0
Monday 11 Feb 2019 23:45

مغربی جمہوریت کے فروغ میں پیسے کا کردار

مغربی جمہوریت کے فروغ میں پیسے کا کردار
تحریر: فلپ فیروجیو (Philip A Farruggio) (امریکی صحافی)

ایک اور سال بیت گیا اور نئے سال کا دروازہ کھل چکا ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو ڈیموکریسی نامی جھوٹ کی ہمیشگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایسا جھوٹ ہے جس میں ہم سب شریک ہیں۔ سیاست دانوں کو اپنے عہدوں تک پہنچنے اور انہیں اپنے ہاتھ میں رکھنے کیلئے جھوٹ بولنے کی ضرورت ہے۔ جھوٹ ہمارے سلطنتی میڈیا خاص طور پر مین اسٹریم نیوز (ماڈلز، فلم اسٹارز کے ساتھ انٹرویو جو صحافیوں کا روپ دھار کر کروڑوں ڈالر کماتے ہیں) کی جڑوں میں بیٹھ چکا ہے۔ دو "سلطنتی نوکر" یعنی دو سیاسی جماعتوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کے حامی میرے اکثر دوستوں اور پڑوسیوں کی طرح اس جھوٹ کے خریدار ہیں۔ اجازت دیں اس بڑے شہر پر دھند کی طرح چھائی حقیقت کے بارے میں زیادہ واضح طور پر گفتگو کروں: جب تک ہم ذاتی پیسوں کو اپنی الیکشن پالیسیوں میں شامل ہونے کی اجازت دیتے رہیں گے ہر گز ایک حقیقی جمہوریت کی لازمی بنیادیں معرض وجود میں نہیں آئیں گی۔۔۔۔ہر گز۔
 
آپ صرف اس بات کا تصور کریں کہ اگر ذاتی مفادات رکھنے والے دولت مند حضرات الیکشن کمیپین کی مدد کے بہانے سیاست دانوں کو رشوت نے دے سکیں تو کیا ہو گا؟ شاید ایسی صورت میں ہم ذرہ بھر اقتصادی انصاف اور صحت مند معاشرے کا مشاہدہ کر سکتے۔ بڑی بڑی آئل اور آٹوموبائل کمپنیاں یہ یقین دہانی حاصل کر چکی ہیں کہ کانگریس کم ایندھن استعمال کرنے والی گاڑیاں بنانے کے قوانین کی منظوری نہیں دے گی۔ رالف نیدر صرف کچھ کم ایندھن کے معیارات حاصل کرنے کیلئے دسیوں سال دباو ڈالتا ہے اور آج ہمارے پاس ان گاڑیوں کے سوا اور کچھ نہیں جو چند کلومیٹر طے کرنے کیلئے کئی لٹر پٹرول استعمال کرتی ہیں۔ اس کے بعد میڈیسن کی بڑی صنعتوں کی باری آتی ہے جو ہمارے سیاسی نظام میں "قانونی رشوت دیتی ہیں" تاکہ مارکیٹ میں غیر محفوظ دوائیں داخل ہو سکیں۔ مثال کے طور پر حفیم والی دواوں کے بحران نے ثابت کر دیا ہے کہ واقعی ایسے افراد موجود ہیں جو مطلع ہونے کو اہمیت نہیں دیتے۔ اس قسم کی بہت سی دواوں کو مارکیٹ میں داخلے کی ہر گز اجازت نہیں ملنی چاہئے تھی۔ آپ خود جا کر تحقیق کریں تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ کتنے امریکی شہریوں نے اس مسئلے پر توجہ دی ہے کہ کتنے افراد نے ڈپریشن کی دواوں کے باعث خودکشی کر لی ہے۔
 
انشورنس کی بڑی بڑی کمپنیاں امریکی شہریوں کی میڈیکل دیکھ بھال، یا بہتر ہے کہیں میڈیکل کی عدم دیکھ بھال پر مسلط ہو چکی ہیں۔ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد والی نسل کے ایک فرد کے طور پر جس ڈاکٹر کے پاس بھی جاتا ہوں وہ مجھ سے میڈیکل انشورنس کارڈ تک نہیں مانگتا۔ واحد کام جو ان پر لازمی ہے وہ میرے انشورنس کارڈ پر نظر ڈالنا ہے۔ ایک ڈاکٹر نے انفکشن کی خاطر آپریشن کرنے کیلئے مجھ سے پرائیویٹ انشورنس سے دو گنا زیادہ مانگے ہیں۔ میری زوجہ جو مجھ سے دس سال چھوٹی ہے کسی بڑے میڈیکل انشورنس کی سہولت سے برخوردار نہیں۔ ہم بہت کم ہی اپنے میڈیکل اخراجات پورے کر پاتے ہیں۔ ہمیں ہمارا نمائندہ کہلوانے والے ان مکار چوروں سے پوچھنا چاہئے کہ وہ کس قسم کی انشورنس سے برخوردار ہیں۔ ایسی انشورنس جس کے اخراجات ہمارے ادا کئے جانے والے ٹیکسوں سے پورے کئے جاتے ہیں۔ پس جب بھی یہ سبز ڈیموکریٹس تمام امریکی شہریوں کیلئے میڈیکل دیکھ بھال سے متعلق منصوبے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے اس اقدام کے نتیجے میں پانچ کروڑ یا اس سے بھی زیادہ امریکی شہری یرغمال بنائے جا رہے ہوتے ہیں۔
 
جب بھی ہم اپنے ٹی وی پر کسی اہم کھیل کا مشاہدہ کرتے ہیں سب دیکھ سکتے ہیں کہ یہ "فوجی صنعتی سلطنت" کس قدر طاقتور ہے۔ ہر چیز سے پہلے وہ امریکہ کا غول پیکر پرچم پورے گراونڈ پر پھیلا دیتے ہیں، "گارڈ آف آنر" لاتے ہیں اور سب مل کر قومی ترانہ گاتے ہیں۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم "جنگ" کی حالت میں ہیں اور ہمیں اپنے بہادر سپاہیوں کا احترام کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ اگر وہ واقعی ہمارے سپاہیوں کا احترام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ ہمارے سپاہیوں کو جہنم سے باہر نکالیں۔ وہ جہنم جہاں انہیں اصول طور پر بھیجنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ ہمارے سیاسی، میڈیا اور فوجی رہنماوں کے بیٹوں اور پوتوں کو ان دور افتادہ صحرائی اڈوں میں بھیجیں۔ ہم نے انتہائی مشکل سے کمائی ہوئی آمدن کا جو ڈالر فیڈرل حکومت کو ٹیکس کے طور پر دیا ہے اس کا نصف سے زیادہ حصہ فوجی اخراجات کی مد میں جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے شام اور افغانستان (وہ مقامات جہاں ہم غیر قانونی طور پر موجود ہیں) سے کئی ہزار فوجی واپس بلانے کا سیاسی فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نے افغانستان میں موجود بے شمار فوجی اڈے اور دنیا کے دیگر سو ممالک (مجھے اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ دنیا میں سو ممالک موجود ہیں) میں ہزار کے لگ بھگ فوجی اڈے بند نہیں کئے۔
 
یہ تمام فوجی اڈے نظریہ ضرورت کے تحت بنائے گئے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ تک تمام سابقہ امریکی صدور مملکت نے ایک ہی بات کی ہے: "ان کا مطلب جنگ ہے۔" جب تک ملک چلانے کیلئے ہمارے شہریوں کا انحصار دو پارٹیوں پر مبنی نظام پر ہے اور جب تک الیکشن مہم میں پیسہ جانے کا راستہ کھلا ہے کسی قسم کی جمہوریت کا قیام ممکن نہیں ہو سکتا۔ حتی اچھے اور مہذب سیاست دانوں کا دامن بھی داغدار ہو جاتا ہے۔ ایلی نویز سے مرحوم سینیٹر پال سائیمن جو سیاست سے پیسہ نکلنے کے شدید حامی تھے نے درج ذیل واقعے کی تصدیق کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جن دنوں وہ اپنی الیکشن مہم چلا رہے تھے ایک رات جب اپنے ہوٹل میں واپس لوٹے تو دیکھا کہ ان کیلئے کچھ پیغامات وہاں پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا: "میں نے پیغامات پڑھے اور یقین کریں جیسے ہی میں نے پہلی کال کا جواب دیا دوسری طرف ایک ایسا شخص تھا جو خود کو میری الیکشن مہم کا اسپانسر کہہ رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب کام اسی طرح انجام پاتے ہیں۔" سینیٹر پال سائیمن نے یہ ماجرا بیس برس پہلے بیان کیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 777423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش