1
Sunday 24 Feb 2019 09:43

پاک ایران تعلقات اور عالمی سازشیں

پاک ایران تعلقات اور عالمی سازشیں
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

اسلام ٹائمز کے مطابق ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں سعودی حمایت یافتہ تکفیری، ہندوستان اور افغانستان سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے لئے مخاصمانہ اقدامات انجام دے کر مسائل پیدا کر رہے ہیں اور پاکستان کو اس بات کو صحیح طریقے سے درک کرنا چاہیئے۔ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے جمعرات کی شب ایران کے شمال میں واقع بابل شہر میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقدہ ایک پروگرام میں تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ پاکستان کے عوام اور حکومت کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیئے کہ سعودی عرب کے پیسے تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھ لگیں اور پاکستان کو دنیا کے مدمقابل لا کھڑا کر دیں۔

جنرل قاسم سلیمانی نے کہا کہ ایران، پاکستان کے لئے ایک قابل اعتماد ہمسایہ ملک ہے اور وہ کبھی بھی اسلام آباد کے لئے خطرہ نہیں بنے گا، تاہم اسلامی جمہوریہ ایران ان تکفیری ایجنٹوں سے کہ جن کے ہاتھ ایرانی جوانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، سخت انتقام ضرور لے گا۔ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے کہا کہ سعودی حکومت کا ہدف پاکستان کو برباد کرنا ہے۔ انہوں نے تاکید کی کہ پاکستان کی فوج اور حکومت کو سعودی عرب کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیئے کہ چند ارب ڈالر کے عوض پاکستان کو پڑوسیوں کے ساتھ الجھا دے۔

جنرل قاسم سلیمانی نے تاکید کے ساتھ کہا کہ "ہم نے ہمیشہ پاکستان کو سمجھایا کہ ہم علاقے میں تمہاری مدد کرتے ہیں، مگر حکومت پاکستان سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کدھر جا رہی ہے، این تذہبون؟؟ تم نے تمام پڑوسیوں کی سرحدوں میں بدامنی پھیلا رکھی ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے تم ہی بدامنی پھیلانا چاہتے ہو۔" انہوں نے کہا کہ میں خبردار کرتا ہوں کہ ایران کو مت آزماؤ اور جس نے بھی ایران کو آزمایا، اسے منہ توڑ جواب ملا۔ قدس بریگیڈ کے کمانڈر نے کہا کہ جس نے بھی پاکستان کے لئے یہ منصوبہ تیار کیا ہے، اس کا مقصد ہی پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔

 ادھر تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ ایران ہمارا مسلم برادر ملک ہے، ایران کے ساتھ تعلقات کی نوعیت مختلف ہے، پاکستان، افغانستان اور ایران کے درمیان بہترین کوآرڈینیشن موجود ہے۔ آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاکستان مشترکہ سرحدوں کی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے تعاون سے مشترکہ سرحد کے امن کو یقینی بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایران سے متعلق سرحدی امور یا تعلقات کو افغانستان کے ساتھ سرحدی مسائل اور بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا، ایران ہمارا برادر ملک ہے۔ انہوں نے زاہدان دہشتگرد حملے سے متعلق کیا کہ جی ہاں یہ واقعہ رونما ہوا ہے، لیکن میں کہنا چاہتا ہوں کہ تیسرے فریق کی موجودگی نہ ایران اور نہ ہی پاکستان کے لئے فائدہ مند ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد کو مضبوط بنانے کے لئے باڑ لگانا شروع کر دی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ایسا منصوبہ ایران کی رضامندی سے مشترکہ سرحدوں پر بھی شروع کریں۔ پاکستان کے خبری ذرائع نے آصف غفور کے حوالے سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے زاہدان واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی سرحدی فورسز کی توجہ ہندوستان اور افغان بارڈر پر زیادہ ہے، جسکی وجہ سے پاک ایران سرحد پر اسطرح کے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں جرنیلوں کے بیانات پڑھ کر پاک ایران تعلقات کی موجودہ صورت حال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان دو اہم فوجی جرنیلوں کے بیانات کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بات مدنظر رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے یہ بیانات شہداء کی تعزیتی مجلس میں گہرے غم و غصے کی حالت میں دیئے گئے ہیں جبکہ پاکستان کے فوجی ترجمان کے بیانات ایک پریس کانفرنس میں تمام تر سفارتی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح کا لب و لہجہ ایرانی سفارتکاروں کے بیانات میں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ اس طرح کی صورت حال سے اسلام دشمن طاقتیں بھرپور استفادہ کرتی ہیں۔
                              
آج دنیا گلوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے پر ہونے والا کوئی بھی عمل صرف اس علاقے، شہر یا ملک تک محدود نہیں رہتا۔ دنیا کے ایک دوسرے کے اتنے قریب آنے کے جہاں فوائد ہیں، وہاں عالمی سامراجی ادارے اس فرصت سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔ عالمی تسلط کے حامی ممالک بالخصوص امریکہ اور اسرائیل نے اپنے مذموم اہداف کے حصول کے لئے اپنے خفیہ اداروں سی آئی اے اور موساد کا جال دنیا بھر میں پھیلا رکھا ہے۔ بدنام زمانہ یہ خفیہ ادارے کہیں بالواسطہ اور کہیں بلاواسطہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے دوسر ے ملکوں کے حکام، حکومتی اداروں، جماعتوں اور خفیہ ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان اور ایران جیسے دو ہمسایہ ممالک بھی ان سازشوں سے محفوظ نہیں ہیں۔

گذشتہ چند روز میں ہمارے خطے میں جو پے در پے واقعات ہوئے ہیں، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی سامراجی طاقتیں اس خطے کو کس طرف لے جانا چاہتی ہیں۔ مثال کے طور پر چودہ فروری کو زاہدان خاش سپر ہائی وے پر خودکش حملہ ہوا،  جس میں ستائیس ایرانی سرحدی محافظ شہید اور متعدد زخمی ہوئے، اس حملے کے ردعمل میں پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل محمد علی جعفری  نے "جیش العدل" کو اس حملے کا ذمہ دار قرار  دے کر کھل کر کہا کہ اس دہشت گرد گروہ کے ٹھکانے پاکستان میں ہیں اور اگر پاکستان نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو ایران بین الاقوامی قانون کے تحت کاروائی کرے گا۔ اسی تناظر میں تہران میں تعینات پاکستانی سفیر رفعت مسعود کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا گیا۔ اسی دوران اسلام آباد میں تعینات ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے پاکستان کے فوجی ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو میں پاکستانی فوجی قیادت سے ملاقات کی۔ ایرانی پارلیمنٹ  کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ نجفی خسروی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگرچہ دہشت گرد پاکستانی زمین استعمال کر رہے ہیں، مگر ایران کو پاکستان کی مشکلات کا احساس ہے۔ در این اثناء صدر ایران کے ایک مشیر نے ٹویٹ کیا کہ جنہیں ایرانی سلامتی کی پرواہ نہیں، انہیں اپنی سلامتی کی فکر کرنا چاہیئے۔

اسی دوران ایک غیر متوقع واقعہ پیش آیا، جب سولہ فروری کو ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج نے یلغاریہ جاتے ہوئے تہران میں مختصر قیام کے دوران ایرانی نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی سے ملاقات کی، اس ملاقات میں ایران کے شہر زاہدان کے قریب اور پلوامہ دھماکے دونوں کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قریبی تعاون کی بات کی گئی۔ اس بیان کی گونج ابھی میڈیا میں موجود تھی کہ سترہ فروری کو سعودی ولی عہد لاؤ و لشکر سمیت پاکستان پہنچ گئے۔  اسی دوران پاکستان نے زاہدان دھماکے کے حوالے سے ایران کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کسی حد تک کوشش کی، لیکن سعودی عرب کے مشیر خارجہ عادل الجبیر نے جلتی پر تیل ڈال کر ایران پر دہشت گردی کی حمایت کے بے بنیاد الزامات کی بارش کر دی۔ پاکستانی وزیر خارجہ  شاہ محمود قریشی ہکا بکا رہ گئے، وہ عادل الجبیر کی موجودگی یا گفتگو کے دوران تو اس کے الزامات کو سختی سے مسترد نہ کر پائے، لیکن بعد میں بقول ان کے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے ٹیلی فونک ملاقات میں اپنے موقف کا اظہار کیا اور عادل الجہیر کے الزامات کے نتیجے میں اٹھنے والے طوفان کو کم کرنے کی کوشش کی۔

قابل غور بات یہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری ٹیلی وژن نے عادل الجہیر کے ان الزامات کو لائیو نشر نہیں ہونے دیا، جو ایران کے خلاف تھے بلکہ انکی آواز کو بند کر دیا۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ میں نے ایرانی وزیر خارجہ کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان کوئی دہشت گردانہ سرگرمی برداشت نہیں کرے گا اور ایران ہمارا ہمسایہ ہے اور ہم اس کے لئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کریں گے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں اور سرحدی معاملات میں پاکستان نے ایران کے ساتھ ہمیشہ تعاون کیا ہے۔ ایران اور پاکستان کی وزارت خارجہ کے حکام کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے سفارتکار علاقے کی حساس صورت حال کا ادراک رکھتے ہیں، تاہم بیرونی عناصر جن میں سعودی عرب، افغانستان اور ہندوستان اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی خلیج بڑھا کر گدلے پانی سے مچھلی پکڑنا چاہتے ہیں، البتہ پاکستان کے ذمہ دار اداروں میں بیرونی اشاروں پر فعالیت کرنے والی کچھ کالی بھیڑیں بھی ان اختلافات کو ہوا دینے میں ملوث ہیں۔

پاکستان اس وقت ہندوستان اور افعانستان کے درمیان ایک سینڈوچ بن چکا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کی حالیہ دھمکیاں اور دوسری طرف ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے جنگ پسند میڈیا نے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ پاکستان کی دو سرحدیں مکمل جنگی ماحول پیش کر رہی ہیں۔ پاکستان کی ایران سے ملحقہ سرحد واحد سرحد ہے، جو ہمیشہ پرسکون رہی ہے اور پاکستان کو اس سرحد اور بارڈر سے کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں رہا۔ سعودی، برطانوی اور امریکی ایما پر کچھ طاقتیں پاکستان کی اس سرحد کو بھی ناامن کرکے پاکستان کی مشکلات بڑھانے کی خواہان ہیں۔ پاکستان کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔ پاکستان کی معمولی خطا یا ایرانی سرحدوں پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کسی بڑے سانحے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ پاکستان کو اپنی سیکورٹی فورسز نیز ان میں موجود مبینہ بیرونی ایجنٹوں اور کالی بھیڑوں پر مضبوط گرفت رکھنی ہوگی، کیونکہ ایران کو جس طرح محاصرے میں لینے کی سامراجی سازشیں ہو رہی ہیں، ایران کسی بڑے خطرے سے بچنے کے لیے کوئی ایسی کارروائی انجام دے سکتا ہے، جو پاکستان ایران تعلقات کے لئے گران ثابت ہو۔

ایران وہ پہلا ملک ہے، جس نے پاکستان کو سب سے پہلے سرکاری طور پر قبول کیا۔ پاکستان اور ایران کے عوام مذہبی اور ثقافتی بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان عوام میں اخوت و برادری کا رشتہ برسوں پر محیط ہے۔ پاکستان وہ  ایام ہرگز نہیں بھول سکتا، جب ہندوستان کے خلاف جنگ میں ایران نے پاکستان کو اپنے ائیر بیس بغیر کسی شرط و شروط کے دے دیئے تھے۔ 65 کی جنگ میں ایرانی عوام میں پاکستان سے محبت و اخوت کا اظہار تاریخ کے اوراق مین محفوظ ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان متوجہ رہیں کہ بیرونی مہمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دینا چاہیئے کہ وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر تہران اسلام آباد کے تعلقات خراب کرکے دہلی میں جا کر خود ہندوستان سے تعلقات کی پینگیں بڑھائیں۔ امریکی ایجنڈے پر کاربند یہ عناصر پاکستان کو اپنے مسلمان ہمسایہ ملک سے متصادم کرنے کے درپے ہیں۔ پاک ایران تعلقات کو خراب کرنے والی انہی طاقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عالم اسلام کے عظیم مجاہد اور قدس بریگیڈ کے کمانڈر نے حالیہ دہشتگردانہ واقعہ کے تناظر میں کہا ہے کہ جس نے بھی پاکستان کے لئے یہ منصوبہ تیار کیا ہے، اس کا مقصد ہی پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 779770
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش