0
Sunday 25 Mar 2018 14:58

سپر پاور کے شہری عدم تحفظ کا شکار، عوامی مظاہرے اور احتجاج

سپر پاور کے شہری عدم تحفظ کا شکار، عوامی مظاہرے اور احتجاج
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

امریکی تہذیب کا کھوکھلا پن عیاں سے عیاں تر ہوتا جا رہا ہے، جہاں جنسی درندگی کے واقعات معمول ہیں اور ایک عرصے سے اسکولوں میں پڑھنے والے بچے غیر محفوظ ہیں۔ چند روز قبل امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک چھوٹے سے قصبے پارک لینڈ میں واقع ہائی سکول میں 19 سالہ طالب علم نکولس کروز (Nicolas Cruz) نے آٹومیٹک گن سے اپنے 17 دیگر طالب علموں کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔ اجتماعی ہلاکتوں (mass shooting) کی یہ لرزہ خیز واردات ماضی میں اس نوعیت کی پیش آنے والی وارداتوں میں بدترین شمار کی جارہی ہے۔ دسمبر 2012ء میں امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے ایک پرائمری سکول میں فائرنگ سے 20 بچوں سمیت ستائیس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ یہ واقعہ نیو ٹاؤن نامی قصبے کے سینڈی ہک سکول میں پیش آیا تھا جہاں زیرِ تعلیم بچوں کی عمریں پانچ سے دس برس کے درمیان تھیں۔ اسوقت کے امریکی صدر براک اوباما نے ایک پریس کانفرنس میں پُرنم آنکھوں سے کہا کہ اس وقت ہمارے دل ٹوٹے ہوئے ہیں، ہم پہلے بھی متعدد مرتبہ اس طرح کے واقعات دیکھ چکے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس بارے میں ٹھوس اقدام کریں۔ اسی طرح اکتوبر 2014ء میں امریکہ کی ریاست واشنگٹن میں ایک طالب علم نے سکول کے کیفے ٹیریا میں فائرنگ کر کے ایک شخص کو ہلاک اور چار کو زخمی کرنے کے بعد خودکشی کر لی۔

حکام نے تصدیق کی ہے کہ جس ہتھیار سے فائرنگ کی گئی ہے وہ قانونی طریقے سے خریدا گیا تھا۔ امریکہ میں اس نوعیت کی فائرنگ کے واقعات متعدد بار پیش آ چکے ہیں اور اس کے بعد ملک میں بندوق رکھنے کے قانونی حق پر سوالات اٹھائے گئے ہیں لیکن یہ سلسلہ تھما نہیں۔ ستمبر 2016ء میں امریکی ریاست جنوبی کیرولائنا میں ایک پرائمری سکول میں فائرنگ کے واقعے میں دو بچے اور ایک استاد زخمی ہوگئے۔ بعد ازاں اپریل 2017ء کو ریاست کیلیفورنیا کے ایک پرائمری سکول میں مشتبہ قتل اور خودکشی کے واقعے میں کم سے کم دو افراد ہلاک ہو گئے۔ دسمبر 2015ء میں سان برنارڈینو میں ہی ایک حملہ آور نے معذور افراد کے ایک سروس سنٹر میں گھس کر اندھا دھند گولیاں چلائی تھیں۔ اس واقعہ میں 14 افراد ہلاک اور 21 دیگر زخمی ہو گئے تھے۔حال ہی میں فروری 2018ء میں ریاست فلوریڈا کے شہر پارک لینڈ میں ایک ہائی سکول میں فائرنگ کے واقعے میں کم از کم 17 افراد ہلاک ہوگئے، پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا۔ ملزم نے فائرنگ کرنے سے پہلے فائر الام بجایا جس سے افراتفری پیدا ہوئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے بعض اوقات کہ اسکولوں کے بچوں کو فائرنگ کا نشانہ بنانے والے افراد سوچ سمجھ کر ایک منصوبہ بندی سے تشدد کرتے ہیں۔ کیونکہ فلوریڈا میں فائرنگ کرنیوالے نکلولوس کروز نے ایک رائفل استعمال کیا اور اس کے پاس لاتعداد میگزینز تھے، اس نے سکول کے باہر سے فائرنگ کرنا شروع کی، جہاں تین افراد ہلاک ہوئے، اس کے بعد وہ عمارت میں داخل ہوا اور مزید 12 افراد کو ہلاک کیا۔

اس واقعہ میں بحٖفاظت باہر آنے والے ایک طالب علم کے مطابق اسکول کے طلبہ سمجھے تھے کہ یہ کوئی مشق ہورہی ہے، آج صبح ہی ایک مشق ہوئی تھی جب ہم نے گولیوں کی آواز سنی، کچھ طالب علموں نے سوچا کہ یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں۔ ایوری ٹاون فار گن سیفٹی کے مطابق یہ حملہ رواں سال کسی سکول یا اس کے قریب ہونے والا 18واں واقعہ تھا، مجموعی طور پر 2013ء سے اب تک امریکہ میں 291 ایسے واقعات پیش آچکے ہیں۔ ان واقعات کے بعد امریکہ کے طول و عرض میں لاکھوں مظاہرین سڑکوں پر آ کر اسلحے پر زیادہ سخت کنٹرول کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ اس تحریک کا نام اپنی زندگیوں کے لئے مارچ رکھا گیا ہے اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب گذشتہ ماہ فلوریڈا کے شہر پارک لینڈ کے ایک سکول میں فائرنگ کے واقعے میں 17 افراد مارے گئے تھے۔ پارک لینڈ کے حملے میں بچ جانے والی طالبہ ایما گونزالس نے واشنگٹن ڈی سی میں اس بارے میں ایک طاقتور تقریر کی۔ مقتولین کے نام گنوانے کے بعد وہ چھ منٹ، 20 سیکنڈ تک خاموش رہیں۔ یہ وہ وقت تھا، جس کے دوران قاتل گولیاں برساتا رہا تھا۔ ملک بھر میں 800 کے قریب ایسے ہی احتجاجی مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جب کہ لندن، جنیوا، سڈنی، ٹوکیو اور ایڈنبرا میں بھی اظہارِ یکجہتی کی خاطر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ امریکہ کے مشرقی حصوں میں ہونے والے مظاہروں کے بعد اب مغربی ساحل پر احتجاجی جلوس اور جلسے منعقد کئے جا رہے ہیں اور لاس اینجلس میں ایک بڑا مظاہرہ ہوا ہے۔ نیویارک سے لے کر الاسکا تک چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں جلوس نکالے گئے ہیں۔

دارالحکومت کے پینسلوینیا ایوینو میں ہونے والے جلسے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جن میں بچے اور نوجوان زیادہ تھے۔ انھوں نے جو پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے ان پر لکھا تھا، اسلحہ نہیں، بچوں کو بچاؤ اور کیا اب میری باری ہے؟ آریانا گرینڈ، مائلی سائرس اور لن مینوئل میرانڈا جیسے مقبول گلوکاروں نے امریکی کانگریس کی عمارت کے باہر گیت گائے۔ بیچ بیچ میں تقریریں بھی ہوتی رہیں۔ طلبہ نے پرجوش انداز میں لوگوں سے خطاب کیا۔ پارک لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک مقرر ڈیلنی ٹار نے کہا کہ ہم اپنے مردہ ساتھیوں کے لئے لڑتے رہیں گے۔ ایک تقریر 11 سالہ نیومی والڈر نے کی، جن کا تعلق ریاست ورجینیا سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سیاہ فام امریکیوں کی نمائندگی کر رہی ہیں جن کی آوازیں ہر قومی اخبار کے صفحۂ اول تک نہیں پہنچ پاتیں۔ 14 فروری کو پارک لینڈ کے سٹون مین ڈگلس ہائی سکول میں ہونے والا فائرنگ کا واقعہ امریکی سکولوں میں ہونے والے حملوں کے لمبے سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ اس کے بعد وہاں احتجاجی جلوس منعقد کئے گئے جن میں سب سے بڑھ کر گونزالس نے حصہ لیا۔ یہ تحریک سوشل میڈیا تک بھی پہنچ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے گونزالس کے ٹوئٹر فالوورز کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی۔ بعد میں اس تحریک میں دوسرے حملوں سے متاثرہ طلبہ اور دوسرے لوگ بھی آ کر شریک ہونے لگے۔

اس ماہ کے شروع میں انہوں نے ملک بھر میں سکولوں سے واک آؤٹ کا اہتمام کیا تھا۔ ان کا مقصد امریکی سیاست دانوں کو قائل کرنا ہے کہ وہ اسلحے اور خاص طور پر خودکار اسلحے پر پابندی کی اقدامات کریں۔ ہفتے کو ہونے والے ان مظاہروں میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا ہے تاہم اسلحے کا معاملہ امریکہ میں ہمیشہ کی طرح اب بھی متنازع ہے۔ امریکی آئین اسلحہ رکھنے کے حق کا تحفظ کرتا ہے اور اس حق کا حامی ادارہ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن انتہائی بااثر ہے۔ ہفتے کی سہ پہر وائٹ ہاؤس نے ایک بیان جاری کیا جس میں ان نوجوان امریکیوں کی تعریف کی گئی تھی، تاہم مظاہرین کو اس پر مایوسی ہوئی ہے کہ صدر ٹرمپ نے اس بارے میں کوئی ٹویٹ نہیں کی۔ اجتماعی ہلاکتوں کے واقعات امریکہ میں معمول بن گئے ہیں، گذشتہ سال اکتوبر میں ایک شخص نے ہوٹل کی انیسویں منزل سے ایک کنسرٹ میں شریک مجمع پر اندھا دھند فائرنگ کرکے 58 افراد کو ہلاک اور 851 کو زخمی کر دیا۔ پولیس اور تحقیقاتی ادارے اس بات کو جاننے سے ابھی تک قاصر ہیں کہ کیوں کر اس شخص نے اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ اس ہوٹل میں کئی دنوں سے مقیم تھا اور آزادی کیساتھ بڑی مقدار میں اسلحہ لیکر آتا رہا جس کا کسی کو علم نہیں ہوا۔ اس نے اپنے کمرے کو ایک مورچے میں تبدیل کر دیا تھا جہاں نشانہ لینے کیلئے اس کے پاس دوربینیں بھی موجود تھیں۔ اس نے پندرہ منٹ فائرنگ کی اور خود اس سلسلے کو روک دیا۔ پولیس اس کے کمرے میں ایک گھنٹے کے بعد پہنچی جب تک اس نے خود کو بھی ہلاک کر لیا تھا۔

امریکہ میں تشدد کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ صرف اس نئے سال میں اب تک 6746 تشدد کے واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں 1863 افراد ہلاک اور 3216 زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں 17 سال کی عمر تک کے 400 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔ مزید براں ان میں 30 واقعات اجتماعی ہلاکتوں کے تھے جس میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ 2014-2017ء کے عرصے میں سوا دو لاکھ فائرنگ کے واقعات پیش آئے ہیں، جن میں 56755 لوگ ہلاک اور 111855 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ایک ہولناک صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک اس قدر گنز سے ہلاکتوں کا حامل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی جمع کردہ معلومات کے مطابق امریکہ میں گنز کے استعمال سے ہونے والی ہلاکتیں کینیڈا کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ اور جرمنی کے مقابلے میں سولہ گنا زیادہ ہیں۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ امریکہ کی کل آبادی دنیا کی آبادی کا صرف چار فیصد ہے لیکن دنیا کی وہ سویلین آبادی جو آتشیں ہتھیار رکھتی ہے اس کا پچاس فیصد (26.5 کڑوڑ) امریکہ میں ہے۔ اوسطاً امریکہ میں ہر روز کم از کم ایک اجتماعی ہلاکت کی واردات ہوتی ہے۔ قدرتی طور پر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ وہ کیا محرکات ہیں جو امریکی معاشرے میں تشدد کے اس رجحان کا باعث بن رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 713770
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش