0
Saturday 17 Mar 2018 21:14

کرم ایجنسی کو 2 کی بجائے ایک حلقہ کیوں دیا گیا

کرم ایجنسی کو 2 کی بجائے ایک حلقہ کیوں دیا گیا
تحریر: روح اللہ طوری

وطن عزیز میں آٹھویں مردم شماری کے نتائج کے ضمن میں ملک بھر میں حلقوں کی نئی ایڈجسٹمنٹ ہوگئی۔ یوں بعض اضلاع میں حلقوں میں کمی جبکہ بعض میں اضافہ کیا گیا۔ چنانچہ اسی تناظر میں فاٹا میں بھی حلقوں میں تبدیلی عمل میں لائی گئی۔ نتیجتاً کرم ایجنسی کے دو حلقوں این اے 37 اور این اے 38 میں سے موخر الذکر کو ختم کرکے دونوں کو ایک کر دینے کا باقاعدہ نوٹیفیکشن جاری کیا جا چکا ہے اور یوں نئی ایڈجسٹمنٹ کے تحت اس حلقے کو این اے 46 قرار دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں دو ماہ قبل یعنی 22 جنوری کو مرکزی امام بارگاہ پاراچنار جبکہ اس سے تین دن قبل لوئر کرم کے علاقے مندوری میں، حلقہ این اے 38 سے سابق ایم این اے منیر خان اورکزئی کے گھر میں قومی سطح پر اجلاس منعقد کئے گئے۔ جس میں مشران اور عمائدین نے اپنی رائے پیش کی اور این اے 38 کے خاتمے پر تشویش ظاہر کرنے کے علاوہ اسکے خلاف قانونی جنگ لڑنے کا عندیہ ظاہر کیا گیا تھا۔ عوام الناس کو اس حوالے سے شاید ہی کوئی علم ہو کہ بعض اضلاع میں صرف ایک ہی حلقہ یعنی قومی اسمبلی کی ایک ہی سیٹ ہوتی ہے، جبکہ بعض دوسرے اضلاع میں ایک کی بجائے دو یا تین یہاں تک کہ 10 تک پہنچ جاتی ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ کیا ہے۔ کیا اسکے لئے ایک مخصوص قانون وضع کیا گیا ہے یا یہ سب کچھ حکمرانوں کی مرضی پر منحصر ہے۔ ذیل کی سطور میں اسی کا مختصر سا تجزیہ اور تحلیل کر دیتے ہیں۔

2002ء سے قبل قومی اسمبلی کی مسلم اور غیر مسلم نشستوں کی کل تعداد 217 مقرر تھی، تاہم 1998ء کی مردم شماری کے ضمن میں 2002ء میں صدر پاکستان پرویز مشرف نے قومی اسمبلی کی نشستوں میں پچاس فیصد کا اضافہ کیا اور الیکشن 2002ء کے لئے ایک قاعدہ مقرر کیا، چنانچہ سابقہ روایات کے تحت ہر ضلع کے لئے کم از کم ایک سیٹ کو لازم قرار دیا گیا۔ تاہم کسی بھی 5 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ضلع کے لئے دو، جبکہ 10 لاکھ سے زیادہ کے لئے تین سیٹوں کی منظوری دی گئی۔ چنانچہ ایک نشست کے لئے ضلع یا پانچ لاکھ کی آبادی کو بنیاد قرار دیا گیا۔ اسی تناظر میں فاٹا میں قومی اسمبلی کی 8 نشستوں میں بھی 50 فیصد کا اضافہ کرکے 12 کر دیا گیا اور آبادی کی بنیاد پر ان چار ایجنسیوں کو دوسری نشست دی گئی، جن کی آبادی 5 لاکھ سے زیادہ تھی۔ یوں کرم ایجنسی کو بھی ایک اضافی سیٹ دی گئی۔ اس اضافی نشست بلکہ انعام پر بھی بعض ناسمجھ اور مفاد پرست عناصر کو اعتراض تھا۔ جسکا ذکر آگے آکر کیا جا رہا ہے۔ اسکے علاوہ دوسری نشست کے ساتھ ہی حلقوں کی حدود بندی کا مسئلہ پیدا ہوگیا اور جب حلقہ بندی ہوگئی تو نصف ایف آر (موجودہ سنٹرل کرم) کو اپر کرم کے ساتھ، جبکہ باقی نصف ایف آر کو لوئر کرم کے ساتھ شامل کیا گیا۔ اس حد بندی کے تحت دونوں حلقوں میں طوری بنگش قبائل کو دو مسئلے درپیش تھے۔ پہلا یہ کہ چند ہزار نفوس کی کمی کے ساتھ دونوں حلقوں میں وہ اقلیت میں تھے، جبکہ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ایف آر کے آزادانہ کلاشنکوف کلچر نیز پہاڑی اور دشوار گزار جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے انتخابات کے دوران الیکشن ایجنٹس کی عدم رسائی اور دھاندلی کے امکانات کے باعث دونوں حلقوں میں انکی شکست کے امکانات نہ صرف زیادہ بلکہ روشن تھے۔

اس حوالے سے ریٹائرڈ منیجر محمد حبیب کا کہنا ہے کہ 1996ء کے انتخابات میں میری ڈیوٹی بطور پریزائڈنگ آفیسر کے، ایف آر میں لگا دی گئی تھی۔ واپسی پر بندہ نے بذات خود دیکھا کہ ایک مقام پر ہزاروں کی تعداد میں بیلیٹ پیپرز پڑے ہیں، تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ پریزائڈنگ کی کسی اطلاع اور منظوری و اجازت کے بغیر اتنی بڑی تعداد میں بیلیٹ پیپرز کا ایسے بکھرے پڑے رہنا کیسے ممکن ہے۔ لیکن بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ خومسہ کے مقام پر تمام بند بکسوں کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ بیلیٹ پیپرز سے بھر دیا گیا اور اپنی مرضی کے امیدوار کو جتوایا گیا۔
چنانچہ اس خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ ڈاکٹر سید محمد جواد ہادی نے اس وقت ایک ٹیم تشکیل دی اور خود اپنے نام، نیز شبیر حسین ساجدی اور محمد حسین کے نام کے ساتھ ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا۔ کیس میں مالی طور پر جواد ہادی کے علاوہ مرکزی انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، نیز کئی پیشیوں کے دوران افراد بھی بھیجے گئے۔ یوں تقریباً 10 ماہ کی مدت میں عدالت میں کیس جیت کر نئی حلقہ بندی کچھ اس طرح ہوئی کہ اپر کرم اور لوئر کرم کے اکثر علاقوں کو حلقہ این اے 37 جبکہ سابقہ ایف آر (موجودہ سنٹرل کرم) اور لوئر کرم کے چند علاقوں کو این اے 38 قرار دیا گیا۔ اسی حلقہ بندی کے تحت 2003ء، 2008ء اور 2013ء میں تین مرتبہ الیکشن لڑے گئے۔ مقامی الیکشن کمشن آفس کے مطابق 1998ء میں ایجنسی کی کل آبادی تقریبا 5 لاکھ بیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور اسی بیس ہزار نے کام دکھا کر ہمیں الگ حلقہ دلایا۔ مگر 19 سال بعد 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کرم ایجنسی کی کل آبادی 6 لاکھ 19 ہزار 553 ہوچکی ہے۔ ان میں سے اپر کرم کی آبادی 253478 لوئر کرم کی کل آبادی 136719 جبکہ سنٹرل کرم کی آبادی 229356 افراد پر مشتمل ہے، جبکہ ووٹروں کی رجسٹریشن ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔

تاہم اپریل یا مئی تک نئی ووٹر لسٹ تیار ہو جائیں گی تو ووٹوں کی تعداد بھی سامنے آجائے گی، جبکہ سولہ سترہ سال بعد نئی مردم شماری کے تناظر میں نئے حلقوں کی ترتیب میں فاٹا کے لئے جو اصول وضع کیا گیا ہے، اسکی رو سے 6 لاکھ 25 ہزار نفوس پر دوسری نشست دی جاتی ہے، جبکہ مقررہ ہدف سے ہماری تعداد 5953 کم ہے۔ اسی وجہ سے ہم سے دوسری نشست چھین کر باجوڑ ایجنسی کے حوالے کی گئی۔ جنکی آبادی 10 لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ اس مسئلہ پر اگر غور کیا جائے تو اصل مسئلہ کچھ یوں ہے کہ ہماری آبادی کے مقابلے میں باجوڑ یا کسی بھی دوسرے حلقے یا علاقے کی آبادی میں اتنا غیر معمولی اضافہ کیوں سامنے آچکا ہے، باالفاظ دیگر ہماری آبادی میں اس تناسب سے اضافہ کیوں نہیں ہوسکا ہے۔ مشاہدین و قارئین گرامی! اسکا اصل سبب یہ ہے کہ 2007ء کے بعد تمام ایجنسیوں کی طرح کرم ایجنسی میں بھی طالبان کے غلبے کی وجہ سے یہاں کے حالات جب خراب ہوئے اور مقامی اقوام کے تصادم نیز فورسز کی جانب سے گرینڈ آپریشن کے نتیجے میں کرم ایجنسی کے اکثر علاقے متاثر ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ اسی نقل مکانی کے نتیجے میں آبادی میں اضافے کی بجائے لاکھوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی، جبکہ مردم شماری کے دوران نومیریٹرز کو یہ ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ نقل مکانی کرنے والے، ملک یا علاقے سے باہر رہنے والے افراد کو مردم شماری میں شامل نہ کیا جائے، جبکہ شماریات کے مجاز آفیسرز نے انہی کی ہدایات کی روشنی میں بالکل شفاف مردم شماری کی، جسکی وجہ سے پاکستان بھر میں صرف کرم ایجنسی ہی ایسا علاقہ سامنے آیا، جسکی آبادی کا تناسب دیگر علاقوں کے مقابلے میں غیر معمولی کم تھا۔ اگر آج بھی اس بات کی اجازت دی جائے اور مہاجر اور بیرون ملک میں ساکن لوگوں کو شامل کیا جائے تو ہماری آبادی تقریباً 8 لاکھ یا اس سے بھی کچھ بڑھ جائے گی اور پھر یہ حلقہ آسانی کے ساتھ دو نشستوں کا حقدار ٹھہرے گا۔
خبر کا کوڈ : 712092
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش