1
Sunday 22 Apr 2018 13:13

سیرت امام زین العابدین علیہ السلام اور مشکلات کا حل

سیرت امام زین العابدین علیہ السلام اور مشکلات کا حل
تحریر: محمد اشرف ملک
malikashraf110@gmail.com

5 شعبان 38 ہجری تاریخ  ولادت 
امام زین العابدین کی ولادت باسعادت امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی شہادت سے دو سال پہلے 5 شعبان 38 ہجری کو مولا امام حسین(ع) کے گھر میں ہوتی ہے۔ والد امام حسین اور والدہ شہر بانو ہیں۔ امام حسن (ع) کی امامت کے دس سالہ زمانہ کو بھی دیکھتے ہیں۔ جب امام حسن کی شہادت ہوتی ہے تو اس وقت امام زین العابدین کی عمر مبارک تقریباً تیرہ سال ہے۔ دس سال اپنے والد بزرگوار امام حسین کی امامت میں رہتے ہیں اور 61 ہجری عصر عاشور کو مولا امام حسین کی شہادت کے بعد انتہائی سخت حالات میں آپ کی امامت کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔

امام زین العابدین کی اپنی امامت سے قبل کا زمانہ
امام زین العابدین کی ولادت ان ایام میں ہو رہی ہے، جب حضرت علی کی ظاہری حکومت کا زمانہ ہے، پہلی دفعہ خود مسلمانوں کے درمیان جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان کے معرکے ہوچکے ہیں کہ جن میں ہزارہا لوگ مارے جا چکے ہوئے۔ حتٰی چالیس ہجری میں امام علی کی شہادت ہو جاتی ہے۔ امام حسین اور امام حسن کے ساتھ ان دنوں میں امام زین العابدین اس طرح بچپن کا زمانہ گزار رہے ہیں جیسے خود امام حسن اور امام حسین نے پیغمبر اکرم اور امیرالمومنین کے ساتھ گزارا تھا، لیکن 3 یا 4 ہجری کے زمانہ اور 40 ہجری سے پچاس ہجری تک کے زمانہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت کی اسلامی ریاست کے سربراہ سید الانبیا تھے، اس وقت کی اسلامی حکومت کا سربراہ معاویہ ابن ابی سفیان ہے۔ اگر کوئی درک کرسکے تو جتنا فرق سید الانبیا اور معاویہ ابن سفیان میں ہے، اتنا ہی ان زمانوں کے اندر بھی ہے۔ اس سخت ترین اور اہلبیت کے لئے بدترین زمانہ میں امام زین العابدین نوجوانی کی بہاریں گزار رہے ہیں۔ امام زین العابدین حتٰی خود امام حسین بھی اس دور میں امام حسن کے تابع محض اور مطیع محض ہیں۔ جو معاہدہ، جو صلح امام ْحسن نے کی ہے، امام حسین اور امام زین العابدین بھی اسی کے پابند ہیں۔ جو ظلم، جو خیانت، جو انحراف واقع ہو رہا تھا، وہ   دوسری طرف سے تھا، لیکن ان تمام حالات کے اندر کوئی ایسا موقع نہیں ملتا کہ جس میں امام زین العابدین کا موقف امام حسن یا امام حسین کے علاوہ کوئی اور ہو۔ امام حسن کی شہادت سے لیکر عصر عاشور تک عین شباب اور جوانی کا زمانہ ہے۔ عصر عاشور کے وقت تقریباً تئیس سال عمر مبارک ہے، لیکن امام حسین اور ان کے تمام پروگرام میں ان کے مطیع محض ہیں۔

امام زین العابدین کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے آج کے نوجوان کو اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزارتے ہوئے اپنی قوتوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ اختلات و انتشار سے بچکر اپنی مرکزیت کو مضبوط کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ آج کا طالبعلم یا عالم دین ذرا عالم تصور میں اپنے آپ کو امام زین العابدین کے زمانہ میں لیکر جائے، آج کے زمانے کے ساتھ مقایسہ کرے  اور اپنی تکلیف کو خود مشخص کرے کہ مجھے اب کیا کرنا ہے اور میں کیا کرسکتا ہوں؟ آج کا زمانہ انقلاب اسلامی کے آنے کے بعد کا زمانہ ہے اور مقام معظم رہبری مدظلہ العالی کی رہبریت اور سرپرستی کا زمانہ ہے۔ اس میں اسلام کو سمجھنا سمجھانا بہت آسان ہے، لیکن سوال یہ ہے کیا ہم ان تمام سہولتوں اور امکانات کے ہوتے ہوئے اسلام ناب محمدی کو سمجھ کر اس کا پرچار کر رہے ہیں یا اپنی قوتوں اور استعدادوں کو تقسیم و منتشر کرکے اپنے آپ کو کمزور کر رہے ہیں۔ آج پوری دنیا کے نوجوانوں کے سامنے پھر حقائق کو چھپایا جا رہا ہے، انہیں منحرف کیا جا رہا ہے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم سب کو امام زین العابدین کے حالات  کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ جان سکیں کہ امام زین العابدین نے سخت ترین حالات  کا کیسا مقابلہ کیا ہے۔

 امام زین العابدین کا 61 ہجری کے بعد کا زمانہ
امام زین العابدین کا دور ایک سخت ترین دور ہے، ایسا زمانہ ہے کہ جس میں کھل کر کسی کی حمایت بھی نہیں کی جا سکتی، ظلم ترین افراد حاکم ہیں۔ ابن زیاد جو طاقت کے نشہ میں ہے۔ اہلبیت کو قتل کروا چکا ہے۔ امام زین العابدین کو قیدی بنا کر بیبیوں کے ساتھ شام روانہ کرتا ہے۔ امام شام پہچتے ہیں، وہاں کا ظالم تو ابن زیاد سے بھی بڑا ظالم ہے، لیکن ہر جگہ پر اگرچہ مصائب سخت سے سخت ہیں، لیکن امام سجاد ہر جگہ پر دین کی بقا کے لئے  کامیاب ہیں۔ البتہ اس سب کے لئے ایک خاص حکمت عملی کی ضرورت ہے اور جو حکمت عملی معصومین نے اپنائی ہیں، ان کو سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ اگر روایات اور حالات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ملتی ہے کہ امام حسن اور امام حسین نے جو منصوبہ بنایا تھا، اگر لوگ ساتھ دیتے تو  70 ہجری میں حکومت اہلبیت کے ہاتھ میں ہونی تھی اور اس کے سربراہ امام حسین نے ہونا تھا۔ لیکن حالات بدل گئے، لوگوں نے ساتھ نہ دیا بلکہ بہت سارے ماننے والے بھی امام کی حکمت کو نہ سمجھ سکے۔ شہادت امام حسین کے بعد خدا کے غضب نے لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور روایات مین ملتا ہے کہ جو حکومت 70 ہجری میں مل سکتی تھی، اللہ نے 70 سال اور اس کو یعنی 140 ہجری تک موخر کر دیا۔ یہ 140 ہجری امام جعفر صادق کی شہادت سے پہلے آٹھ سال کا زمانہ بنتا ہے۔ یہ 70 سال کا دور کہ جس کا سخت ترین زمانہ امام زین العابدین نے گزارا ہے، اسے بھی اور 140 ہجری تک کا زمانہ بھی، اسے دقت کے ساتھ مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

حکمت خداوند اپنی جگہ پر ہے، اس پر ایمان ہے، اس کے باوجود چونکہ ہم انسانی اختیار کے قائل ہیں، اس بنیاد پر امام حسن اور امام حسین کی کوششوں کے سبب کہ جن میں امام زین العابدین کی بھی کوششیں شامل ہیں، اگر چند ایک لوگ بھی معصومین کی حکمت کو سمجھ لیتے تو حالات کچھ اور ہوتے۔ لوگوں نے اپنی غفلت کی بنیاد پر حالات کو درک نہ کیا، اگرچہ اُس زمانے میں امام نے واقعاً ایسے حالات بنا دیئے تھے کہ جن کی بدولت حکومت ان کو مل سکتی تھی، لیکن مسلمان اپنے ارادہ و اختیار سے غفلت اور کوتاہی کا شکار ہوگئے۔ اس بنیاد پر  لوگ اللہ تعالٰی کے غضب کا دوبارہ مصداق بنے اور تاوقت نامعلوم معصوم کی حقیقی حکومت اور عدالت سے محروم ہیں۔ ان تمام زمانوں کے اندر لوگ آخرت کو بھلا کر دنیا داری کی طرف متوجہ ہوگئے تھے، خدا کی معرفت اور قدرت ان کے دلوں سے غائب ہوگئی تھی۔ جس کے ہاتھ میں حکومت ہوتی تھی، وہ صرف اور صرف اپنی قدرت کو باقی رکھنے کے بارے میں سوچتا تھا۔ اس کو باقی رکھنے کے لئے اسے جتنا بڑا ظلم ہی کیوں نہ کرنا پڑتا، وہ کیا کرتا تھا۔

مشکلات کا حل خدا کیساتھ محکم ارتباط
اس زمانے میں امام زین العابدین نے اپنی طرف سے جو حل امت کو دیا، آج بھی اسی طرح کی جو کیفیت بنی ہوئی ہے، اگر کوئی بھی قوم اپنے اختیار سے اس حل کو اپنائے تو ذلت اور خواری سے نجات حاصل کرسکتی ہے۔ وہ حل خدا کے ساتھ تعلق اور ارتباط مضبوط کرنا ہے۔ امام (ع) اپنی ان دعاوں میں انسان کو صرف زبانی نہیں بلکہ ایک عملی کورس کے ذریعے معرفت خداوندی کرواتے ہیں، محمد و آل محمد پر درود بھجواتے ہیں۔ عظمت آل محمد کو انہیں دعاوں کے ذریعے آشکار کرتے ہیں۔ انسان کی توجہ اللہ کے ملائکہ کی طرف کرا کر اسے مافوق الطبیعہ کی طرف لیکر جاتے ہیں۔ انسان کو ہر وقت خدا کی طرف متوجہ رہنے لے لئے صبح و شام کی دعائیں تلقین کرتے ہیں۔ انسان کو خداوند کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کا راہ سکھاتے ہیں، اللہ کی طرف پناہ لینے کا بتاتے ہیں۔ امام زین العابدین انسان کو دعا کے ذریعے سکھاتے ہیں کہ اخلاق درست کیا ہیں، البتہ اس حوالے سے بھی فرماتے ہیں کہ ان کے حصول کی بھی توفیق خدا سے مانگنی چاہیے۔ امام انسان کو بتاتے ہیں کہ تو نے اپنے والدین کے لئے کیسے دعا مانگنی ہے اور خود منگواتے ہیں۔ اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا تو کیا ان کے لئے دعا کا حکم دیتے ہیں۔ قرآن مجید کے ختم کرنے کے وقت کی دعا سکھاتے ہیں۔ ماہ رمضان کے استقبال اور وداع کی دعا یاد کرواتے ہیں۔ عید الفطر کے دن اور اسی طریقہ سے عید قربان کے دن خدا کو کیسے یاد کرنا ہے، انسان کو سکھاتے ہیں۔ قصہ مختصر کو 54 دعاوں کی صورت میں کہ جو اب صحیفہ سجادیہ کی صورت میں موجود ہیں، امام زین العابدین انسان کو صرف خدا ہی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ معاشرہ کے اندر ایک کامیاب اور مفید شہری بن کر رہنے کا بھی ان دعاون میں کورس کرواتے ہیں۔ آج 5 شعبان 1439 ہجری کو امام زین العابدین کی ولادت کے دن کی مناسبت سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو امام کی سیرت کو اپنانے اور صحیفہ سجادیہ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
خبر کا کوڈ : 719766
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش