0
Friday 20 May 2011 00:51

اب کے برس یوم النکبہ بہت مختلف تھا

اب کے برس یوم النکبہ بہت مختلف تھا
تحریر:ثاقب اکبر
15 مئی کو ہر سال فلسطینی”یوم النکبہ“ مناتے ہیں۔ اس کا معنی ہے حقوق کی پامالی اور ظلم و ستم کا دن۔ یہ دن 15 مئی 1948ء کے اس روز سیاہ کی مناسبت سے منایا جاتا ہے کہ جب فلسطینیوں کی سرزمین پر برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی مدد سے صہیونی ریاست قائم کی گئی۔ اس کے نتیجے میں سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کی خاک وطن سے محروم کرکے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا گیا۔ 500 فلسطینی دیہات کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ بعد میں یہ سلسلہ قائم رہا۔ آج فلسطین کے اصل وارثوں کی اکثریت تین نسلوں سے جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس دوران میں دنیا بھر سے یہودیوں کے مذہبی جذبات ابھار کر انھیں فلسطین میں لا کر آباد کیا گیا ہے۔ یہ یہودی دنیا کے تمام براعظموں سے اکٹھے کیے گئے ہیں۔ ان کے آباﺅ اجداد صدیوں پہلے ترک وطن کرکے مختلف ملکوں میں آباد ہوئے تھے۔
گذشتہ 63 برسوں میں فلسطینی نسلوں پر کیا گزری، اسے بیان کرنے کا محل ہے نہ حوصلہ، البتہ انھوں نے امید کا چراغ اپنے لہو سے جلائے رکھا۔ ہر سال یوم النکبہ اسی چراغ کی لَو بڑھانے کے لیے منایا جاتا ہے۔ آج جو فلسطینی اپنے ملک کے اندر ہیں وہ صہیونی فوجیوں کے محاصرے میں ہیں اور جو باہر ہیں وہ مختلف ملکوں میں مہاجر بن کر جی رہے ہیں۔ کئی ملین فلسطینی مصر، اردن، شام اور لبنان میں اس آس پر جیتے ہیں کہ ایک روز وہ اپنی مادر وطن کی آغوش میں لوٹ جائیں گے۔
ویسے تو یوم النکبہ ہر سال منایا جاتا ہے لیکن 15 مئی 2011ء کا یوم النکبہ بہت مختلف تھا، بہت ہی مختلف۔ آج عالم عرب انقلابی لہر سے گزر رہا ہے۔ مختلف سرحدوں میں مقید ہونے کے باوجود تمام ممالک میں انقلاب کی ایک سی لہر محسوس ہوتی ہے۔ مصر نے نئی کروٹ لی ہے۔ اسرائیلی مقاصد کی تکمیل کرنے والا حسنی مبارک اپنے چالیس سالہ منحوس دور کے عقاب سے گزر رہا ہے۔ حسنی مبارک نے فلسطینیوں میں پھوٹ ڈالنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ حماس اور پی ایل او کے مابین آویزش کو بڑھاوا دینے میں اس نے اسرائیلی مقاصد واحکام کی بجا آوری کی تھی۔ صہیونی فوجیوں نے غزہ کا محاصرہ کیا تو محصور فلسطینیوں کا ایک راستہ مصر کی طرف کھلتا تھا۔ حسنی مبارک نے وہ بھی بند کر دیا۔ اس طرح غزہ کے باسیوں کے لیے خوراک اور دوائیوں کی ترسیل بھی رُک گئی۔ 
نئی مصری حکومت اگرچہ عبوری ہے لیکن اچھی طرح جانتی ہے کہ مصر کے انقلاب کی ایک اہم وجہ حسنی مبارک کی فلسطینیوں کے بارے میں ظالمانہ پالیسی تھی۔ یوم النکبہ سے قبل ہی اس نے ترکی کے تعاون سے پی ایل او اور حماس کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کروایا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں بچھڑے ہوئے بھائی پھر مل گئے۔ انھوں نے مل کر عبوری فلسطینی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ معاہدے پر پی ایل او کی طرف سے محمود عباس اور حماس کے قائد خالد مشعل نے دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے پر اسرائیلی وزیراعظم بہت سیخ پا ہوئے ہیں۔ انھوں نے پی ایل او سے کہا ہے کہ یا ہمارے ساتھ تعلقات رکھو یا حماس کے ساتھ، دونوں سے ایک ساتھ تعلقات نہیں رہ سکتے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری سے رابطہ کر کے دونوں فلسطینی جماعتوں کے اتحاد پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
عالم عرب میں انقلابی قوتوں کی اٹھان نے فلسطینی عوام اور قیادت کو نئے حوصلے اور امید سے آشنا کیا ہے۔ عرب عوام اپنے حکمرانوں کی اسرائیل اور امریکہ نوازی سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ امریکی غلامی کا جوا اتار پھینکنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال سے ایک طرف اسرائیل علاقے میں تنہائی کے احساس میں مبتلا ہو رہا ہے اور دوسری طرف فلسطینیوں کو اپنی آزادی کا دن نزدیک دکھائی دینے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یوم النکبہ پر تیسرے انتفاضہ کے آغاز کا اعلان کیا۔ اس اعلان نے اسرائیلی قیادت کو سراسیمہ کر دیا۔ اس نے یوم النکبہ کے متوقع مظاہروں کو روکنے کے لیے سخت ترین سیکورٹی انتظامات کیے۔ مسجد اقصٰی میں 45 سال سے کم عمر فلسطینیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ اتنا ہی نہیں یہ شرط بھی عائد کر دی کہ وہی عرب مسجد اقصی میں داخل ہو سکے گا جس کے پاس اسرائیلی شناختی کارڈ ہو گا۔ اس کے باوجود بیت المقدس، رام اللہ، مغربی کنارہ، غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں یوم النکبہ پر بے مثال مظاہرے ہوئے۔
اسرائیل اس خبر نے بھی وحشت زدہ تھا کہ مصر، اردن، شام اور لبنان میں آباد فلسطینیوں نے یوم النکبہ پر اسرائیلی بارڈرز کی طرف مارچ کا اعلان بھی کر رکھا تھا۔ یہ اعلان بھی آزادی  فلسطین کی جدوجہد کی تاریخ میں منفرد تھا۔ لاکھوں فلسطینیوں نے اعلان کے مطابق اس روز اسرائیلی سرحدوں کی طرف مارچ کیا۔ جنوبی لبنان کے مظاہرین پر اسرائیلیوں نے وحشیانہ فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں دس افراد شہید ہوئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔ فلسطین کے اندر بھی مظاہرین پر اسرائیلی فوجیوں کے وحشیانہ سلوک کے نتیجے میں بہت سے فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔ مختلف ذرائع سے سامنے آنے والے اعداد وشمار کے مطابق یوم النکبہ پر اسرائیلی فوجیوں نے 25 سے زائد فلسطینی شہید کیے اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا۔ اسرائیلی فوجیوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر کے مختلف اسرائیلی عقوبت خانوں میں ٹھونس دیا ہے۔
 نہتے مظاہرین کے ساتھ اس سلوک سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی اپنے مستقبل کے بارے میں بہت وحشت زدہ ہو چکے ہیں اور وہ ہر طرح کے تشدد کے ذریعے فلسطینی سرزمین پر زبردستی مسلط کی گئی اپنی ریاست کی بقا کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں۔ انھیں نظر آ رہا ہے کہ اگر عرب دنیا میں انقلابات کے ذریعے ایسی حکومتیں برسراقتدار آ گئیں جو عرب عوام کی امنگوں کی ترجمان ہوں تو اسرائیل کسی صورت قائم نہیں رہ سکتا۔ امریکہ اور برطانیہ ہزاروں میل دور سے اس کے لیے کچھ نہیں کر سکیں گے۔
اس سال یوم النکبہ پر ویسے تو دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے ہیں جن میں امریکہ اور یورپی ممالک کے کئی ایک مظاہرے قابل ذکر ہیں لیکن قاہرہ، عمان، دمشق اور بیروت کے مظاہرے غیرمعمولی تھے۔ قاہرہ کے میدانِ آزادی (میدان التحریر) میں ہزاروں مصری فلسطینی اور مصری پرچم لہرا رہے تھے اور اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ اسرائیلی سفیر کو قاہرہ سے نکال باہر کرے۔ وہ غزہ کے ساتھ مصری سرحد کھولنے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔ عوام کے اس جوش و خروش کا نتیجہ ہے کہ مصر کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ کے ساتھ مصری سرحد کھولنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے اس پر بھی احتجاج کیا ہے۔
ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر یوم النکبہ پر ہونے والا مظاہرہ بھی ایک مختلف اور بدلے ہوئے ترکی کی حکایت کر رہا تھا۔ مظاہرین اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں۔ انقرہ جو ایک جدید شہر ہے اس میں اس طرح کا مظاہرہ عالمی مبصرین کے لیے حیران کن ہے۔ دوسری طرف ترکی کی حکومت نے مختلف فلسطینی گروپس کو قریب لانے اور متحدہ حکومت کے قیام پر انھیں راضی کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ جہاں فلسطینیوں کے لیے تقویت کا باعث ہے، وہاں اسرائیل کے لیے پریشان کن بھی ہے۔ اسرائیل اور ترکی کے مابین دن بدن فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔
ترکی اور اسرائیل کے مابین فاصلے پیدا ہونے کا آغاز اُس وقت ہوا جب 2008ء میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد رجب طیب اردگان کی زیر قیادت ترک حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اس پر سخت احتجاج کیا۔ ترکی کا احتجاج یہیں نہیں رکا بلکہ اس حملے کے فوری بعد ڈاﺅس عالمی اقتصادی فورم میں ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دوٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈاﺅس فورم کے اجلاس کے کنوینر کی جانب سے انھیں وقت نہ دینے پر رجب طیب اردگان نے فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے۔ اس واقعے نے انھیں عرب اور عالم اسلام میں ہیرو بنا دیا اور ترکی پہنچنے پر فرزندان ترکی نے اپنے ہیرو کا نہایت شاندار استقبال کیا۔ اس کے بعد 31 مئی بروز پیر 2010ء کو محصور غزہ پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے آزادی کے بیڑے (فریڈم فلوٹیلا) پر اسرائیل کے حملے اور حملے میں 9 ترک شہریوں کی شہادت کے بعد پھر ایک بار عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھرے اور عوام سے لے کر حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے ترکی اور ترک رہنما رجب طیب اردگان کے کے فلسطینی مسئلے خاص طور پر غزہ پٹی کے حصار کے خاتمے کے لیے ٹھوس موقف کو سراہا۔
اس دوران میں مارچ 2009ء میں ایک اور اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ ترکی کے ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی خفیہ تنظیم ”موساد“ وزیراعظم طیب اردگان کے قتل کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ترک اخبارات میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ترکی میں سرگرم ایک خفیہ گروہ”ارگینکون“ سے وابستہ ایک ملزم کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ گروہ جسے ”موساد“ کی سرپرستی حاصل ہے نے اردوگان کے قتل کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پچیس مارچ کو استنبول کی ایک عدالت میں حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں گرفتار بعض تخریب کاروں کے مقدمے کی سماعت کی گئی۔ اس دوران میں پیش کی گئی حکومتی فائل میں انکشاف کیا گیا کہ صہیونی صحافیوں کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو اسرائیل نے ای میل کے ذریعے بتایا کہ موساد ان کے ساتھ تعاون پر تیار ہے۔ اس سلسلے میں موساد کے ایجنٹ وزیراعظم رجب طیب اردگان کے قتل کی بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق موساد کے ایجنٹوں نے ترکی کے دہشت گرد گروہ کے سرغنہ ”مسٹر ڈوگو“ سے رابطہ کر کے اسے رجب طیب اردگان کے قتل کے لیے تیار کیا۔
اس تمام صورت حال پر گہری نظر ڈالنے کے بعد آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام تبدیل ہو رہا ہے۔ ایران پہلے ہی اسرائیل کے خاتمے اور فلسطینی سرزمین پر فلسطینیوں کی منتخب اور نمائندہ حکومت کے نظریے کی کھلم کھلا حمایت اور وکالت کر رہا ہے۔ عراق کے حالات بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس صدام کا دور لد گیا جو دھمکیاں تو اسرائیل کو دیتا تھا اور حملہ ہمسایہ مسلمان ممالک پر کرتا تھا۔ امریکہ رواں سال میں معاہدے کے مطابق اپنی تمام افواج عراق سے نکالنے کا پابند ہے۔ عراق میں آج بھی عوام عرب انقلابیوں اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔
اس صورت حال نے فلسطینیوں کے اندر ایک نیا حوصلہ اور تحرک پیدا کر دیا ہے۔ انھیں اپنی آزادی کی منزل قریب نظر آ رہی ہے۔ فیس بک پر تیسرے انتفاضہ کی تائید کرنے والوں کی تعداد کئی ملین تک پہنچ چکی ہے جو ہر لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔ لہٰذا اس برس کا یوم النکبہ بہت مختلف رہا اور بڑے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ تیسرا انتفاضہ صہیونیوں کے ستم سے نجات کے لیے فلسطینیوں کا آخری انتفاضہ ہو گا۔ ان شاءاللہ۔
خبر کا کوڈ : 73102
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش