0
Tuesday 18 Dec 2018 16:26

کشمیری عوام سے بے اعتنائی

کشمیری عوام سے بے اعتنائی
رپورٹ: جے اے رضوی

کشمیر کی فضاؤں میں ماتم اور مایوسیوں کے بادل جس شدت کے ساتھ گہرے ہوتے جارہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے کہیں سے اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں جس انداز سے شہریوں کا خون بہایا گیا، وہ حالات سے نمٹنے کے لئے حکومت کا ایک پالیسی انداز دکھائی دے رہا ہے۔ وگرنہ مظاہرین کی جانب ست پتھراؤ کے واقعات بھارت کی کس ریاست میں پیش نہیں آتے اور کہاں ہجوم پر اس انداز سے گولیاں برسائی جاتی ہیں کہ بدن کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہ رہے۔بھارتی حکام کی جانب سے ہمیشہ معیاری ضابطہ کار کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کشمیر میں امن و قانون کے اداروں کے لئے اس ضابطہ کار کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ اس طرح بھارتی فورسز نہ صرف آئین و قانون کے ضوابط کی دھجیاں بکھرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ اس طریقہ کار کو اپنی ضروریات کا حصہ جتلا کر جمہوریت کے ان بنیادی تقاضوں سے منکر ہو رہے ہیں، جو عام لوگوں کو آئینی اور جمہوری حقوق فراہم کرنے کے پابند ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں خاک و خون کی جو ہولی کھیلی گئی ہے، اُس پر مقامی سطح پر ردعمل آنا منطقی ہے لیکن ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سنجیدہ فکر طبقوں کی جانب سے جس انداز سے ردعمل آنا شروع ہوا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا اس طرز عمل کو ایک پالیسی کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں، بھلے ہی نئی دہلی کے ایوانوں میں براجمان مقتدرانِ وقت اسے کشمیر مسئلے کے حل کی واحد صحیح سمت تصور کریں۔ حالانکہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ان کی یہ سوچ قطعی طور صحیح نہیں ہوسکتی، کیونکہ ماضی سے چلی آرہی دباؤ کی پالیسی کا منطقی نتیجہ تشدد کے ماحول میں اضافے کے سوا کچھ سامنے نہیں آیا ہے۔ چنانچہ دھونس دباؤ اور انتہا پسندانہ طرز عمل کی سوچ کے ردعمل میں عوامی جذبات اور مجموعی سوچ میں مزید شدت آنے کا احتمال پیدا ہوسکتا ہے، کیونکہ عوام کے سینوں کے اندر لگے زخموں سے اُٹھنے والی ٹیس اعتدال اور توازن کی فضاء کو متاثر کئے بغیر کہاں رہ سکتی ہے۔

ایسے میں حالات کے اندر سدھار پیدا کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ و حکومت پر عائد ہوتی ہے جو کم از کم قابض فورسز کی جانب سے معیاری ضابطہ کار پر عمل آوری کو ممکن بنانے کی پوزیشن میں ہے، لیکن یہ تب ممکن ہوسکتا ہے، جب اس کا ارادہ دیانتدارانہ ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ طاقت کے مظاہرے کی سوچ اور پالیسی میں تبدیلی لائی جائے، نیز کم از کم ان قوانین اور ضوابط پر عملدرآمد کرنے کا ماحول پیدا کیا جائے، جو ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے موجود ہیں۔ حکومت کی جانب سے پلوامہ خوان خرابے کی تحقیقات کا اعلان کیا گیا لیکن ایسے اعلانات پر کشمیری عوام کا یقین کرنا بہت ہی مشکل ہے، کیونکہ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ فکر طبقے ایسے اعلانات کو وقت گزاری کے علاوہ کچھ اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

رواں برس کے دوران ہی ضلع شوپیان میں اسی نوعیت کی ہلاکت پر بھارتی فوج کے خلاف ’’ایف آئی آر‘‘ درج کرکے محبوبہ مفتی کی قیادت والی اس وقت کی حکومت نے تحقیقات کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے ردعمل میں بھاجپا کی جانب سے متعلقہ ’’ایف آئی آر‘‘ کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ پھر تحقیقات کا کیا ہوا، وہ ہنوز ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ حالانکہ حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے اُن ایف آئی آروں کو برقرا رکھنے کا فیصلہ صادر کیا، جو افسپا کے نفاذ والے شمالی مشرقی علاقوں اور جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور جنہیں رد کرانے کی غرض سے عدالت عظمٰی میں عرضی دائر کی گئی تھی، جسے عدالت نے خارج کردیا۔ اس سے قانون کے مزاج کی عکاسی ہوتی ہے لیکن زمینی سطح پر ان ہی قوانین کو کس طرح نافذ کیا جاتا ہے، یہ شاید بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کے طرز عمل سے دوریاں کم ہونے کے بجائے ان میں مزید اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے اور اگر بھارتی حکام یا ان کے مقامی آلہ کار اس امر کے خواہاں ہیں کہ فاصلے کم ہوں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہلاکتوں کے لئے ذمہ دار افراد کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرکے قانون کے تقاضوں کی تکمیل ہو۔ اسی عنوان سے غم و غصہ اور نفرت کی فضاء قدرے صاف ہوسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 767312
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش