0
Saturday 29 Sep 2018 19:53

تہران میں پہلے علاقائی سکیورٹی اجلاس کا انعقاد

تہران میں پہلے علاقائی سکیورٹی اجلاس کا انعقاد
تحریر: محمد علی

گذشتہ ہفتے بدھ 26 ستمبر کے دن تہران میں "ریجنل سیکورٹی ڈائیلاگ" کے عنوان سے علاقائی سطح پر سکیورٹی عہدیداران کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ایران، افغانستان، روس، چین اور بھارت کے سکیورٹی مشیران نے شرکت کی۔ اس اجلاس کا مقصد مغربی ایشیا خطے میں شدت پسندی اور دہشت گردی سے درپیش نئے خطرات کا جائزہ لینا اور ان سے مقابلے کی حکمت عملی وضع کرنا تھا۔ اس سے پہلے ماسکو میں امریکہ اور طالبان کے سیاسی نمائندوں سمیت 12 ممالک پر مشتمل افغانستان میں قیام امن کا جائزہ لینے کیلئے اجلاس منعقد کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن امریکہ کی جانب سے اس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے باعث یہ اجلاس منعقد نہ ہو سکا۔ چین بھی اب تک امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے ہمراہ متعدد چار طرفہ اجلاس منعقد کر چکا ہے جن میں افغانستان میں قیام امن کیلئے موثر راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
 
روس کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل نکولائی پیٹروشف نے افغانستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور بدامنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی صورتحال پہلے سے زیادہ خراب ہو چکی ہے اور ایسے شواہد بھی موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش افغانستان کو دوسرا شام بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے بارے میں کہا: "افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی نہ صرف اس ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کا باعث نہیں بنی بلکہ اس کے نتیجے میں اس ملک کا سکیورٹی بحران زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے۔" یاد رہے امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک کی مدد سے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خاتمے کا نعرہ لگا کر اس ملک پر فوجی حملہ کیا تھا لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں اس ملک میں بدامنی اور شدت پسندی میں مزید شدت آ چکی ہے۔ افغانستان میں داعش کی منتقلی پر مبنی امریکہ کی یہ پالیسی جسے پیٹروشف نے "ایک منظر" سے تعبیر کیا ہے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں بدامنی پھیلنے کا باعث بنی ہے۔
 
افغانستان سے متعلق امور کیلئے روس کے خصوصی ایلچی ضمیر کابلوف سمیت کئی روسی حکام بارہا اپنی جنوبی سرحدوں کو درپیش خطرات اور وسطی ایشیا میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر پریشانی کا اظہار کر چکے ہیں۔ اسی طرح وہ اب تک امریکہ کی جانب سے اپنے فوجی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے شام سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے کمانڈرز کی شمالی افغانستان منتقلی کے بارے میں بھی کئی رپورٹس پیش کر چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ افغانستان میں قیام امن کی صلاحیت کھو چکا ہے اور خطے کے ممالک افغانستان سے مشترکہ مفادات کا حامل ہونے کے ناطے اس اہم مقصد کے حصول کیلئے مل بیٹھنے کی ضرورت کا احساس کر چکے ہیں۔ ابھی تک افغانستان میں امن و امان کی بحالی سے متعلق امریکہ کی سربراہی میں جتنی بھی سفارتی کوششیں اور مذاکرات انجام پائے ہیں ان کا کوئی مثبت نتیجہ ظاہر نہیں ہوا۔ افغان حکومت نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں بدامنی اور سکیورٹی بحران کی جڑیں اس کی جغرافیائی حدود سے باہر تک پھیلی ہوئی ہیں اور علاقائی اور عالمی سطح پر پائے جانے والے تضادات اور ٹکراو اس ملک میں پراکسی وار کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
 
سیاسی ماہرین بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی اور فوجی ٹھکانوں کی ضرورت کا جواز پیش کرنے کیلئے اس ملک میں بدامنی اور دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ افغانستان میں شدت پسندی کو فروغ دینے کی امریکی پالیسی کا ایک اور مقصد اپنے علاقائی حریف ممالک جیسے چین، روس اور ایران کو زک پہنچانا ہے۔ سیاسی ماہرین امریکہ کی جانب سے افغانستان میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی تشکیل اور حمایت کی بھی یہی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ لہذا افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کا واحد راستہ علاقائی ممالک کی جانب سے آپس میں مل کر موثر اقدامات انجام دینے میں مضمر ہے۔ اس مقصد کیلئے مسئلہ افغانستان میں موثر کردار کی صلاحیت رکھنے والے تمام ممالک خاص طور پر پاکستان کی جانب سے واحد متفقہ حکمت عملی اختیار کئے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ تہران میں منعقد ہونے والا ریجنل سکیورٹی ڈائیلاگ نامی اجلاس اس راستے میں پہلا قدم شمار کیا جا رہا ہے۔ امید ہے مستقبل میں اس سلسلے میں منعقد ہونے والے اجلاس مزید موثر ثابت ہو سکیں گے۔
خبر کا کوڈ : 752885
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش