0
Tuesday 25 Dec 2018 23:30

کشمیر و فلسطین اور منافع پرست عقل

کشمیر و فلسطین اور منافع پرست عقل
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

اپنے گردوپیش میں موجود زرق و برق پر ایک نگاہ ڈالئے، دنیا کس قدر مجلل، خوبصورت، حسین اور دلکش ہے، انسانوں نے سمندروں میں جزیرے آباد کر لئے ہیں، جنگلوں میں شہر بسا لئے ہیں، شہروں میں پارک بنا لئے ہیں، پارکوں میں چڑیا گھر اور چڑیا گھروں میں انواع و اقسام کے چرند پرند لاکر بٹھا دئیے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ تبدیلی دل کے آپریشن سے لے کر متعدد مہلک بیماریوں کے علاج تک انسان ہر طرف کامیاب و کامران نظر آرہا ہے۔ جہاں ایک طرف زمین آباد ہو رہی ہے، وہیں لمحہ بہ لمحہ جدید ٹیکنالوجی اور ماڈرن علوم سے لیس بھی ہو رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سارے کام نفع بخش ہیں اور بڑی بڑی کمپنیاں، ملک اور تاجر اس طرح کے کاروبار کرکے مسلسل منافع کمائے جا رہے ہیں، البتہ یہاں پر یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ کیا عقل کا کام فقط منافع اور پیسے کمانا ہی ہے!؟

کیا یہ انسانی عقل جو خوردبین سے لے کر سیٹلائٹ تک کو  ایجاد کرسکتی ہے، مہلک بیماریوں پر قابو پاسکتی ہے، مہلک ترین ہتھیار ایجاد کرکے ان کا توڑ پیش کرسکتی ہے، کیا یہ انسانی عقل اگر چاہے تو انسانی سماج کے باہمی مسائل خصوصاً کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کو حل نہیں کرسکتی۔ کیا دنیا میں بسنے والے اربوں انسان! کشمیر اور فلسطین میں بوڑھوں، بچوں، عورتوں، زخمیوں اور مہاجرین پر ہونے والے ظلم کی کراہت کو محسوس نہیں کرسکتے! ہاں! انسانی عقل کا پست ترین مقام وہ ہے جب انسانی عقل خواہشات و لذتوں کی اسیر ہو جاتی ہے اور اچھائی و برائی کی تمیز کھو دیتی ہے۔ ممکن ہے ایک شخص جسمانی طور پر کشمیر یا فلسطین میں پیدا ہوا ہو، لیکن اس کی عقل مادی منافع اور دنیاوی لذتوں کی اسیر ہو کر آزادی اور غلامی کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص ہندوستان یا اسرائیل میں پیدا ہو، لیکن وہ عقلی اعتبار سے مادی منافع اور دنیاوی لذتوں کا اسیر ہونے کے بجائے آزادی اور غلامی کے درمیان تمیز اور فرق کا قائل ہو۔

آج کشمیر اور فلسطین کی غلامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مشرق و مغرب سے ہٹ کر خود کشمیر اور فلسطین کے بہت سارے سیاستدان، اچھائی اور برائی، آزادی اور غلامی کے درمیان فرق اور تمیز کے قائل ہی نہیں ہیں۔ باقی دنیا سے کیا گلہ، خود بعض کشمیری اور بعض فلسطینی سیاستدان بھی اپنے اپنے منافع اور کمائی کے پیچھے ہیں۔ یہ لوگوں کے بچوں کی لاشوں پر سیاست کرتے ہیں، نعروں کے درمیان ظاہر ہوتے ہیں اور پریس کانفرنسیں کرکے غائب ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک عام کشمیری اور فلسطینی اس کے سوا اور کیا کرسکتا ہے کہ وہ پتھر لے کر ٹینک کے سامنے آجاتا ہے۔ انسانی تحریکوں کا خطرناک موڑ وہ ہوتا ہے، جب ان کی معقول جدوجہد کا راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ تقریباً اس وقت فلسطینی اور کشمیری اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ اگر ہم دنیا کو کسی بڑے انسانی المیے، تصادم اور نقصان سے بچانا چاہتے ہیں تو ہم سب کو اپنی سوچ اور فکر کو تبدیل کرنا ہوگا۔ منافعے اور پیسے کی دوڑ میں مگن ہر مشرقی و مغربی انسان کو اچھائی اور برائی، ظالم اور مظلوم نیز آزادی اور غلامی میں فرق کرنا ہوگا اور یہ ماننا ہوگا کہ آزادی ہر انسان کا فطری حق ہے، جس سے کسی کو زبردستی محروم نہیں کیا جا سکتا۔

کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ پیدا کرنے، اس مسئلے کو جدید اسلحے کی آنچ دینے اور مزید الجھانے والوں کے لئے بھی بہتر یہی ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کے سارے معقول دروازے کھول دیں۔ ورنہ اپنے گردوپیش میں موجود زرق و برق پر ایک نگاہ ڈالیں، یہ خوبصورت دنیا بارود کے ڈھیر پر کھڑی ہے۔ اس خوبصورت دنیا میں اسلحے کے منافع خور ڈیلروں کو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر ان مسائل کا کوئی معقول حل نہ نکالا گیا تو اب کی بار شاید نہ کوئی اسلحہ بیچنے والا باقی رہے اور نہ خریدنے والا۔ بے شک مغربی دنیا آج ان مسائل کی وجہ سے طرح طرح کا مالی و مادی منافع کما رہی ہے، لیکن اب یہ مسائل اس حد تک گھمبیر ہوچکے ہیں کہ ان کے حل نہ ہونے کی صورت میں مغرب کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ آج کے لئے اتنا کافی ہے کہ مغربی منافع پرست عقل جو ہر مسئلے میں اپنا منافع ڈھونڈتی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ وہ  اگلے چند سالوں میں ان مسائل کے باعث اپنے متوقع نقصانات کا تخمینہ بھی لگائے۔ ممکن ہے کچھ سالوں میں مغربی دنیا کے نقصانات کا تخمینہ، مفادات سے زیادہ نکل آئے۔ چونکہ مغربی دنیا کو ایک ادنیٰ سا نقصان یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا کے نقشے پر اسرائیل کا وجود ہی نہ رہے۔۔۔ اور دوسری طرف ہندوستان کو بھی روس کا انجام سامنے رکھنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 768668
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش