2
0
Monday 29 Oct 2018 17:34

الباکستان نہیں، نیا پاکستان چاہیئے۔۔۔۔

الباکستان نہیں، نیا پاکستان چاہیئے۔۔۔۔
رپورٹ: سید شاہریز علی
 
عمران خان کی حکومت آنے کے بعد پاکستانی قوم کو یقین ہو چلا تھا کہ اب پاکستان بدلے گا، اب واقعی وطن عزیز کو لوٹنے والوں کا احتساب ہوگا، ملک میں امن قائم ہوگا، ہر مذہب کے پیروکار کو اسکے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ملے گی۔ ابھی موجودہ حکومت کو قائم ہوئے تین ماہ بھی نہیں گزرے، اس نئی حکومت نے بعض اقدامات تو ایسے کئے، جو بلاشبہ عوامی توقعات کے مطابق تھے، جس میں کرپشن کیخلاف بلاامتیاز کارروائی، اداروں میں اصلاحات اور معیشت کو بہتر بنانے کیلئے بنیادی اقدامات وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم عمران خان جنہیں قوم ایک مسیحا کے روپ میں دیکھ رہی تھی، وہ بعض ایسی سیاسی غلطیاں بھی کر بیٹھے ہیں، جس سے ان کے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد کے جذبات مجروح ہوئے۔ ان ’’سیاسی غلطیوں‘‘ میں سے ایک یمن کے معاملہ پر آل سعود کا ساتھ دینا اور سعودی عرب کے سامنے کشکول لیکر کھڑا ہونا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب تک یمن کے مسئلہ پر پاکستان کا موقف حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کافی محتاط اور مناسب تھا، کئی معتدل قوتیں پاکستان کو اس نگاہ سے دیکھ رہی تھیں کہ پاکستان اس مسئلہ پر ایک فریق کی بجائے ثالث کا کردار ادا کرے گا، کیونکہ پاکستان امت مسلمہ میں واحد ایٹمی طاقت اور ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ دو مسلم ممالک کے مابین اس نازک مسئلہ پر اسلام آباد سے کافی توقعات وابستہ تھیں، تاہم اس معاملہ پر عمران خان کی حکومت نے اپنے آپ کو آل سعود کی گود میں بٹھا کر نہ صرف یمن کے مظلومین کے زخموں پر نمک پاشی کا کردار ادا کیا بلکہ پاکستان کے ثالثی کے رول کو بھی متاثر کیا۔
 
کسی بھی ملک کے نئے وزیراعظم، صدر یا چیف ایگزیکٹیو کے پہلے بیرون ملک سرکاری دورہ کو خاصی اہمیت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ یہ دشمنوں اور دوستوں سب کو ایک خاموش پیغام بھی ہوتا ہے، وزیراعظم عمران خان نے حکومت میں آنے کے بعد اپنا پہلا سرکاری دورہ بھی سعودی عرب کا کیا۔ عمران خان کے دورہ سعودی عرب سے قبل ملک میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی گرفتاری کو لیکر کافی چہ مہ گوئیاں ہو رہی تھیں۔ کہا جا رہا تھا کہ ایک بار پھر سعودی عرب میاں نواز شریف کو بچانے کیلئے میدان میں آگیا ہے، لیکن اس بار عوامی ردعمل سے بچنے کیلئے طریقہ کار مختلف ہوگا، یعنی سابق وزیراعظم کو جیل سے باہر نکلوایا جائے گا، کیس اپنی جگہ چلتے رہیں گے، میاں صاحب لوٹا ہوا پیسہ واپس کریں گے، اس پیسے کی ادائیگی سعودی عرب کے ذریعے ہوگی، اور اسے بیل آوٹ پیکج یا امداد کا نام دیا جائے گا۔ بہرحال ان چہ مہ گوئیوں اور افواہوں سے قطع نظر عمران خان کی حکومت پہلے سعودی عرب کے پاس ہی پہنچی۔ عمران خان کا ریاض جانا اور وہاں پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ایک ’’دوست‘‘ ملک سے امداد کی طلبی بھی شائد کوئی منفی بات نہ ہو، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان جیسے اصولی سیاست کے علمبردار سے پاکستانی قوم یہ توقع نہیں رکھتی تھی کہ وہ کسی کے سامنے اتنی جلدی کشکول پھیلائیں۔ امداد کی طلبی سے زیادہ خطرناک بات اس امدادکا اسلام آباد کی خارجہ اور داخلہ پالیسی پر اثر انداز ہونا ہے۔
 
یہ امداد میاں نواز شریف کا لوٹا ہوا پیسہ ہو یا سعودی حکومت کی طرف سے تحفہ، تاہم اس حوالے سے اب تک کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ ایک ایسا ملک جس نے کئی اسلامی ممالک میں محض اپنے مفادات کی خاطر مداخلت کی اور فرقہ وارانہ مسائل پیدا کئے، آخر کن شرائط پر اسلام آباد پر اربوں ڈالر کی بارش کرنے پر راضی ہوگیا۔؟ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب اس کو اپنی معیشت کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عمران خان کی حکومت کو سعودی امداد کے حوالے سے کافی تنقید کا سامنا ہے، اس تنقید کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہم نے کسی بھی شرط پر امداد نہیں لی، بلکہ یہ سب کچھ تجارتی اور دوستی کی بنیاد پر ہوا ہے۔ اگر خان صاحب کی اس بات کو مان بھی لیا جائے تو اہم سوال یہ ہے کہ یمن کے مسئلہ پر اب تک قائم رہنے والی پاکستان کی پالیسی کو کیوں تبدیل کیا گیا۔؟ یمن کے مسئلہ کو اگر امت مسلمہ کا سب سے سلگتا ہوا مسئلہ کہا جائے تو غلط نہ گا، کیونکہ اگر کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں تو وہاں جارحیت کسی مسلم ملک کی جانب سے نہیں کی گئی، جبکہ یمن پر اسلام کا سب سے بڑا ٹھیکہ دار ملک حملہ آور ہے۔ آئے روز وہاں بیگناہ لوگوں بشمول خواتین اور بچوں کو شہید کیا جا رہا ہے، غذائی اور ادویات کی قلت شدت اختیار کر گئی ہے، ایسے میں پاکستان کی جانب سے محض ڈالر اور ریال کے چکر میں مظلوم کے مقابلہ میں ظالم کا ساتھ دینا انتہائی افسوسناک ہے۔
 
یمن کے مسئلہ پر عمران حکومت کی جانب سے آل سعود کے جرائم کی حمایت کشمیر پر پاکستان کا موقف کمزور کرنے کے میں بھی معاون ثابت ہوئی ہے، کیونکہ آج تک اسلام آباد فلسطین اور کشمیر سمیت جہاں جہاں مسلم ممالک پر ظلم ہوا، آواز اٹھاتا آرہا ہے، اب جبکہ خاص طور پر کشمیر کے معاملہ پر پاکستان کی آواز مضبوط ہوتی جا رہی تھی، یمن کیخلاف ووٹ دینے سے اقوام عالم کی جانب سے یہ موقف سامنے آسکتا ہے کہ جو کچھ بھارت کشمیر میں کر رہا ہے، اس سے بڑھ کر سعودی عرب یمن میں کر رہا ہے، ایسے میں پاکستان ایک طرف ظالم اور قابض ہندوستان کیخلاف آواز اٹھا رہا ہے تو دوسری جانب یمن میں بھارت سے زیادہ خطرناک کردار ادا کرنے والے سعودی عرب کا ساتھ دیکر پاکستان انصاف کی بات کیسے کرسکتا ہے۔؟ علاوہ ازیں صحافی جمال خاشقجی کے بے رحمانہ قتل کہ جس پر بڑے بڑے ظالم ممالک بھی آواز اٹھانے پر مجبور ہوگئے، پاکستان کی طرف سے کسی قسم کے موقف کا سامنے نہ آنا بھی سعودی امداد کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ امداد ہو، تحفہ یا قرضہ، پاکستان کو اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی کو کسی دوسرے ملک کے مفاد کو بچانے کیلئے تبدیل نہیں ہونا چاہیئے، پاکستان کا نہ صرف مسلم دنیا بلکہ اقوام عالم میں ایک اہم مقام ہے، سابقہ غلطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو غیروں کی جنگ میں اپنے ملک کو دھکیلنے کے پاکستان اور اس کے عوام کئی نقصانات اٹھا چکے ہیں۔
 
عمران خان کو قوم نے ایک نیا پاکستان بنانے کا مینڈیٹ دیا تھا، وہ پاکستان جس کا خواب شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال (رہ) نے دیکھا اور جس کو عملی شکل قائداعظم محمد علی جناح (رہ) نے دی، وہ پاکستان جو فرقہ واریت، دہشتگردی، نسلی و لسانی تعصب سے پاک ہو، جس میں ایک عیسائی اور ہندو کو بھی اتنے حقوق حاصل ہوں، جو ایک مسلمان کو ہوں، وہ پاکستان جس میں کرپشن کا ناسور نہ ہو۔ ایسے ہی پاکستان کی خاطر قوم نے اس بار عمران خان کو وزیراعظم کے اہم ترین منصب پر پہنچایا، اب عمران خان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کی تمام امیدوں پر پورا اترتے ہوئے پاکستان کو ان کی امنگوں کے مطابق بنانے کی کوشش کریں۔ وزیراعظم عمران خان کو سعودی عرب کی جانب سے ملنے والی امداد پر قوم کو شرائط سے من و عن آگاہ کرنا ہوگا، یمن کے مسئلہ پر پاکستان کو اپنی پالیسی واضح کرنے کے ساتھ ساتھ وہ رول ادا کرنے کی ضرورت ہے، جس سے امت مسلمہ کو متحد کیا جائے، نہ کہ مزید تفریق اور مسائل پید اکئے جائیں۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے، جو یمن کے معاملہ پر ثالثی کا بہترین کردار ادا کرسکتا ہے، ایسا کوئی کردار ادا کرنے سے نہ صرف بعض مسلم ممالک میں بڑھتی ہوئی دوریوں کو ختم کیا جاسکتا ہے، بلکہ پاکستان کے امیج کو بھی اقوام عالم میں بہتر بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ پاکستانی قوم نے عمران خان کو سعودی عرب کے زیر تسلط الباکستان کیلئے نہیں بلکہ نئے پاکستان کیلئے ووٹ دیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 758407
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
پرانی باتوں کی نئی کھچڑی پکائی گئی ہے۔ کوئی کام کی بات یا معلومات میں اضافہ نظر نہیں آیا۔
Iran, Islamic Republic of
محترم قاری اسلام ٹائمز
السلام علیکم۔ امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔ کسی بھی میڈیا ادارے کیلئے مثبت تنقید اور اصلاح کی تجویز مفید ہوتی ہے۔ آپ نے جس نقطہ کی طرف اشارہ کیا، اس حوالے سے عرض ہے کہ اس تحریر میں پرانی بات کا تین سطور پر مشتمل حوالہ گذشتہ تحریر کے تناظر میں دینا ضرور تھا۔ اسی تجزیہ کو اگر آپ نے پڑھا ہو تو موجودہ صورتحال اسی جانب بڑھ رہی ہے۔
علاوہ ازیں اسلام ٹائمز پر ایک نہیں کئی کالم و مضمون نویسوں کی تحریریں پبلش ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی دوسرے مضمون نویس کی تحریر اس سے ملتی جلتی پہلے پبلش ہوئی ہو۔
اگر پھر بھی آپ متعلقہ سطور کی نشاندہی کر دیں، جس میں آپ کے مطابق پرانی باتیں دھرائی گئی ہیں۔
امید ہے آپ اسلام ٹائمز کے قاری رہیں گے اور تنقید برائے اصلاح کے ذریعے ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔
والسلام
ہماری پیشکش