0
Monday 13 Aug 2018 15:38

پاراچنار، مرکزی امام بارگاہ کی قیادت کو کمزور کرنے کی کوشش (2)

پاراچنار، مرکزی امام بارگاہ کی قیادت کو کمزور کرنے کی کوشش (2)
رپورٹ: روح اللہ طوری

انہوں نے انکے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ اگلے دن جمعرات 9 اگست کو) 2 بجے تیار ہوکر انکے ساتھ چلا جائیں گے۔ بقول علمائے مذکورہ کہ، معاملے کا بوجھ ہلکا ہونے پر وہ رات کو تسلی سے سوگئے۔ مگر اگلے دن صبح نو بجے پتہ چلا کہ شاکری صاحب کی حمایت میں لوگ اکٹھے ہورہے ہیں۔ اور احتجاج اور نعرہ بازی کررہے ہیں۔ تو وہ پریشان ہوگئے۔ شاکری صاحب سے ملاقات کی کوشش کی، مگر ناکام رہے، بعد میں پتہ چلا کہ شرپسند انہیں اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ رات کو تو انہوں نے فیصلہ کیا ہی تھا، مگر اسے جب تسلیم نہیں کیا گیا۔ تو اسکے بعد انہوں نے مندرجہ ذیل تحریری فیصلہ بھی مرکزی انجمن کے حوالے کردیا۔ 

علمائے کرام کے فیصلے کا مکمل متن:
ہم مسمیان 1۔ محمد رمضان توقیر 2۔ اعجاز حسین حیدری 3۔ زاہد حسین زہدی: آقایان حجج الاسلام والمسلمین شیخ محسن علی نجفی وقائد ملت جعفریہ آقائ سید ساجد علی نقوی اور آیۃ اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے پاراچنار برائے حل اختلاف بین حجۃ الاسلام شیخ فدا حسین مظاہری امام جمعہ و مدیر مدرسہ جعفریہ پاراچنار و بین آقائ حجۃ الاسلام گلاب حسین شاکری گئے تھے۔ دونوں شخصیات اور دونوں طرف کے حامیان سے مسلسل و تفصیلاً تین دن تک ملاقاتیں کیں۔ مدرسہ کے مدرسین اور علاقہ کے عمائدین و بزرگان اور مختلف قبائل کے افراد سے ملاقاتیں کیں۔ بالآخر ہم تینوں اس نتیجے پر پہنچے کہ پاراچنار، مرکز اور مدرسے کی بہتری کیلئے مناسب ہے کہ آقائ گلاب حسین شاکری محترمانہ انداز میں مدرسہ سے فارغ ہوکر پاراچنار سے چلا جائیں۔ ہم نے اس سلسلے میں آقائ گلاب حسین شاکری سے متعدد نشستیں کیں اور انہیں بتایا کہ بحیثیت ایک روحانی دوست آپ کے لئے یہی مناسب اور باعزت طریقہ ہے کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ اس کے ساتھ طے پایا کہ کل بروز جمعرات بتاریخ 9 اگست 2018ء دو بجے بعد از ظہر یہاں سے روانہ ہونگے۔ موصوف نے خندہ پیشانی سے ہماری اس پیشکش کو قبول کیا، ہم نے سفر کے تمام انتظامات مکمل کروادیئے۔ اسلام آباد میں رہائش کا بندوبست کرایا۔ لیکن مذکورہ دن موصوف کے حامی افراد مسجد و امام بارگاہ اور مدرسہ میں نعرہ بازی کرتے ہوئے آئے اور غیر مناسب رویہ اپنایا، نیز موصوف کو اپنے ہمراہ نامعلوم مقام پر لے گئے۔ لہذا ہم تنیوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ جناب گلاب حسین شاکری نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا۔ بزرگوں کی عزت اور احترام کو پائمال کیا۔ موصوف کا نہ تو مدرسے میں رہنا سودمند ہے اور نہ پاراچنار کے حق میں ہے۔ موصوف پاراچنار میں اختلاف اور فساد کا موجب بنا ہوا ہے۔ لہذا موصوف پاراچنار چھوڑ کر چلا جائیں۔ (نیچے تنیوں علماء کے نام نمائندگی اور دستخط ثبت ہیں۔) 

مسجد، مدرسے اور امام بارگاہ پر حملہ:
صبح 10 بجے ممتاز بھائی، حاجی ہاشم علی وغیرہ اپنے ساتھیوں سمیت امام بارگاہ میں گھس گئے اور نعرہ بازی شروع کی۔ علامہ فدا مظاہری اور دیگر اساتذہ وعلمائے کرام کے خلاف نعرے بازی اور غلیظ زبان استعمال کی۔ امامبارگاہ میں نعرہ بازی کے بعد مدرسہ جعفریہ کا رخ کیا، وہاں گیٹ بند تھا، تو انہوں نے لاتوں اور ڈنڈوں اور بانسوں سے مارمار کر گیٹ کو توڑ کر زبردستی کھلوایا۔ مدرسے میں داخل ہوکر نعرہ بازی اور غلیظ زبان استعمال کی۔ اور اپنے ساتھ لائے ہوئے پتھروں سے مدرسے کی عمارت پر پتھراؤ کرکے، کمروں کے شیشوں کے علاوہ دوسری منزل میں نصب امام خمینی، مرحوم شیخ رجب علی، مرحوم شیخ علی مدد اور مرحوم شیخ نواز عرفانی کی تصویروں کو بھی توڑ دیا۔ یہاں طلبہ کے ساتھ بھی ہاتھا پائی ہوئی، مگر آقائ مظاہری نے انہیں برداشت سے کام لینے کی تلقین کرتے ہوئے مزاحمت سے روک دیا۔ شام پانچ بجے تک انہوں نے برابر اپنی مذموم حرکتوں کو جاری رکھا۔ یہاں تک کہ گیٹوں پر آرمی کے جوان بھی پہنچ گئے۔ بالآخر مجبور ہوکر مدرسہ میں موجود چند طلبہ، بشمول ملا کمال حسین اور کونین حسین (رکن انجمن حسینیہ) نے آگے بڑھ کر مزاحمت کی۔ جس پر پاسداران اور علمدار فیدریشن نے بھی بڑھ کر انکی کمک کرتے ہوئے ہاشم حاجی اور ممتاز بھائی کی پٹائی کی۔ اور مارمار کر انہیں زبردستی باہر کردیا۔ اسکے بعد بریگیڈئر پاک آرمی بھی امام باگاہ پہنچ کر عملے کو اپنا تعاون پیش کیا۔ تاہم آقائ مظاہری اور سیکریٹری صاحب نے انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے معاملے کو خود ہی گفت وشنید سے حل کرنے کی بات کی۔ 

جمعہ کا خطبہ:
اگلے دن جمعہ اجتماع میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ خطبہ جمعہ سے پہلے سیکریٹری نے عوام کو واقعے کی پوری تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اور ممتاز بھائی کی 25 لاکھ روپے کی رشوت کی  بات بھی کی۔ انہوں نے واضح انداز میں کہا، کہ جناب مظاہری خود نہیں آئے، انہیں آقائ سید سیستانی نے مجبور کرکے یہاں بھیجا ہے۔ اس سے قبل تین پیش امام گزرے ہیں۔ انکا حکم ہر وقت ہم نے واجب سمجھ کر دل وجاں سے قبول کیا ہے۔ تو اب یہ کونسا دین و مذھب ہے کہ اسی مجتہد کے نمائندے کے مقابلے میں ہم ایک ایسے مولوی، جسکے پاس کوئی تحریری ثبوت نہیں، سوائے اسکے کہ وہ اتحاد کا دشمن ہے، کو لاکر کھڑا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل تک ان تمام شرپسندوں کے ناموں کی پوری لسٹ اور انکی اشتعال انگیز ویڈیو سوشل میڈیا پر فراہم کی جائے گی۔ اسکے بعد شیخ فدا حسین مظاہری نے جمعہ کے خطبے میں نہایت تحمل اور بردباری کے ساتھ قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کو مرکز سے منع نہیں کرتے، یہاں تک کہ یہ لوگ بھی ہمارے اپنے ہی مومنین ہیں، انہیں چاہئے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرکے مرکز کی طرف رجوع کریں۔ ہم انہیں معاف کرتے ہیں۔ تاہم فساد کی جڑ چند بندوں کی (نام لئے بغیر) انہوں نے مذمت کی۔ 

گرفتاریاں:
اس حرکت کے نتیجے میں ایک درجن کے قریب لوگوں کو حکومت نے گرفتار کیا۔ جن میں ہاشم حاجی، ممتاز بھائی، سجاد حسین، جمیل حسن، سفر علی وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔ جبکہ کل 30 کے قریب لوگوں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے جاچکے ہیں۔ تاہم ممتاز بھائی کو اگلے روز یعنی ہفتہ کو حکومت نے اس وعدہ پر دوبارہ رہا کردیا، کہ گلاب شاکری کو کرم سے نکالنے کا وہ فوری اقدام کریں گے۔

مزار میں اجتماع:
اگلے دن ہفتہ کو شہید علامہ عرفانی کے مزار پر ان شرپسندوں کی جانب سے ایک اجتماع کا انعقاد ہوا، جس میں کافی لوگوں نے شرکت کی۔ مقررین نے متعدد مطالبات کے ساتھ ساتھ اہم مطالبہ یہ پیش کیا کہ انجمن حسینہ، علمدار فیڈریشن اور پاسدار کا وقت پورا ہوچکا ہے، چنانچہ اسے فوری طور پر تبدیل کرکے نیا سیٹ اپ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تینوں تنظیمیں (فیڈریشن، انجمن، پاسدار) درمیان سے نکل کر وہ مظاہری صاحب کے ساتھ ڈائریکٹ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 744363
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش