1
Saturday 3 Nov 2018 09:54

اللہ ہمیں معاف کرے

اللہ ہمیں معاف کرے
تحریر: اسماء طارق
گجرات


وہ کہنے لگے، کئی روز سے زندگی جام ہوچکی ہے، ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال ہے۔ لوگوں کو عقل ہی نہیں ہے کہ کیا کر رہے ہیں، لوگوں کی انتہاء پسندی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ کچھ لکھتی لکھاتی کیوں نہیں ہو اس پر۔ میرے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا کہ اللہ ہمیں معاف کرے۔ کہنے لگے اللہ تو معاف  کر ہی دیتا ہے، پر لوگ نہیں کرتے اور میں  یہ سوچنے لگ گئی ہاں اللہ تو معاف کر ہی دیتا ہے، مگر لوگ معاف نہیں کرتے، وہ اپنی عدالت خود ہی لگا لیتے ہیں اور فیصلے بھی سنا ڈالتے ہیں۔ وہ تو یہ سب کہ کر چلے جاتے ہیں، پر میرے لئے ایک نیا پنڈارا باکس کھول جاتے ہیں، جس سے میں دور رہنے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہی تھی۔ ہر انسان اپنا بچاو کرتا ہے اور شاید میں بھی یہی کر رہی تھی، اس لئے خاموش ہی رہنا چاہتی تھی، کیونکہ خدا ہی جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے، کون سچا ہے، کون جھوٹا ہے، بس اللہ معاف کرے۔ یہ سب منظر دیکھ کر مجھے تو بس خوف آرہا تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے انسانوں نے اپنی عدالت لگا رکھی ہو، جہاں وہ سب کی جزا سزا کا فیصلہ کر رہے ہوں اور کہیں ہماری باری نہ آجائے۔
 
 مجھے اس پر کچھ نہیں کہنا ہے کہ حق کیا ہے، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، مگر ایک بات جو کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے، وہ یہ کہ ہم کس روش پر چل رہے ہیں، ہم مذہب میں بھی سیاست کرنا نہیں چھوڑتے۔ ہمیں انصاف پانے کے لئے پہلے بے انصافی کرنا ہوتی ہے، لوگوں کا حق چھیننا ہوتا ہے۔ ایک فیصلہ آتا ہے اور پوری قوم میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ ملک کی ایک بڑی جماعت کی سرپرستی میں تین دن احتجاج ہوتا رہتا ہے، جس کا  مقصد مسلمانوں کی ساکھ کو بچانا ہے، ان کی ناموس کی حفاظت ہے،  بےشک اس کو یقینی بنانا چاہیئے، مگر کیسے غریب کا روزگار چھین کر، اسے تباہ و برباد کرکے، سڑکوں کو آگ لگا کر، غریبوں کو بھوکا مار کر، اپنے ہی بھائیوں پر ڈنڈے برسا کر، اپنے ہی ملک کو تباہ و برباد کرکے۔
 
وہ مذہب جو مسجد میں لہسن اور پیاز کھا کر جانے سے منع کرتا ہے کہ  اس کی بدبو سے دوسروں کی دل آزاری ہوگی۔ وہ مذہب جو راستے میں  پتھر رکھنے سے منع کرتا ہے کہ کہیں کسی مسافر کو تکلیف نہ ہو۔ وہ مذہب جو حقوق انسانیت کو سب سے بڑھ کر رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اسی کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں اسی کے نام پر انسانیت کو روندا جاتا ہے، غریبوں کا جینا دوبھر کیا جاتا ہے۔ توڑ پھوڑ کی جاتی ہے، اپنے بھائیوں کو اذیت دی جاتی ہے۔ وہ مذہب جو پھل دار درختوں کو کاٹنے سے منع کرتا ہے، وہاں اسی کے ماننے والے اسی کے نام پر اسی کے بندوں کی ساری زندگی کی محنت چھین لیتے ہیں۔ چلو مان بھی لیتے ہیں کہ احتجاج ہونا چاہیے تھا، مگر اگر یہ پرامن طریقے سے ہوتا تو بہتر نہ ہوتا، اگر یہ توڑ پھوڑ کے بغیر ہوتا تو بہتر نہ ہوتا، اگر یہ غریب کا رزق چھینے بغیر ہوتا تو بہتر نہ ہوتا، اگر یہ لوگوں کے منہ سے نوالے چھینے بغیر ہوتا تو بہتر نہ ہوتا، اگر یہ غریب کا خیال  رکھ کر کیا جاتا تو بہتر نہ ہوتا، اگر اپنے ملک کے حالات کا سوچ کر کیا جاتا تو بہتر نہ ہوتا۔ اگر یہ سیاست چمکائے بغیر ہوتا تو بہتر نہ ہوتا، اگر یہ قانونی تقاضے پورے کرتا ہوتا تو بہتر نہ ہوتا۔
 
ان غریبوں کا کیا قصور تھا، جنہوں نے ساری عمر لگا کر کوئی روزگار کا وسیلہ بنایا اور آپ نے ایک ہی پل میں اسے تباہ و برباد کر دیا، اب اس کا نقصان کون پورا کرے گا۔ اس کیلے والے کا کیا قصور تھا، جسے ان حالات میں بھی ماں نے بھیجا تھا اور کہا تھا کہ بیٹا راشن لے کر آنا، گھر میں  کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ اس مزدور کا کیا قصور تھا، جو روز دیھاڑیوں پر کام کرتا ہے اور اگر ایک دن کام نہ ملے تو اس کے گھر چولہا نہیں جلتا۔ اس ماں کا کیا قصور تھا، جس کا بیٹا اس آگ کا شکار ہو جاتا ہے، اس ملک کا کیا قصور تھا، جس نے ہمیں اپنی گود میں پناہ دی ہوئی ہے، ان رکشوں، ان بسوں، ان موٹر سائیکلوں، ان ٹائروں، ان درختوں، ان سبزیوں، ان پھلوں کا کیا قصور تھا، جنہیں نذر آتش کیا گیا۔ کیا اب بھی ہم نہیں  مانتے کہ ہم حد سے زیادہ انتہاء پسند نہیں ہیں، کیا ہم میں سے کسی نے حقیقت جاننے کی کوشش کی، کیا ہم میں سے کسی نے قانون کی بالادستی قائم رکھنے کی کوشش کی، جس  کا اسلام حکم دیتا ہے۔ کیا  ہم نے  کبھی یہ جاننے ہی کی کوشش کی کہ اللہ ہم سے کیا کہتا ہے اور اسے ماننے کی کوشش کی۔
 
دنیا کے ہر خطے میں مسئلے مسائل ہوتے ہیں، فیصلے ہوتے، جو نامنظور ہوتے ہیں اور ان کے خلاف آواز بھی اٹھائی جاتی ہے، مگر اس کا کیا یہ مطلب ہے کوئی بھی مسئلہ ہو آپ نے باہر نکل کر ملک کو ہی تباہ کرنا ہے، غریب کو ہی لوٹنا ہے، اپنے بھائیوں کو اذیت ہی دینی ہے۔ ہر جگہ مظاہرے ہوتے ہیں، مگر وہ انسانیت کو یوں سرے عام  روندتے نہیں ہیں، وہ جانتے ہیں کہ انہیں پرامن طریقے سے قانون اور انسانیت کی حدود کے اندر رہ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔ توڑ پھوڑ کئے بغیر اور دوسروں کو تکلیف دیئے بغیر بھی بات منوائی جاسکتی ہے۔ ہم کیوں ہر بات پر مشتعل ہو جاتے ہیں، ہم کیوں ہر بات پر ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیتے ہیں، ہم کیوں دوسروں کو تکلیف دیئے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم ایک غلط فیصلے کو صحیح کرنے کے لئے کئی غلط  قدم اٹھاتے ہیں، ہم کوئی بھی کام درست طریقے سے کیوں نہیں کرسکتے ہیں۔

ہم کس سمت جا رہے ہیں، ہم کس ڈگر پر چل پڑے، کیا جن کو ماننے کے ہم دعوے کرتے ہیں، ان کی مان بھی رہے ہیں یا بس زبان سے ہی دعوے کرتے ہیں، کیا ہمیں اس پر تھوڑی دیر سوچنا نہیں چاہیئے۔ ہمارے مذہبی لیڈر ہوں یا سیاسی لیڈر سب کے پاس ایک ہی طریقہ ہے بات منوانے کا اور وہ ہے توڑ پھوڑ کا اور اس میں نقصان صرف اور صرف غریب عوام کا ہوتا ہے یا ملک کا۔۔۔۔۔ بس اللہ ہمیں معاف کرے۔
دیکھ ذرا تیرے عشق کی انتہا یہ کیسے چاہتے ہیں
سڑکوں پر ٹائر جلاتے ہیں اور  اذیت دیتے ہیں
زبان سے تیرے نام کے نعرے لگاتے ہیں
 اور ہاتھ سے تیرے ہی لوگوں پر ڈنڈے اٹھاتے ہیں 
خود کو تیرے پیغمبر کا عاشق کہتے ہیں
مگر مانتے انکی ایک نہیں ہیں، یہ کیسا  عشق ہوا
جو لڑتے رہے ساری عمر انسانیت کے لئے  
آج انہی کے نام کے سہارے روندا جا رہا انسانیت کو
جن کا دین ایمان تھا صرف اور صرف انسانیت
انہی کے ماننے والے مانتے نہیں بات ان کی
(آس)
خبر کا کوڈ : 759231
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش