑے ہیں اور باقی ممالک کہاں کھڑے ہیں،؟ اقتصادی طور پر ہم ابھی بہت پیچھے ہیں، ایران دنیا کے اُن چند ممالک میں ہے، جو اپنی خود مختاری پر فخر کرتا ہے، ایران نے جس طرح ترقی کی وہ قابل تعریف ہے، ضروری نہیں کہ ہم دولت کے لئے کسی کے سامنے جھک جائیں، ایران نے اپنی خود مختاری اور انقلاب کی سلامتی کے لئے بہت بڑی قربانیاں دیں، ایران آج دنیا میں تیل اور گیس کے ذخائر کے حوالے ممتاز حیثیت رکھتا ہے، امریکہ میں کیلی فورنیا کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے، جہاں بیس سال کے نوجوان کھربوں پتی ہیں، وہ کوئی نئی چیز ایجاد کرتے ہیں اور وہ چیز دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے، جب تک ہم اپنے ملک میں ادارے اور ذہن پیدا نہیں کرتے، ہم ترقی نہیں کرسکتے۔
سید فخر امام نے مزید کہا کہ ایران نے کامیابی کے لئے قربانی دی ہے، ہمیں بھی قربانی دینی پڑے گی، ہم آج تک اپنا بجٹ پورا نہیں کر پاتے، پاکستان کا پہلے انحصار امریکہ پر تھا، اب ہمارا انحصار چین کی طرف جا رہا ہے، حکمرانی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، جن میں دیانتداری، اہلیت اور عوامی ترجمان، عوامی کی رائے کا خیال رکھنا ہوتا ہے، دنیا تو اُس جانب گامزن ہوگئی ہے، لیکن کبھی کبھی لگتا ہے کہ پاکستان بھی اُس جانب جا رہا ہے، کبھی لگتا ہے ہم نہیں چلے۔

جیسا کہ آقائی دارائی نے کہا کہ پاک ایران دوستی میں کافی بہتری آئی ہے، میں بھی دیکھ رہا ہوں پچھلے آٹھ نو ماہ میں ایرانی صدر اور اسپیکر پارلیمنٹ جبکہ پاکستانی سینیٹ کے چیئرمین، آرمی چیف، وزیر دفاع اور اسپیکر قومی اسمبلی نے آپ کے ملک کا دورہ کیا۔ ہم نے کچھ عرصہ پہلے ایران کے ساتھ گیس کا معاہدہ کیا۔ اُنہوں نے لائن بچھا دی، لیکن ہم نے نہیں بنائی، کیوں نہیں بنائی؟۔ میرے پاس اس کا جواب تو ہے، لیکن میں آپ کو دینا نہیں چاہتا، یہ آپ کی اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم پر پریشر رہا، خود مختار ملک پریشر کی پرواہ نہیں کرتے، دوسرے ممالک دب جاتے ہیں اور معذرت کے ساتھ ہم بھی دب گئے، ہماری خواہش ہے کہ ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے حوالے سے پائپ لائن بھی مکمل ہو، ہم ایک آزاد اور خود مختار ملک بنیں، یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ صحیح معنوں میں قائداعظم محمد علی جناح کے جو فرمودات ہیں، اُن پر ہم گامزن ہوں گے، جیسے ایرانی قوم نے اپنے لیڈر امام خمینی کے خیالات اور فرمودات کی پاسداری کی ہے، بس ایرانی قوم اور پاکستانی قوم میں فرق یہ ہے کہ ہم قائد کو بھول گئے اور وہ آج بھی امام خمینی کے فرمان پر عمل پیرا ہیں۔
تقریب کے آخر میں ڈائریکٹر خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران ملتان خانم سیدہ زاہدہ بخاری نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ مسلسل کئی سالوں سے نظامت کے فرائض انجام دینے والے معرف شاعر، ادیب اور نقاد شاکر حسین شاکر کو خصوصی تحفہ پیش کیا گیا، ثقافتی قونصلر آقائی شہاب الدین دارائی کی جانب سے شاکر حسین شاکر کیلئے اہلیہ سمیت ایران کے وزٹ کا اعلان بھی کیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 704648
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش