0
Sunday 21 Oct 2018 20:18

ابد تلک اب نہ سر اٹھا کے چلے گا کوئی یزید زادہ

ابد تلک اب نہ سر اٹھا کے چلے گا کوئی یزید زادہ
تحریر: سید اسد عباس
 
محسن نقوی نے کیا خوب کہا تھا:
کہیں بھی ایوان ظلم تعمیر ہوسکے گا نہ اب جہاں میں
 ستم کی بنیاد اس طرح سے ہلا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بڑی نواسی ہیں۔ آپ کا نام رسالت مآب نے رکھا۔ آپ کی غیر معمولی ذہانت کے سبب جناب عبداللہ ابن عباس آپ کو عقیلہ بنی ہاشم کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے چھ برس کی عمر میں اپنے نانا اور ماں کی جدائی کا غم جھیلا، بابا علی ؑ کی زندگی اور پھر بھائی حسن ؑ کا دور سبھی آپ کی آنکھوں کے سامنے گزرا۔ جب حسین ابن علی ؑ پر زمین مدینہ تنگ کر دی گئی تو زینب بنت علی ؑ اپنے شوہر جناب عبداللہ ابن جعفر کی اجازت سے اپنے بھائی کے ہم سفر ہوگئیں۔ حسین ؑ اور آپ کے انصار کے یوم عاشورا، مقام شہادت پر پہنچنے کے بعد اسرائے اہلبیت کے قافلے کی سرپرستی آپ نے سنبھالی۔ خاندان مصطفٰی ؐ کے اسراء کے قافلے کی قائد، یہ نبی زادی اپنی بہنوں، بیٹیوں کے ہمراہ کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں پھرائی گئی، نوبت دربار یزید تک پہنچی۔

یزید سر شہداء اور اسرائے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دربار میں دیکھ کر بہت خوش ہوا، اس موقع پر اس نے عبداللہ بن زبعری کی جانب منسوب اشعار پڑھے اور اپنی چھڑی دندان حسین علیہ السلام پر مارنے لگا۔ جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا سے یہ گستاخیاں برداشت نہ ہوئیں، آپ اٹھیں اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبے اور بعدہ امام زین العابدین ؑ کے خطبے نے دربار یزید میں بھونچال برپا کر دیا۔ طاقت کے نشے میں گم یزید اس خطاب کو سن کرحواس کھو بیٹھا۔ اس خطبے کے بعد دربار یزید کے رنگ ہی بدل گئے۔ دربار یزید ہی کیا امیر المومنین کی اس شجاع بیٹی کے خطبات نے کوفہ و شام ہر جگہ ایک کہرام بپا کر دیا۔

سیدہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا:
"تعریف اللہ کے لئے ہے، جو ساری کائنات کا پروردگار ہے اور درود و سلام رسولؐ و اہل بیتؑ رسول پر۔۔۔۔ کیوں، یزید! زمین و آسمان کے تمام راستے ہم پر بند کرکے اور خاندان نبوت کو عام قیدیوں کی طرح، دربدر پھرا کر تو نے یہ سمجھ لیا کہ خدا کی بارگاہ میں ہمارا جو مقام تھا، اس میں کوئی کمی آگئی اور تو خود بڑا عزت دار بن گیا؟ تو اس خام خیالی کا شکار تو نہیں کہ وہ المیہ جس سے ہمیں تیرے ہاتھوں دو چار ہونا پڑا، اس سے تیری وجاہت میں کچھ اضافہ ہوگیا؟ ٹھہر، یزید ٹھہر! ایک دو سانسیں اور لے لے۔ پھر دیکھنا، کیا ہوتا ہے؟ دراصل تو رب ذوالجلال کے اس فیصلے کو بھلا بیٹھا ہے کہ ’’کفر کی راہ اختیار کرنے والے یہ گمان نہ کریں کہ ہم جو انہیں مہلت دیے جاتے ہیں، وہ ان کے حق میں کوئی بہتری ہے، ہم تو انہیں اس لئے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب جی بھر کر گناہ سمیٹ لیں، اس کے بعد ان کے واسطے سخت ذلت آمیز سزا اور رسوا کرنے والا عذاب ہے۔
 
اے ہمارے آزاد کئے ہوؤں کے بیٹے! کیا یہی عدل ہے؟ اسی کو انصاف کہتے ہیں؟ کہ تیری عورتیں اور کنیزیں تو پردے میں ہوں اور نبیؐ زادیوں کی چادریں چھین کر انہیں بے پردہ، سر برہنہ ایک شہر سے دوسرے شہر کشاں کشاں لے جایا جائے۔ ہم بے وارثوں کا قافلہ جس جگہ پہنچتا ہے، وہاں تماشائیوں کا ٹھٹھ لگ جاتا ہے۔ ہر قسم کے لوگ، ہر طرح کے آدمی۔ راہ راہ، منزل منزل، جوق در جوق۔۔۔ دور اور نزدیک سے ہمیں دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے ہیں! اس کارواں کا نہ کوئی ساتھی ہے نہ حمایتی۔ نہ دوست، نہ نگہبان۔۔۔ مگر جس کا تعلق ہمارے بزرگوں کا کلیجہ چبانے والوں سے ہو، اس سے کسی رو رعایت کی کیا توقع ہوسکتی ہے؟ اور جس کا گوشت پوست ہمارے شہیدوں کے لہو سے اگا ہو، بھلا اس کے دل میں ہمارے لئے کوئی نرم گوشہ کہاں پیدا ہوسکتا ہے؟ جو اہل بیتؑ عصمت و طہارت کی دشمنی میں انگاروں پر لوٹ رہا ہو، اس سے کب یہ امید باندھی جاسکتی ہے کہ وہ حقیقتوں کے بارے میں کبھی ٹھنڈے دل سے غور بھی کرے گا۔؟
 
اے یزید! تو احساس جرم کے بغیر اور جس ڈھٹائی سے کہتا جا رہا ہے کہ: اگر اس وقت میرے اسلاف مجھے دیکھتے تو کتنے شاد ہوتے! وہ مجھے شاباشی دیتے اور کہتے، یزید تیرے دست و بازو کو نظر نہ لگے! تو نے محمدؐ کے گھرانے سے کیا خوب انتقام لیا ہے! یزید! تو جو کچھ کر رہا ہے اور جو کہتا چلا جا رہا ہے۔۔۔ وہ تیری اندرونی کیفیت کا اظہار ہے! ذرا دیکھ تو سہی، بے ادب، اپنی چھڑی سے جس ہستی کے مقدس ہونٹوں کے ساتھ تو گستاخی کر رہا ہے، وہ جوانان جنت کا سردار ہے۔ تو نے محمدؐ کے پیاروں کا خون بہا کر، عبدالمطلب کے چاند تاروں کو خاک میں ملا کر اپنے سوکھے ہوئے زخموں کو پھر سے ہرا اور بھرے ہوئے گھاؤ کو کچھ اور گہرا کر دیا ہے اور اس پر سے تو اپنے پرکھوں کو بھی پکار رہا ہے، اپنے گڑے ہوئے مردوں کو آواز دے رہا ہے۔ اس سے بے خبر کہ عنقریب تو خود بھی اسی گھاٹ اترنے والا ہے۔ جب تو اپنے سگوں کے پاس پہنچ جائے گا تو پھر رہ رہ کر تیرا دل یہ چاہے گا کہ کاش! نہ زبان میں سکت ہوتی اور نہ ہاتھوں کو جنبش، تاکہ جو کہا ہے وہ نہ کہتا اور جو کیا ہے وہ نہ کرتا۔
 
اے یزید! یہ تو زمانے کا انقلاب ہے کہ مجھے تجھ جیسے آدمی سے بات کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ تجھے تو میں بہت چھوٹا اور بے وقعت سمجھتی ہوں، البتہ تیری سرزنش کو بڑا کام اور تیری ملامت کو ایک اچھی بات قرار دیتی ہوں۔ کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ وہ خاصان خدا جنھیں اس نے عزوشرف دے کر سرفراز فرمایا، وہی فتح مکہ کے دن ہمارے آزاد کئے ہوئے، شیطان صفت گروہ کے ہاتھوں تہ تیغ ہوں۔ اے یزید! تیرے پاس مکروفریب کا جتنا ذخیرہ ہے، اسے جی کھول کر کام میں لے آ۔ ہر طرح کی سعی و کوشش میں بھی کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھنا۔ اپنی سیاسی جدوجہد کو مزید تیز کر دے اور ہاں ساری حسرتیں نکال لے۔ تمام آرزوئیں پوری کرلے۔ مگر اس کے باوجود تو نہ تو ہماری شہرت کو کم کرسکتا ہے اور نہ ہی اتنی قوت رکھتا ہے کہ ہماری مقبولیت کو متاثر کرسکے۔ پھر یہ بھی تیرے بس میں نہیں کہ ہماری فکر کو پھیلنے اور ہمارے پیغام کو نشر ہونے سے روک دے نیز تو ہمارے مقصد کی گہرائی تک پہنچنے اور غرض و غایت کی گہرائی کو سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔
 
بی بی سلام اللہ علیھا کا دربار یزید میں قید کی حالت میں خطبہ یزیدیت کو زمیں بوس کرنے کے لئے کافی تھا، اس کا مکر و فریب، فتح و کامرانی کا سارا زعم اس خطبے کے جملوں کے ساتھ ہوا ہوگیا۔ اپنا سارا کنبہ قربان کرکے اسیری کی حالت میں مختلف شہروں میں پھرا کر عظیم الشان سلطنت کے دربار شاہی میں رسن بستہ لائی جانے والی ایک خاتون نے الٰہی انداز سے جیسے یزید کو للکارا اور اسے اس کی حیثیت یاد دلوائی، اس کی مثال تاریخ بشریت میں نہیں ملتی ہے۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے خطبے میں نہ صرف یزید کو اس کا مقام بتایا بلکہ اہل دربار کو مارے جانے والوں کی شان و عظمت کے بارے میں بھی بتایا اور اسے کہا کہ اے یزید تیری تو اتنی بھی وقعت نہیں کہ میں تجھ سے کلام کروں، ہاں تیری سرزنش کرنا میں اپنی ذمہ دارتی سمجھتی ہوں۔ سیدہ زینب کے خطبے کے آخری جملے الٰہی بصیرت اور خانوادہ رسالت کے ایک فرد کی زبان کے ادا کردہ جملے ہیں، جیسے جناب سیدہ دیکھ رہی ہوں کہ یزید مٹنے کے لئے ہے اور ہماری فکر کو عام ہونا ہے، اس پیغام کو نشر ہو کر رہنا ہے۔ تاریخ انسانیت گواہ ہے کہ سیدہ کے وہ جملے حرف بہ حرف درست ثابت ہوئے۔ آج دنیا میں یزیدیت ایک گالی بن چکی ہے اور حسینیت کا پیغام نسلوں سے نسلوں میں منتقل ہوتے ہوئے ایک عالمی تحریک کی صورت دھارتا ہوا نظر آتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 757171
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش