2
Thursday 30 Aug 2018 15:51

یورپی اتحادی امریکہ سے قطع تعلقی کی راہ پر؟

یورپی اتحادی امریکہ سے قطع تعلقی کی راہ پر؟
تحریر: عرفان علی

صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران نیوکلیئر ڈیل سے امریکہ کی دستبرداری کے ساتھ ہی پوری دنیا کو سخت آزمائش میں ڈالنے والے فیصلے بھی سنائے ہیں۔ مئی میں انہوں نے ایران پر نئی پابندیاں لگائیں تو یہ بھی واضح کر دیا کہ جو کوئی بھی ایران کے ساتھ کاروبار کرے گا، ان کمپنیوں اور افراد پر بھی امریکی پابندیاں لاگو ہوں گی، یعنی وہ امریکہ کے ساتھ کاروبار نہیں کرسکے گا۔ نومبر سے ان پابندیوں میں ایک اور اضافہ ہونے جا رہا ہے کہ ایران کی تیل کی صنعت پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے ہر وہ ملک یا کمپنی جو ایران سے تیل خریدے گا، اسے بھی امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یورپی یونین کے ممالک خاص طور جرمنی، فرانس اور انکے علاوہ بھارت اور چین کے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یورپی یونین کی طرف سے برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران نیوکلیئر ڈیل پر دستخط کئے تھے، اس لئے پانچ جمع ایک گروپ کا رسمی نام ای تھری پلس تھری تھا، جس میں ای (ای یو) یورپی یونین کا مخفف تھا۔ امریکہ کے ساتھ بھی مذکورہ ممالک کے اچھے تجارتی تعلقات ہیں، جو کہ ٹرمپ کی شروع کردہ تجارتی جنگ کے بعد سے غیر یقینی کا شکار ہیں۔

ایران سے خرید و فروخت یا ایران میں سرمایہ کاری کرنے کی وجہ سے ان ممالک کی سرکاری و غیر سرکاری شخصیات، اداروں اور کمپنیوں کو بھی امریکی تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ سال 2015ء میں فرانس کے بین الاقوامی بینکاری گروپ بی این پی پیباس کے خلاف مین ہٹن میں امریکی جج نے ایران، کیوبا اور سوڈان پر پابندیوں کی خلاف ورزیوں کے ایک مقدمے میں 8.83 بلین ڈالر ضبط کرنے اور 14 کروڑ ڈالر جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا۔ ان ممالک کے لئے باقی سارے نقصانات ایک طرف، سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ جو بھی بینک ایران سے متعلق ٹرانزیکشن کرے گا، وہ بینک اور اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور اہم شخصیات پر بھی امریکی پابندیوں کا اطلاق ہوگا، وہ امریکہ کے کسی بینک کے ساتھ ٹرانزیکشن نہیں کرسکیں گے اور امریکی مالیاتی نظام ان سے قطع تعلق کرلے گا۔ اس وقت دنیا میں بین الاقوامی خرید و فروخت کی مد میں ایک ملک سے دوسرے ملک جو ادائیگی ہوتی ہے، وہ سوئفٹ نظام کے تحت ہوتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بینکوں کا آپس میں رابطے کا ایک نظام ہے جسے سوئفٹ کہتے ہیں، یعنی سوسائٹی فار ورلڈ وائڈ انٹربینک فائنانشل ٹیلی کمیونیکیشن(SWIFT)۔
 
البتہ ایک ملک سے دوسرے ملک خرید و فروخت کی مد میں جو ادائیگی ہوتی ہے، وہ ڈالر میں ہوتی ہے تو درمیان میں (انٹرمیڈیئری بینک) امریکہ کے توسط سے ہی یہ ترسیل ممکن ہوتی ہے۔ سوئفٹ بیلجیم کے قوانین کے تحت رجسٹرڈ ادارہ ہے لیکن یہ ادارہ تقریباً چوبیس ہزار بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کی مشترکہ ملکیت ہے اور گیارہ ہزار مالیاتی اداروں پر مشتمل نیٹ ورک کے تحت پوری دنیا کے بینکاری نظام میں رابطے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اس نظام سے منسلک بینک ٹرانزیکشن کی تفصیلات کا پیغام بھیجتے ہیں اور جس ملک کی کرنسی ہوتی ہے، اس ملک کے مرکزی بینک یا دیگر بینک جس کو یہ اختیار ہوتا ہے، اس کے توسط سے ادائیگی ممکن بنا دی جاتی ہے۔ اگر ادائیگی ڈالر میں کرنی ہے تو لامحالہ امریکی بینکاری نظام کے ذریعے ہی ادائیگی ہوتی ہے، یعنی جس ملک کی بھی کرنسی ہے، اس کے بینکاری نظام کے توسط سے ہی ادائیگی ہوتی ہے۔

اس صورتحال سے پریشان ہوکر جرمنی کے وزیر خارجہ نے کراس بارڈر رقوم کی ادائیگی کے نئے طریقہ کار کی تجویز پیش کی ہے، کیونکہ معلوم ہے کہ جب تک بین الاقوامی تجارت کی کرنسی ڈالر ہے، تب تک امریکی حکومت دنیا کے کاروباری معاملات پر اثر انداز رہے گی۔ ستائیس اگست 2018ء کو جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو مآس نے برلن میں وزارت خارجہ میں سفیروں کی کانفرنس سے خطاب میں یورپی یونین پر زور دیا کہ امریکہ کے مقابلے پر اپنی اقتصادی خود مختاری کو یقینی بنائیں اور دیگر ممالک کو ادائیگیوں کا یورپی یونین کا اپنا متبادل چینل قائم کریں اور امریکہ کے تسلط اور امریکہ پر انحصار کو ختم کریں۔ انہوں نے ایران کو ادائیگیوں کے لئے متبادل چینل بنانے کا اشارہ بھی دیا۔ لیکن ایک طرف جرمنی کے وزیر خارجہ اتنی بڑی بات کہہ رہے ہیں، لیکن دوسری جانب برطانوی اور فرانسیسی ایئرلائنز دونوں نے ہی ایران روٹ پر اپنی پروازیں معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور وجہ یہ بتائی کہ غیر منافع بخش کاروبار ہے، جبکہ ٹائمنگ بتا رہی ہے کہ یہ امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ اس لئے ماہرین جرمنی کی اس خواہش کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ روس کے مرکزی بینک کی سربراہ الویرا نبیعلینا نے مئی 2018ء میں کہا تھا کہ امریکی پابندیوں کو ناکام بنانے کے لئے روس اپنے کراس بارڈر بینکنگ نظام قائم کرنے کے لئے سال 2014ء سے کام کر رہا ہے۔ اقتصادی ماہرین سمجھتے ہیں کہ چین یہ متبادل چینل قائم کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔

یورپی یونین نے ایران کے لئے حال ہی میں 18 ملین یورو کی امداد کا اعلان کیا، جس پر امریکی حکومت کی طرف سے منفی ردعمل ظاہر کرکے اسے غلط وقت پر غلط اشارہ قرار دیا گیا اور امریکی عہدیدار نے یورپی یونین کو تاکید کی کہ وہ ایران کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے۔ یورپی یونین کی امداد اور اعلانات کے باوجود ایران واضح کرچکا ہے کہ یورپی یونین امریکی پابندیوں کو ناکام بناتے ہوئے ایرانی تیل کی فروخت کو یقینی بنائے، ورنہ نیوکلیئر معاہدے پر ایران یکطرفہ عمل نہیں کرے گا، بلکہ اسکے ساتھ جو رسمی وعدے معاہدے میں کئے گئے ہیں، ان پر عمل کرنا اور کروانا نیوکلیئر ڈیل کے دیگر فریقوں اور خاص طور یورپی یونین کی جانب سے معاہدے پر دستخظ کرنے والے تین ممالک فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی بھی ذمے داری ہے۔ ایک جانب مسلمان حکومتوں کو امریکہ نے مشکل میں ڈال رکھا ہے تو دوسری جانب اب یورپی یونین اور بھارت کو بھی امریکہ اور اپنے مفادات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا وقت آگیا ہے۔

فرانس کے صدر امانویل میکرون نے پیرس میں سفیروں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یورپ اپنے دفاع و سلامتی کے ضمن میں مزید امریکہ پر انحصار نہیں کرسکتا اور یورپ کو جلد ہی اپنے دفاع و سلامتی کا انتظام خود اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ کم از کم اس نے خود کو آزاد و خود مختار سمجھنے والے یورپی ممالک کو بھی انکی اوقات یاد دلا دی ہے کہ امریکہ کی نظر میں انکی حیثیت بھی مسلمان ممالک جیسی ہی ہے۔ دنیا کی حکومتیں ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں، جس میں امریکہ کے اتحادی مذکورہ ممالک کی اپنی ساکھ داؤ پر لگ چکی ہے کہ آیا وہ اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر امریکا کو ’’نو مور‘‘ کہنے کی جرات کر پاتے ہیں یا نہیں۔ ان ممالک کی صرف زبانی کلامی ناراضگیوں اور الزامات اور جوابی الزامات پر اب کوئی ان ممالک کو سنجیدہ نہیں لے گا۔ اب کہنے کا وقت گذر گیا، اب کرکے دکھانے کا وقت آگیا ہے۔

یہ یورپی ممالک، چین اور روس اور دیگر متاثرہ مسلمان ممالک کے ساتھ مل کر ایک نئے بین الاقوامی مالیاتی نظام کی بنیاد رکھنے کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات کریں تو ایسا ممکن ہے، لیکن کیا یورپی یونین میں اتنی جرات ہے کہ وہ ایسا کرسکے۔ کیا واقعی وہ امریکہ سے قطع تعلق کرنے کی راہ پر گامزن ہے، اشارے تو ایسے ہی دیئے جا رہے ہیں اور ٹرمپ نے ان کے لئے کوئی باعزت متبادل چھوڑا ہی کب ہے۔؟ امکانات تو ہمیشہ سے موجود رہے لیکن یورپ کے ان تین بڑے ممالک کے ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو بالکل بھی یقین نہیں آرہا کہ یہ یورپی ممالک امریکہ کے خلاف کوئی نیا بین الاقوامی ادارہ قائم کرنے کی ہمت نہیں کرسکیں گے۔ بین الاقوامی مالیاتی نظام کے جزولاینفک یعنی بینکاری کے شعبے میں امریکہ مخالف چینل قائم کر لینا، یہ عالمی سیاست میں کسی ٹیکٹونک شفٹ سے کم نہیں ہوگا لیکن ان کے ماضی کے پیش نظر ایسا ہونے کی امید کم ہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 747121
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش