4
2
Friday 7 Sep 2018 16:23

کربلا ایک ابدی تحریک

کربلا ایک ابدی تحریک
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس سید

کربلا اور نواسہ رسولؐ حضرت امام حسین ؑ کی الہٰی تحریک پر قلم اٹھاتے ہی ہمیشہ یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ اتنی بڑی شخصیت، اتنے عظیم اور لازوال انقلاب کو ایک مضمون کے اندر کیسے سمیٹا جائے۔ طول تاریخ میں اس موضوع پر جتنا لکھا اور بولا گیا ہے، شائد ہی کسی اور تاریخی واقعہ پر اتنی مقدار میں تجزیہ و تحلیل کیا گیا ہو۔ اس تاریخی اور بے مثال انقلاب کے مختلف زاویوں پر علماء، دانشوروں اور سماجی ماہرین نے اپنے اپنے انداز سے روشنی ڈالی ہے، لیکن تشیع کا عوامی حلقہ بدقسمتی سے اس کے ایک زاویہ سے زیادہ مربوط رہا۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کربلا اور امام حسین ؑ حقیقت میں خالص اسلام محمدی کے پیروکاروں کی میراث تھی اور آئمہ نے اس میراث کو عزاداری کے خوبصورت پیرائے میں محبانِ اہلبیت ؑ کو امانت کے طور پر دیا تھا، لیکن تاریخ کا طالب علم یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہے کہ اس امانت کو نہ صرف کماحقہ دوسری نسلوں میں منتقل کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے بلکہ اس انقلاب کے حقیقی اہداف کو بھی واضح اور شفاف طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ علماء اور دانشوروں نے حتی المقدور کوشش ضرور کی، لیکن حقائق فرسودہ روایات اور منحرف نظریات کے پیچھے چھپا دیئے گئے۔ کربلا کے انقلاب کے بعد حضرت زینب ؑ نے اس انقلاب کے پیغام کو اس کے تمام حقائق کے ساتھ کوفہ کے بازاروں اور اموی درباروں میں انتہائی دلیری اور مؤثر انداز میں پیش کیا۔ حضرت زینب ؑ سے لے کر مہدی ؑ برحق تک یہ سلسلہ جاری ہے اور تاابد جاری رہے گا۔

کربلا کی تحریک کو عزاداری کے پلیٹ فارم سے بیان کرنے کا طریقہ کار ہمیں آئمہ اہلبیت ؑ کی سنت مقدسہ سے ملتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عوام الناس نے عزاداری یعنی غم حسین ؑ کو اپنا اصل ہدف قرار دیتے ہوئے مقصد حسین ؑ کو پس پشت ڈال دیا۔ ہمارے ہاں واقعہ کربلا کیسے ہوا۔ کربلا کے لق و دق صحرا میں امام حسین ؑ اور ان کے عزیز و اقارب اور با وفا اصحاب کے ساتھ یزیدی لشکر نے کیسے کیسے ظلم انجام دیئے، امام حسین ؑ کا لشکر اور آپ کی ذات والا صفات پر کیسے کیسے ظلم ہوئے، اس کا ہمارے ہاں بہت ذکر ہوا لیکن ہماری مجالس میں اس بات پر کم توجہ دی جاتی ہے کہ واقعہ کربلا یا نواسہ رسول کی شہادت کیوں ہوئی۔ ہاں کربلا کیسے برپا ہوئی، اس پر تو دل کھول کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں لیکن کربلا کیوں برپا ہوئی، اس پر بہت کم غور و فکر کرتے ہیں۔

آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ رسول خدا ؐ کی رحلت کے پچاس سال بعد امت محمدی نواسہ رسول ؐ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کرنے پر تیار ہو جاتی ہے اور خاندانِ محمد ؐ کے ساتھ کوفہ اور شام کے بازاروں میں غلاموں اور اسیروں جیسا توہین آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ رسول خدا ؐ کے تربیت یافتہ اس معاشرے میں ایسی کونسی جوہری تبدیلی آگئی تھی کہ خاندانِ نبوت کے پیاروں کو پیاسا شہید کرکے خوشیاں منائی گئیں اور جشن و سرور کی محافل سجائی گئیں۔ مؤرخین نے اس کی کئی وجوہات بیان کی ہیں جن کا اجمالی ذکر کرتے ہوئے امام حسین ؑ کے خطابات، مکتوبات اور پندونصائح سے ان وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

ماہرین سماجیات کے تجزئیے کی روشنی
قبائلی جاہلیت کی واپسی، بنی ہاشم سے دیرینہ دشمنی، قدرت و اقتدار کی ہوس و خواہش، حقیقی دینی اقدار سے دوری، خواص کی بے راہروی یا غیر جانبداری، اسلام کی من مانی تشریح، اسلامی حکومت میں منافقین کے اثرورسوخ میں اضافہ، خاندانِ علی ؑ سے صدر اسلام کی جنگوں کا انتقام، کینہ پروری، مادیت پرستی کا رجحان، حقیقی اسلامی قوانین سے عدم آگاہی، قرآن و اہلبیتؑ سے دوری، اپنی ذمہ داریوں سے فرار وغیرہ وہ عوامل تھے، جو کربلا کے واقعہ کا باعث بنے۔ ان عوامل میں سے ہر ایک پر تفصیلی بات ہوسکتی ہے لیکن موضوع کو سمیٹتے ہوئے آخر ہمیں خود امام حسین ؑ کی نگاہ میں واقعہ کربلا کے جو عوامل تھے، ان کا ذکر کرتے ہیں۔

امام حسین ؑ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کو جو وصیت کی تھی، اس میں آپ ؑ نے واضح طور پر اپنے قیام کا مقصد اصلاح امت قرار دیا ہے۔ یعنی امت محمدی میں ایسا بگاڑ اور انحراف آگیا تھا، جس کی اصلاح ضروری ہے۔ اس بگاڑ کے بارے میں امام حسین ؑ نے دو خطوط میں اشارہ کیا ہے، جو آپ ؑ نے بصرہ اور کوفہ کے قبائل کے نام تحریر فرمائے تھے۔ اہل بصرہ کے نام خط میں آپ لکھتے ہیں ’’میرا نمائندہ میرا یہ خط لے کر تمہارے پاس آیا ہے اور میں تم لوگوں کو کتابِ خدا اور اس کے رسول ؐ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ بے شک سنت رسول اللہ ؐ کو زندہ درگور کر دیا گیا ہے اور زمانہ جاہلیت کی بدعتوں کو زندہ کر دیا گیا ہے، اگر تم میری دعوت پر لبیک کہتے ہوئے میری پیروی کرو تو میں تم کو راہِ راست کی ہدایت کروں گا۔" اس خط سے واضح ہو رہا ہے کہ 60 ہجری کا معاشرہ کتابِ خدا اور سنت رسول ؐ سے دور اور زمانہ جاہلیت کی بدعتوں کا شکار ہوچکا تھا اور یہی باتیں امام حسین ؑ کے قتل اور واقعہ کربلا کا باعث بنیں۔

امام حسین ؑ نے کوفہ کے قبائل کے نام جو خط مرقوم فرمایا تھا، اس میں آپ ارشاد فرماتے ہیں۔ "امام صرف وہی ہے جو کتابِ الہٰی کے مطابق حکومت کرے، عدل و انصاف کو قائم کرے۔ ملک، معاشرے اور قانون کی حق کی طرف رہنمائی کرے اور خود صراطِ مستقیم اور راہِ خدا پر گامزن رہ کر اپنے نفس کی حفاظت کرے۔" اس خط میں بھی امام حسین ؑ اقتدار میں موجود حکمرانوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں اور عوام کو بھی متوجہ کر رہے ہیں کہ اسلامی حکومت اور اسلامی حاکم کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اس دور کا حکمران چونکہ ان صفات سے تہی دست ہوچکا تھا، اس کے لئے ایسے کسی شخص کا وجود ہرگز قابلِ قبول نہیں تھا، جو اس کی حکمرانی کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام قوتیں جو امام حسین ؑ سے خطرہ محسوس کرتی تھیں، وہ آپ کے خلاف مل کر صف آراء ہوگئیں اور نتیجہ کربلا کے دلخراش سانحے کی صورت میں وقوع پذیر ہوا۔

امام حسین ؑ نے کربلا جاتے ہوئے ’’بیضہ‘‘ کے مقام پر ایک تاریخی خطبہ دیا اور اپنے ساتھ شریک عوام کو بلواسطہ یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ تم پر کون سے لوگ مسلط ہیں اور ان کی وجہ سے معاشرہ کس طرح کے انحراف کا شکار ہے اور اگر تم نے اس انحراف کو نہ روکا تو تم بھی ان حکمرانوں کے ساتھ محشور ہوگے۔ بیضہ وہ مقام ہے جہاں حر ابنِ یزید ریاحی کا لشکر بھی آپ کا راستہ روکنے کیلئے آپؑ کے قریب آگیا تھا۔ آپ نے اس لشکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’اے لوگو! رسول خدا ؐ کا فرمان ہے کہ جو شخص کسی جابر و ظالم حاکم کو دیکھے، جو حرام خدا کو حلال جانتا ہو، قانون خدا کو توڑنے والا ہو، سنت رسول ؐ کا مخالف ہو اور مخلوقِ خدا میں گناہ و سرکشی سے حکومت کرنے والا ہو تو پھر وہ اپنے قول و فعل سے اس کے خلاف حکمت عملی اختیار نہ کرے تو خداوندِ عالم اس سکوت و جمود اور خاموشی اختیار کرنے والے شخص کا ٹھکانہ اُس ظالم سلطان کے ساتھ قرار دے گا۔"

اس خطبہ میں جہاں دشمن کے لشکر کو یزید کے خلاف قیام کی دعوت ہے، وہاں اُس دور کے حکمرانوں کی صفات بھی بیان کی جا رہی ہیں۔ جب ایسے حاکم برسرِ اقتدار ہوں تو اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے نواسہ رسول اور خاندانِ نبوت کے افراد کو قتل کرنے میں ذرا برابر تاخیر نہیں کرسکتے۔ اس طرح کے حکمرانوں اور حواریوں کا ہوسِ اقتدار کربلا جیسے تکلیف دہ واقعہ کا ذمہ دار بنتا ہے۔ اقتدار کا نشہ ہر طرح کے خیر و شر کی تمیز کو یکسر بھلا دیتا ہے۔ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اقتدار کیلئے بیٹے نے باپ کو اور باپ نے بیٹے کو قتل کرنے سے دریغ نہ کیا اور یزید کیلئے اقتدار سب سے زیادہ عزیز شے تھی۔ اُس نے کربلا میں نواسہ رسول ؐ کے خلاف ظلم و جور کا جو بازار گرم کیا، اُسکے پیچھے اقتدار کی شہوت سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔

واقعہ کربلا کے عوامل میں کئی کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں، لیکن ہم آخر میں صرف اتنا کہتے ہیں کہ انحراف ایک رات میں نہیں آتا۔ کوئی بھی مؤمن شخص باطل راستے پر آنے کیلئے کئی مراحل سے گزرتا ہے۔ یہ مراحل سماجی، سیاسی، اقتصادی، فوجی، نفسیاتی اور انواعِ اقسام کے ہوسکتے ہیں، لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ کوئی ایک رات میں یزید نہیں بن سکتا اور نہ ہی عمر ابنِ سعد اور شمر و خولی جیسا انسان نما درندہ بن سکتا ہے۔ معاشرے کے اتار چڑھاؤ بلکہ زندگی کی تلخ و شیریں آزمائشیں اس کی سوچ کو بدلتی ہیں، وہ پہلے مرحلے میں اپنے عقائد اور افکار و نظریات کے بارے میں شک و تردید کا شکار ہوتا تھا، جب عقائد میں اپنی حقیقی راہ کو گم کر بیٹھتا ہے تو پھر اس کی سوچ کا انداز بدلنے لگتا ہے۔ سوچ کے انداز میں تبدیلی اس کے رفتار و کردار اور رہن سہن پر اثر انداز ہوتی ہے، جس کا نتیجہ انسانی آئیڈیل یا مثالی نمونوں میں تبدیلی کی صورت میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ انسان جب اپنے مثالی نمونوں اور آئیڈیالوجی سے دور ہونا شروع ہو تو اسے یزید اور امام حسین ؑ صرف دو شہزادے نظر آنے لگتے ہیں، جو اقتدار کے لئے برسرِ پیکار ہیں۔

انسان اپنی آئیڈیالوجی کو یک دم نہیں چھوڑتا بلکہ مصلحتوں کے نام سے یا دوسرے ہتھکنڈوں سے اس آئیڈیالوجی میں تحریف کی جاتی ہے۔ تحریف کا سلسلہ شروع میں متوازی ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انحراف اور حقیقی راستے میں 180 درجے کا فرق آجاتا ہے۔ رہبرِ انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں۔ ’’انحراف کی دو قسمیں ہیں، ایک انحراف یہ ہے کہ لوگ بدعنوان اور باطل راستے پر گامزن ہو جائیں، اکثر اوقات ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن لوگوں کے منحرف ہونے سے اسلامی تعلیمات ختم نہیں ہوتیں۔ دوسری قسم کا انحراف یہ ہے کہ لوگوں کے منحرف ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت بھی فاسد اور خراب ہو جائے اور علماء کرام اور خطباء حضرات بھی انحراف کا شکار ہو جائیں، ایسی صورت حال میں ان منحرف لوگوں سے صحیح و سالم دین کی توقع نہیں رکھی جا سکتی، کیونکہ ایسے لوگ قرآن مجید اور اسلامی تعلیمات میں انحراف کرتے ہوئے اچھے کو برا اور برے کو اچھا، منکر کو معروف اور معروف کو منکر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو اسلام کے بتائے ہوئے راستے سے 180 درجہ الٹا پیش کرتے ہیں۔‘‘

60 ہجری کا معاشرہ اس حالت کو پہنچ گیا تھا، جس کی طرف رہبرِ انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اشارہ فرمایا۔ ایسے معاشرے میں جب کوئی حق کی آواز اٹھاتا ہے تو اس کے خلاف 61 ہجری جیسی کربلا کی صورتحال پیش آتی ہے۔ لیکن جب علماء، خطباء، دین کی پہچان سمجھی جانے والی شخصیات مختلف حیلے بہانوں سے منحرف ہو جائیں اور اسلام کے آسمانی و الہٰی نظام کے نفاذ کی بجائے سیکولر نظام کی تقویت میں مصروف ہو جائیں تو نواسہ رسول امام حسین ؑ کے پیروکاروں کے لئے امام حسین ؑ کے خط اور راستے کو اپنانا واجب ہو جاتا ہے، چاہے اس کے لئے کربلا جیسی قربانیاں ہی کیوں نہ دینا پڑیں۔
خبر کا کوڈ : 748651
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید میثم ہمدانی
Iran, Islamic Republic of
ماشاء اللہ ڈاکٹر راشد نقوی صاحب آپ نے کربلا کے موضوع پر اچھی تحریر لکھی ہے، استفادہ کیا اور خدا آپکو جزائے خیر دے۔ آپ نے اچھا سوال اٹھایا ہے کہ بالاخر انسان اگر سوچے تو اس کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ وہ کیا حالات تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے اسی کے نواسے کو ذبح کرنے کیلئے صحرائے کربلا میں اکٹھے ہوگئے؟؟ آپ نے اچھا تجزیہ کیا ہے، میں ایک بات اضافہ کرنا چاہتا ہوں، ویسے تو اس سوال کے جواب میں بہت سی علل و اسباب بیان کی جاسکتی ہیں، منجملہ خود امام حسین علیہ السلام کے کلام سے مستفید ہے کہ آپ نے فرمایا کہ چونکہ تمہارے بطون حرام مال سے بھرے ہوئے ہیں، لہذا مجھ حسین کا کلام بھی تمہارے اوپر اثر انداز نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ایک اہم نکتہ جس کی طرف میں توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں گذشتہ کے امام اور نبی اور راہبر و لیڈر کی بات کرنا بہت آسان ہوتی ہے، لیکن جب انسان اپنے زمانے میں موجود ہم عصر راہبر و امام کی طرف سے آزمائش کیا جائے تو اصل امتحان کا میدان وہی ہوتا ہے، جہاں انسان کے نظریہ اور اعتقاد اور اسکے ایمان کا میزان لگتا ہے اور اس کی اصل حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے۔ مسلمانوں نے نبی آخرالزمان کا ساتھ دیا، جب امامت کا آغاز ہوا تو مسلمانوں کے حقیقی ایمان کا امتحان شروع ہوا، پھر شروع میں انہوں نے امام علی علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کی، لیکن سردی اور گرمی سے گھبرانے لگے، امام حسن علیہ السلام کو میدان میں اکیلے چھوڑ دیا اور بالاخر امام حسین علیہ السلام کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے۔ ہمیں اس عبرت عاشورا کے نتیجہ میں خود سے یہ سوال کرنا چاہیئے کہ آیا ہم اپنے دور کے امام کے ساتھ کھڑے ہیں؟ آیا ہم نے وہی راستہ اپنایا ہوا ہے جو ہمیں امام نے دکھایا تھا؟ آیا ہم اپنے دور میں خمینی اور شہید حسینی کی راہ و روش و پر چل رہے ہیں؟ یا اب جب بے جا مصلحتوں کا سامنا ہو اور زمانے کی شرائط سخت ہوں تو کیا اس نظریہ کو فرسودہ اور غیر قابل نفاذ جان کر پیچھے ہٹ جائیں گے؟؟؟؟
France
بہت اچھا کالم ہے. ماشاءاللہ
نورسید
Pakistan
ماشاء اللہ ڈاکٹر راشد عباس سید صاحب آپ نے کربلا کے موضوع پر اچھی تحریر لکھی ہے، استفادہ کیا اور خدا آپکو جزائے خیر دے۔ سید میثم ہمدانی نے بہترین رائے کا اظہار کیا اللّٰہ تعالیٰ اسے بھی جزائے خیر دے۔
ایک نقطہ میں بھی واضح کرنا چاہونگا۔ وہ یہ کہ لوگوں کو یقین نہیں آرہا ہوگا اور نہ اُس معاشرے پ راعتراض ہضم ہوگا۔ کیونکہ خونِ حسینؑ مظلوم 1450 سال گذرنے کے بعد بھی انکی انکھیں نہیں کھولیں اور نہ مظلوم حسینؑ کی اواز ان تک پہنچی ہے۔! وہ اگر اس پر اعتراض کریں۔۔۔
"رسول خدا ؐ کے تربیت یافتہ اس معاشرے میں ایسی کونسی جوہری تبدیلی آگئی تھی کہ خاندانِ نبوت کے پیاروں کو پیاسا شہید کرکے خوشیاں منائی گئیں اور جشن و سرور کی محافل سجائی گئیں۔ ماہرین سماجیات کے تجزیئے کی روشنی قبائلی جاہلیت کی واپسی، بنی ہاشم سے دیرینہ دشمنی، قدرت و اقتدار کی ہوس و خواہش، حقیقی دینی اقدار سے دوری، خواص کی بے راہروی یا غیر جانبداری، اسلام کی من مانی تشریح، اسلامی حکومت میں منافقین کے اثرورسوخ میں اضافہ، خاندانِ علی ؑ سے صدر اسلام کی جنگوں کا انتقام، کینہ پروری، مادیت پرستی کا رجحان، حقیقی اسلامی قوانین سے عدم آگاہی، قرآن و اہلبیتؑ سے دوری، اپنی ذمہ داریوں سے فرار وغیرہ وہ عوامل تھے، جو کربلا کے واقعہ کا باعث بنے۔"
اگر اس بات پر اعتراض کریں۔ تو اُن کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم 10 دن میں گمراہ ہوئی، موسیؑ 30 دن کیلئے اللّٰہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، اپنی قوم میں اپنے بھائی ہارون ؑ کو جانشین مقرر کرکے گئے۔ مگر اللّٰہ تعالیٰ نے 10 دن مذید رکوا دیا۔ تو 40 دنوں کے بعد جب موسیؑ واپس ہوئے تو قوم کی اکثریت گمراہ تھی۔!
اور ایک مومن کے لئے امام حسین علیہ السلام کی اپنی گواہی کافی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ "چونکہ تمہارے بطون حرام مال سے بھرے ہوئے ہیں، لہذا مجھ حسین کا کلام بھی تمہارے اوپر اثر انداز نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔"
ڈاکٹر راشد عباس سید صاحب آپ کا یہ نقطہ بہت وزنی ہے کہ "عوام الناس نے عزاداری یعنی غم حسین ؑ کو اپنا اصل ہدف قرار دیتے ہوئے مقصد حسین ؑ کو پس پشت ڈال دیا۔" جس کی وجہ سے عوام الناس تک امام حسین مظلوم علیہ السلام کی صدا ہل من ناصرِ ینصرنا (کوئی ہے کہ میری مدد کو پہنچے) کیونکہ امام حسین ؑ کا مقصد تھا اصلاح امتی جدی ۔اپنے نانا کے امت کی اصلاح۔۔۔۔
France
ماشاءاللہ بھت اچھا کالم ہے۔
ہماری پیشکش