0
Saturday 31 Mar 2018 01:24

بے داغ سیاست کا حاکم کون؟

بے داغ سیاست کا حاکم کون؟
تحریر: عظمت علی
Rascov205@gmail.com

جس طرح ایک قافلہ کے لئے قافلہ سالار کا ہونا ضروری ہے۔ اس طرح سماج و معاشرہ میں نظم و نسق باقی رکھنے کی خاطر ایک حکومت کی تشکیل اور روشن خیال و بابصیرت شخص کا حاکم ہونا لازمی ہے، تاکہ وہ عوام کے درمیان عدل و انصاف کو رائج کرسکے اور ان کی ضروریات زندگی کو پورا کرسکے۔ افلاطون (348۔428 ق،م ) قدیم یونان کے تین اکابر فلسفیوں میں سے ایک تھا۔ ریاست میں اس کا نظریہ یہ تھا کہ جب فلسفی بادشاہت کا عہدہ سنبھالیں گے، تبھی ایک قابل قدر حکمراں وجود میں آسکتا ہے اور لوگ چین کی نیند اور سکون کی زندگی بسر کریں گے، ورنہ نہیں! جیسا کہ اس نے اپنی کتاب “Republic”(ریپبلک) طبع 380ق۔م میں تحریر کیا ہے:“Unless philosopher bear kingly rule or those who are now called king and princess become genuine and adequate philosophers there will be no respite from evil”جب تک فلاسفہ بادشاہت کا عہدہ نہ سنبھالیں یا جو لوگ آج بادشاہ اور شہزادے کہے جاتے ہیں، وہ واقعی فلسفی نہ ہو جائیں، اس وقت تک برائی سے نجات نہیں ملنے والی۔

اس ذکر شدہ نظریہ کے بعد کئی فلسفی بنے اور بہت سے بادشاہ فلسفی بنے، لیکن وہ بہتر حکمراں ثابت نہ ہوسکے، جیسے سنگاپور کا (Lee kuan yew) لی کیون تھا۔ اسی کے برخلاف پیٹر گرین (Peter Green) نے کہا:What happened was nothing happened …power it appeared ,could corrupt even philosopher (Time magazine May 13,1999)جو ہوا وہ یہ تھا کہ کچھ نہیں ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کہ اقتدار فلسفیوں کو بھی بگاڑ دیتا ہے۔ ایسے ہی کارل مارکس نے نظریہ پیش کیا کہ"تمام خرابیوں کی جڑ ملکیت کا اقتصادی نظام ہے۔ انفرادی ملکیت کے نظام میں ایک مالک ہوتا ہے تو دوسرا مملوک۔ اس بناء پر مالک مملوک کا استحصال کرتا ہے۔ اگر انفرادی نظام کو ختم کرکے "سب کی ملکیت" کا نظام قائم کر دیا جائے تو ہر قسم کے ظلم و جور کی جڑ کٹ جائے گی۔ اس کے بعد نہ کوئی مالک ہوگا اور نہ کوئی مملوک، پھر کون کس کا استحصال کرے گا؟" 1977ء میں روس میں انقلاب آیا اور مذکورہ نظریہ "سب کی ملکیت" کا نظام قائم ہوگیا، مگر بعد کے حالات نے اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ یہ نظریہ سب سے برا اور بدتر ہے۔

مذکورہ تمام تجرباتی زندگی میں غلط ثابت ہوئے، سچ تو یہ ہے کہ اقتدار و ملکیت کسی کو نہیں بگاڑتی بشرطیکہ کہ حاکم میں خود پسندی، نااہلی اور کج فکری جیسی فکری بیماریاں نہ پائی جاتی ہوں۔ یہ چیزیں کسی سے مخصوص نہیں بلکہ ہر انسان کی زندگی کے تمام تر شعبے میں کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ جب تک کہ انسان کے قلب میں اللہ کا ڈر اور خواہشات نفسانی کو مات دینے کی طاقت نہ ہو، وہ کبھی بھی ایک اچھا انسان نہیں بن سکتا، چہ برسد حاکم اور بادشاہ! دین اسلام میں حضرت رسول خدا کے بعد آج بھی اگر کوئی حکومتی نظام حضرت علی کی پیروی کرلے تو وہ کامیاب ترین حکومت شمار ہوگی۔ جیسا کہ کوفی عنان (kofi Annan) اقوام متحدہ کے ساتواں جنرل سکریٹری (7th Secretary General of the U.N.O)The caliph Ali Bin Abi Talib is considered the fairest governor who appeared during history (After the prophet Mohd.(p.b.u.h)).So ,we advise Arab countries to take Imam Ali bin Abi Talib (a.s) as an example in establishing a regime based on justice and democracy and encouraging knowledge.حضرت رسول خدا کے بعد تاریخ بشریت میں خلیفہ (اسلام) علی ابن ابی طالب سب سے بہترین حاکم تصور کئے جاتے ہیں۔ اس لئے میں عرب ممالک کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر عدل و انصاف و جمہوریت و تعلیمی بالیدگی پر مبنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ علی ابن ابی طالب کو اپنا نمونہ عمل قراردیں۔

حضرت علی کی چار برس نو ماہ کی حکومت میں عدل و انصاف کا بول بولا تھا۔ آپ نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا، جو لوگوں کی اذیت کا سبب بنا ہو بلکہ غریبوں، فقیروں اور مسکینوں کو راتوں رات ٖغذا فراہم کرنا آپ کا طرہ امیتاز تھا۔ آپ نے ایسی عادلانہ اور منصفانہ حکومت کی کہ اپنے ذاتی کاموں کے لئے بیت المال کا ذرہ برابر بھی استعمال نہیں کیا۔ اگر کوئی شخص حکومتی اوقات میں امور حکومت کے علاوہ کسی اور موضوع پر گفتگو کرتا تو آپ بیت المال کے چراغ بجھا دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی جو لباس اور سواری منصب خلافت سنبھالنے سے پہلے تھے، وہی دنیا کو الوداع کہنے کے بعد بھی رہے۔ امیر مملکت ہوتے ہوئے بھی عام سی زندگی گزارنا، محتاجوں کی حاجت روائی کرنا، بیت المال سے ذاتی مفاد کی خاطر دولت کا استعمال نہ کرنا اور انسانیت کے درد میں برابر کا شریک رہنا، لوہے کے چنے چبانا ہے۔ اس معیار پر وہی افراد کھرے اترتے ہیں، جن کے لئے عہدہ حصول دنیا کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کے تحفظ کے لئے ہو۔
خبر کا کوڈ : 714537
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش