0
Saturday 22 Sep 2018 21:21

پاک ایران تجارتی سرگرمیوں میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ!

پاک ایران تجارتی سرگرمیوں میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ!
رپورٹ: نوید حیدر

پاکستان اور ایران کے مابین تجارتی سرگرمیوں کے فروغ میں بینکنگ نظام کی عدم موجودگی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بین الاقوامی سطح پر امریکہ اور یورپ کی جانب سے 2010ء میں لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں نے سب سے زیادہ ایران کے بینکنگ شعبے کو متاثر کیا۔ انہی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے مابین "لیٹرز آف کریڈٹ" کے ذریعے بھی تجارت کو وسعت نہیں مل پائی، جس طریقے کو دنیا کے مختلف ممالک باہمی تجارت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے دونوں ممالک کے تاجر حضرات آپس میں اپنے تجارتی لین دین کے معاملات کو حوالہ ہنڈی کے ذریعے انجام دیتے ہیں۔ بینکنگ نظام کی عدم موجودگی کے نقصانات کا اندازہ پاکستان کے ادارہ برائے اعداد و شمار کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہیں کہ 2009-10ء میں باہمی تجارت کا حجم 1.16 ارب ڈالر تھا، جو کہ 2015-16ء میں 318.69 ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس عرصے میں پاکستان کی ایران کو برآمدات 207.19 ملین ڈالر سے 35.48 ملین ڈالر تک گر گئیں، جبکہ درآمدات 962.13 ملین ڈالر سے 283.21 ملین ڈالر تک نیچے آگئی۔

2015ء میں ایران کا عالمی طاقتوں کیساتھ جب جوہری معاہدہ طے پایا، تو اس کے بعد پاکستان اور ایران کے مابین تجارتی سرگرمیوں میں دوبارہ وسعت دیکھنے کو ملی۔ ایران کے کمرشل اتاشی مراد نعمتی زرگران کے مطابق 2017ء میں دونوں ممالک کی مجموعی برآمدات کی مالیت 982 ملین ڈالر تک جا پہنچی، جس میں ایران نے پاکستان کو 634 ملین ڈالر اور پاکستان نے ایران کو 348 ملین ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں۔ لیٹرز آف کریڈٹ سسٹم میں چونکہ صرف پاکستان اور ایران کے بینکس شامل نہیں ہوتے، بلکہ اس میں ثالثی کے طور پر امریکی اور یورپی بینکس بھی شامل ہوتے ہیں، جن کے ذریعے پیسوں کا لین دین ہوتا ہے۔ پاکستان کی بین الاقوامی تجارتی سرگرمیاں زیادہ تر امریکی ڈالر میں ہوتی ہے، اسی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان غیر یقینی تعلقات کی وجہ سے پاکستانی بینکنگ سیکٹر نے جوہری معاہدے کے باوجود ایران کیساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے سے گریز کیا۔

اپریل 2017ء میں دونوں ممالک کے مرکزی بینکوں کے درمیان بی پی اے یعنی "بینکنگ اینڈ پیمنٹ ارینجمنٹ" کے عنوان سے معاہدے پر دستخط کئے گئے، جس کا مقصد لیٹرز آف کریڈٹ سسٹم کی فعالیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا تھی۔ بی پی اے کے معاہدے میں یہ طے پایا گیا کہ یورپی ممالک کی بجائے پاکستان اور ایران کے بینکوں کو ہی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی اجازت دی جائے گی، جو باہمی تجارت کو یورپی کرنسی (یورو) یا جاپانی کرنسی (ین) میں کریں گے۔ معاہدے کے تحت پاکستانی بینک کو اس حوالے سے اقدامات اٹھانا تھے، لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی عملی اقدامات اٹھانے سے کتراتا نظر آیا۔ پاکستان کے برعکس اقتصادی پابندیوں کے ادوار میں دوسری جانب انڈیا ایران کیساتھ تجارت کے فروغ کیلئے باہمی سسٹم کو بہتر بنانے میں کامیاب رہا۔ ایران کی جانب سے انڈیا کے ایک مقامی بینک میں بھارتی روپیہ کا اکاؤنٹ کھولا گیا۔ اس سسٹم کے ذریعے زیادہ تر خام تیل کی درآمدات کی ادائیگی کو انڈیا اپنی کرنسی میں اپنے ہی بینک میں کرتا تھا، جبکہ ایران کو برآمد کرنے والی اشیاء کے عیوض اپنی رقم کو انڈیا اسی بینک سے واپس لے لیا کرتا تھا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی اقتصادیات یعنی کامٹریڈ کی رپورٹ کے مطابق 2010ء میں انڈیا اور ایران کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 13.6 ارب ڈالر تھا، جو کہ 2014ء میں بڑھ کر 15.6 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ 2015ء میں یہ باہمی تجارت 9.3 ارب ڈالر تک نیچے گر گئی۔ ایرانی ایٹمی معاہدے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ باہمی تجارتی حجم 2016ء کو 10.6 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ البتہ ماضی کے برعکس اب اس باہمی تجارت کے لئے انڈیا میں قائم بینک پر انحصار کے علاوہ دونوں ممالک کو دوسری راہیں تلاش کرنا ہونگی۔ ایران میں برآمد ہونے والی اشیاء میں سب سے زیادہ مانگ چاول کی ہوتی ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران ایران میں سب سے زیادہ چاول انڈیا نے برآمد کیا ہے، جو کہ اس سے قبل پاکستان کیا کرتا تھا۔ 2010ء میں ایران نے مجموعی طور پر 916 ملین ڈالر کے چاول دنیا بھر سے درآمد کئے، جس میں 369 ملین ڈالر کے چاول صرف انڈیا سے خریدے گئے، جبکہ 2014ء میں یہ برآمدات 89.51 فیصد بڑھ کر 1.28 ارب ڈالر جا پہنچیں۔

اس سے قبل پاکستان سالانہ 400 ملین ڈالر تک چاول ایران کو برآمد کرتا تھا، لیکن اب یہ اعداد و شمار کم ہوکر مارچ 2017ء میں 43.976 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اگر وہ انڈیا کی طرز پر اپنی کرنسی میں تجارتی لین دین شروع کرے، تو اس کے غیر ملکی زر مبادلہ کو نقصان پہنچنے کے امکانات ہیں۔ 17 اپریل 2017ء کو اسلام آباد میں پاکستان اور ایران کی اعلٰی قیادت میں ایف ٹی اے یعنی آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے 5 سال میں دوطرفہ تجارت کو 5 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا، لیکن ان سب اقدامات کے لئے دونوں ممالک کو سب سے پہلے اپنے درمیان بینکنگ سیکٹر کو فعال بنانے کی اشد ضروت ہیں۔
خبر کا کوڈ : 751532
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش