0
Wednesday 5 Dec 2018 05:29

یقین کی کمی

یقین کی کمی
تحریر: اسماء طارق، گجرات

میں یونیورسٹی سے واپس آنے کے لئے بس میں بیٹھتی ہوں کہ جلدی گھر جا سکوں، پورا دن کام کرنے کی وجہ سے کافی تھک گئی تھی، اب بس خواہش تھی کہ کسی طرح جلدی سے یہ آدھے گھنٹے کا سفر ختم ہو جائے، میرا سٹاپ آجائے اور میں پل بھر میں وہ پانچ منٹ کا فاصلہ طے کرکے گھر پہنچ جاوں، مگر جیسے ہی  سٹاپ پر اترتی ہوں تو سامنے دیوار پر لگے اشتہار پر نظر  پڑتی ہے، جس نے جہاں دیوار کو بدنما بنایا ہوا تھا، وہیں وہ اپنے آپ میں بھی بڑا بدنما تھا۔۔۔ حالانکہ یوں تو اشتہار لگانا منع ہے مگر ہم لوگ کب منع ہوتے ہیں اور خاص طور پر اس کام کو تو ہم لازمی ہی کرتے ہیں، جس سے ہمیں منع کیا جاتا ہے۔ خیر چھوڑیں اس بات کو، چلیے اشتہار کے متعلق بات کرتے ہیں۔۔ ہاں تو میں کہہ تھی کہ وہ اشتہار انتہائی بدنما تھا،  جس کا مقصد معاشرے میں انتشار پھیلانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ جو کسی کالی مائی کے کرامات کو چیخ چیخ کر بیان کر رہا تھا اور دیوار پر ظلم و ستم ڈھا رہا تھا۔

جیسا کہ اس پر تحریر تھا کہ کالی مائی، کالے علم کی ماہر آپ کے سب کام صحیح کر دے گی، شوہر کو بیوی کا غلام، بیوی کو شوہر کے ماتحت، دشمنوں کا خاتمہ، من کی مرادیں پوری ہو جائیں گی، محبوب قدموں میں، اولاد نرینہ کا حصول، پسند کی شادی، مقبولیت کا حصول، امتحان میں کامیابی، کاروبار میں ترقی، سسرال میں راج، میکے میں حکومت مل جائے گی۔۔ یہ سب پڑھنے میں جہاں بہت دلچسپ وہیں  انتہائی مضحکہ خیز بھی تھا، کیونکہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر سارے مسائل ان کالی مائی بابوں کے ہاتھوں درست ہونے لگے تو پھر آج کوئی بھی پریشان نہ ہوتا۔۔ اب میں بھول ہی گئی تھی کہ مجھے پل بھر میں گھر میں جانا ہے، کیونکہ اب میرا سارا راستہ اسی چیز کے متعلق سوچنے میں  گزر رہا تھا۔

جب حالات ناگوار ہوتے ہیں اور انسان کا کوئی کام نہیں ہو رہا ہوتا تو وہ سمجھتا ہے ضرور کسی کی طرف سے کوئی بندش ہے۔ دن بدن انسان کا یقین ڈگمگانے لگتا ہے اور وہ اسی سوچ کی طرف مائل ہو جاتا ہے، جس کے  نتیجے میں وہ تعویذ دھاگوں کا سہارا لینے لگ پڑتا ہے، اسی طرح کالے جادو تک بات پہنچ جاتی ہے اور انسان اپنا کام سیدھا کرنے کے لئے ہر الٹے سیدھے کام کرتا ہے، پھر فقیر بابے اور مائیاں ایسے لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کے سارے کام ان کی مرضی کے مطابق کر دیں گے، انسان ان کے چنگل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور ایسا پھنس جاتا ہے کہ پھر  مکمل طور پر تباہ و برباد ہونے پر ہی سمجھ آتی ہے کہ وہ کیا کرتا رہا، کچھ کو تو تب بھی نہیں آتی۔

جادو ٹونا ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جا رہا ہے، جو بہت خطرناک صورتحال کا پیش خیمہ ہے۔ اس کے چکر میں کئی گھر اجڑ جاتے ہیں، خاندان کے خاندان تباہ و برباد ہو جاتے ہیں مگر ہمیں سمجھ نہیں آتی۔۔۔ خدا ہی اس لعنت سے بچائے۔ لوگ کبھی اپنے مسائل کے حل کیلئے، کبھی اپنوں کے لئے، کبھی اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے ایسے لوگوں کے در پر جا کر بھیک مانگتے ہیں، پیسے بھی تباہ کرتے ہیں اور اپنا بھی کوئی حال نہیں چھوڑتے مگر ملتا کچھ نہیں ہے۔۔ ہماری خواتین خاص طور پر اس لعنت کا شکار ہیں، اس کی بنیادی وجہ کمزور یقین ہے، اگر ہم اپنے کام جادو ٹونے کی بجائے  اللہ پر بھروسہ رکھ کر خود کرنے کی کوشش کریں تو شاید بہتری آ بھی جائے۔ نہ جانے  ہم خود کیوں اللہ سے نہیں مانگتے، ایسے لوگوں کا سہارا کیوں ڈھونڈتے ہیں، حالانکہ وہ تو ہر پل کہتا ہے کہ مجھ سے  مانگو۔۔ اس کے در پر وقت تو لگ سکتا ہے مگر مایوسی کبھی نہیں ملتی۔

انسان جادو ٹونے کے ذریعے تو ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا مگر خود کوشش کم ہی کرے گا اور ان کاموں میں پڑ کر وہ سب کچھ کہیں بھول ہی جاتا ہے۔ شاید کچھ چیزیں کبھی اس کے حق میں ہو بھی جائیں، اس کالے جادو کے حصار میں آکر بدل بھی جائیں، مگر یہ سب عارضی ہوتا ہے، ایسی چیزیں کبھی دائمی اثر نہیں رکھتیں۔ ان کی ایک مدت ہوتی ہے، مدت ختم اثر ختم۔ پھر اس جال میں پھنسنے والے کا انجام شروع ہو جاتا ہے اور وہ انتہائی اذیت ناک ہوتا ہے۔ برائی کسی بھی شکل میں کیوں نہ ہو، اس سے کچھ  بھلا نہیں ہوسکتا، وہ آخر میں انسان کو تباہ و برباد کر ہی دیتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 764962
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش