1
Friday 22 Mar 2019 11:54

عصر حاضر کے مسلمانوں کے مسائل اور انکا حل سیرت امیرالمومنین (ع) کی روشنی میں (2)

عصر حاضر کے مسلمانوں کے مسائل اور انکا حل سیرت امیرالمومنین (ع) کی روشنی میں (2)
تحریر: تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

فقر سے کیسے بچا جائے؟
آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی میانہ روی اختیار کرتا ہے میں اس کی ضمانت لیتا ہوں کہ وہ کبھی فقیر نہیں ہو سکتا۔ آپ فقیری سے بچنے کا علاج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "اتجروا بارک اللہ لکم" (32) تجارت کرو کہ تجارت تمھیں لوگوں سے بے نیاز کردیگی، حتٰی ذریعہ معاش کی اقسام کو بیان کرتے ہوئے آپ ذریعہٴ معاش کو پانچ حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔(33)
علی (ع) کی نگاہ میں فقر کے عوامل:
کوئی بھی فقیر اپنے معاش سے محروم نہیں ہوتا مگر یہ کہ ایک غنی اس کے مال میں تصرف کرلیتا ہے۔ (34) جو شخص اپنے کام کی زحمت کو نہیں برداشت کرسکتا وہ فقیری کو تحمل کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے۔ (35) اوقات کو تنظیم نہ کرنا اور کسی وقت جو دل میں آئے وہ کام کرنا۔ (36) سوء تدبیر فقر پیدا کرتی ہے۔ (37)

علی (ع) کی نگاہ میں غربت کے اثرات:
لوگ فقیر کو فقیر کی بنا پر حقیر سمجھتے ہیں۔ (38) فقیر کو بہت چھوٹا سمجھا جاتا ہے اور اس کی بات ان سنی کردی جاتی ہے۔ (39) فقیری ایک انسان کو استدلال کے وقت گنگ بنا دیتی ہے۔ (40) جہاں حضرت علی (ع) کی پوری زندگی فقر و ناداری کے خلاف جہاد میں گزری وہیں آج مسلم معاشرے کی اکثریت فقر و ناداری کا شکار ہے جس کی ایک وجہ خود ہماری سستی اور کام سے فرار ہو سکتی ہے جبکہ حضرت علی (ع) معیشت کو سدھارنے کے لئے طاقت فرسا کام انجام دینے سے گریز نہیں کرتے تھے اور آپ لوگوں کی معیشت کو سنوارنا خود پر لوگوں کا حق سمجھتے تھے۔ (41) اب یہ ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کا کام ہے کہ آئے اور بیٹھ کر اپنے معاشرے میں فقیری کی وجوہات تلاش کرے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرے اس لئے کہ جب تک یہ مشکل حل نہیں ہو جاتی معاشرہ مزید فقر و ناداری کے دلدل میں پھنستا جائے گا۔ ماھرین اقتصادیات کے بقول فقر، فقر پیدا کرتا ہے، (42) لہٰذا اس کا ایک حل ہونا چاہیئے جبکہ فقیری ضعف ایمان کا باعث بھی ہے۔ (43) اس لئے کہ اگر اس کا حل خود قوم کے افراد نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ خدا نہ کرے علی (ع) کی آواز صدا بہ صحرا ہو کر رہ جائے، جس میں انہوں نے فقراء کی دسترسی اور ان کی دیکھ بھال کے لئے فرمایا، "اللہ اللہ فی الطبقہ السفلٰی من الذین لا حیلة لھم"۔ (44)

3۔ اتحاد و انسجام:
امام خمینی فرماتے ہیں، ”اگر مسلمان خداوند متعال کے اس فرمان کے مطابق کہ جس میں کہا گیا ہے "واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لا تفرقوا" پر عمل کرتے تو ان کی تمام مشکلات حل ہو جاتیں اور کوئی بھی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ (45) اپنی تمام صفوف کے اندر یک جھتی پیدا کرکے اور آپسی رواداری کو فروغ دے کر بھی ہم آپس کے اختلافات کو ختم کر سکتے ہیں اس لئے کہ افتراق و اختلافات کسی بھی طرح ہمارے فائدے میں نہیں ہیں اور اگر ھم حضرت علی (ع) کی سیرت کا اس زاویہ سے جائزہ لیں کہ آپ نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کئے تو ہمیں آپ کی زندگی سراپا جھاد نظر آئے گی۔ آخر ھم کب تک تشنہٴ اتحاد عروس زندگی کو آپسی اختلافات کے نتیجے میں بہنے والے لہو کی سرخی و غازہ لگاتے رہیں گے؟ کیا ہماری زندگی یوں ہی اختلافات میں گزر جائے گی؟ اگر ہم علی (ع) کے ماننے والے ہیں تو ہمارا تعلق چاہے جس مسلک سے ہو، اگر ہم آپ کی زندگی سے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں دشمن کی نیرنگی چالوں سے بچنے کے لئے اپنے اندر اتحاد پیدا ہی کرنا ہوگا، ورنہ ہم اسی طرح دنیا کو متحرک رکھنے کے لئے اپنا قیمتی سرمایہ لٹاتے رہیں گے، اور دشمن ہمیں گروہوں اور فرقوں میں بانٹتا رہے گا اور ہمارے درمیان اپنے تخت و تاج کی خاطر بغض و عناد کی اونچی دیواریں چنتا رہے گا اور ہمیں اس قدر بےبس کردے گا کہ ہم اسی میں محصور ہوکر رہ جائیں اس لئے کہ اتحاد وہ طاقت ہے جس کے ذریعہ ھم دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی ہر دھمکی کا جواب دے سکتے ہیں چنانچہ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں، ”دیکھو وہ آپ میں متحد تھے تو ان کی حالت کتنی بہتر تھی، مضبوط ارادے تھے آیا اس وقت وہ دنیا پر حاکم نہیں تھے؟“ (46)

گذشتہ امتوں کی عزت و شوکت کا راز بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، تم پر لازم ہے کہ تفرقہ و اختلاف سے دوری اور ایک دوسرے کو اتحاد کی ترغیب اور ان تمام امور سے اجتناب جن سے قدرت ضعیف ہو جائے و۔۔۔(47) حتٰی ایک جگہ آپ فرماتے ھیں، "جو تفرقہ اندازی کرے وہ قتل کا سزاوار ہے چاہے یہ تفرقہ اندازی مجھ سے ہی کیوں نہ سرزد ہو" (48) خود اپنی عملی زندگی میں اتحاد کی خاطر جو فداکاریاں  انجام دیں وہ کسی بھی صاحب بصیرت کے لئے پوشیدہ نہیں۔ آپ کا ۲۵سالہ تلخ سکوت خود پکار پکار کر آواز دے رہا ہے کہ میری خاموشی کا راز اتحاد ہے۔ چنانچہ جب ابوسفیان نے آپ سے کہا کہ علی (ع) اپنے حق کے لئے کھڑے ہو کر کہو تو میں مدینہ کی گلیوں کو سواروں اور پیادوں سے بھر دوں، تو آپ نے جواب دیا کہ مجھے تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔(49) حضرت علی (ع) کی سیرت اور آپ کے اقوال کی روشنی میں یہ تو واضح ہوگیا کہ اتحاد کس قدر اہمیت کا حامل ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے اتحاد کے لئے کس قدر قربانیاں دیں ہیں، اب یہ ھمارے اوپر موقوف ہے کہ ہم علی (ع) کی قربانیوں کو کس قدر محترم رکھتے ہیں؟ اگر ہمیں علی (ع) کی قربانیوں کا کچھ پاس و لحاظ ہے تو آج میں ایک پرچم تلے جمع ہوکر علی (ع) سے وفاداری کا اعلان کرنا چاہیئے، اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس ایک مرکزیت ہو، امام (ع) فرماتے ہیں، ”امت میں حاکم کا مقام اس دھاگے کی طرح ہے جو سارے دانوں کو پروئے ہوئے اور متحد کئے ہوئے ہے، لیکن جب یہ رشتہ اتحاد ٹوٹ جاتا ہے تو سارے دانے بکھر جاتے ہیں اور پھر کسی صورت جمع نہیں ہو سکتے۔" (50) حضرت علی (ع) کے اس حکیمانہ قول سے یہ واضح ہوتا ہے کہ معاشرہ و سماج ایک سرپرست و رھبر کا محتاج ہے، جو لوگوں کو نظریاتی و طبقاتی اختلاف اور تفرقہ و جدائی کے عوامل سے نجات دلاکر ایک مرکز پر جمع کرسکے، اور افتراق و اختلاف کے شگافوں کو پر کرکے طبقاتی دیواروں کو تدبیر کے تیشوں سے ڈھا کر توحید کے پرتو میں اتحاد کا پرچم لہرا سکے۔ راہ حل مل گیا لیکن اب ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ایسا شخص کون ہو سکتا ہے؟۔

4۔ قرآنی تعلیمات پر عمل:
آج جس قرآن کو ہم نے غلافوں میں بند کرکے الماریوں اور طاقوں کی زینت بنا دیا ہے، اس کے بارے میں ہمارے دشمن کا خیال یہ ہے، ”ھمارے اوپر واجب ہے کہ ہم اسلام کے مھلک ترین اسلحے، قرآن کی خدمات حاصل کرسکیں تاکہ اسلام کو مٹایا جا سکے۔“ (51) گلادسٹرون برطانیہ کا یہودی النسل سابق وزیراعظم پارلمینٹ میں یہ جملے کہتا نظر آتا ہے، اسلامی دنیا پر تسلط کے لئے ضروری ہے کہ ہم دو چیزوں کو نابود کریں 1۔ قرآن 2۔ کعبہ ۔“ (52) وہ کتاب جس کے لئے خداوند متعال فرما رہا ہے "کتاب انزلناہ علیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور" (53) آج دشمن اسی کتاب کو اسلام کو مٹانے کے لئے استعمال کر رہا ہے اور ہم اسلام بچانے کے لئے اس کتاب کا صحیح استعمال نہیں کرپا رہے ہیں جبکہ اگر ہم اس کا صحیح استعمال کریں تو ہمارے معاشرے سے برائیاں خود بخود ختم ہو جائیں گی اس لئے کہ قرآن ہر درد کی دوا ہے۔ امام (ع) فرماتے ہیں، قرآن سے اپنی بیماریوں کے لئے شفا طلب کرو اور اس کی مدد سے اپنی مشکلات حل کرو اس لئے کہ قرآن بڑے بڑے دردوں کی دوا ہے، قرآن درد کفر و ضلالت اور درد گمراہی کی دوا ہے۔ (54) دوسری جگہ فرماتے ہیں، "اللہ اللہ فی القرآن لایسبقکم بالعمل بہ غیرکم" (55)۔

5۔ بدعتوں سے مقابلہ:
آپ نے اس وقت بدعتوں سے مقابلہ کے لئے کمر ہمت باندھی جب عالم یہ تھا کہ دین اشرار کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔ (56) آپ بدعت کے بارے میں فرماتے ہیں، کوئی بھی بدعت پیدا نہیں ہوتی مگر یہ کہ ایک سنت ترک کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ (57) حسن بصری کو حضرت علی (ع) نے بدعتوں کے رواج ہی کی بنیاد پر مسجد سے خارج کیا تھا اور اسی بنیاد پر آپ نے اسے اپنی امت کا سامری اور شیطان کا بھائی کہا تھا۔ (58)۔
بدعتوں کو کیسے ختم کیا جائے؟
امر بالمعروف و نہی از منکر اسلام کا ایسا حکم ہے، جس پر اگر صحیح صورت میں عمل ہو تو ہمارے سماج سے بدعتوں کا رواج ختم ہو سکتا ہے، اس لئے کہ یہ وہ فریضہ ہے، جس کے بارے میں مولا فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف و نھی از منکر کو ترک نہ کرو! اس لئے کہ یہ فریضہ اگر ترک ہوگیا تو اشرار تمھارے اوپر مسلط ہو جائیں گے اور پھر تمھاری دعائیں قبول نہ ہوں گی  ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ خداوند متعال نے گذشتہ قوم پر اس لئے ملامت کی کہ انہوں نے امر بالمعروف و نہی از منکر کو ترک کردیا تھا۔
یہ چند وہ بنیادی مسائل تھے جن کا حل سیرت امیر المومنین (ع) اور ان کے اقوال کی روشنی میں پیش کیا گیا لیکن اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کے مسائل اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ جنہیں بیان کیا جا سکے، لیکن اگر مسلمانوں کے تمام مسائل کی اصل وجہ ڈھونڈی جائے تو شاید جستجو اور تحقیق کے بعد یھی وجہ کھل کر سامنے آئے کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کی اصل وجہ مکتب اہلبیت علیھم السلام سے دوری ہے، اسی لئے کسی اور کے پاس جانے کے بجائے ہم اپنے تمام مسائل کا حل اس ذات کی زندگی کے اندر تلاش کریں جس کی نمونہ عمل زندگی کی ھر سانس زندگی بخش ہے اور جس کا کلام رہتی دنیا تک بنی نوع بشر کے زخموں کے لئے مرہم بنتا رہے گا۔

اب تک جن مسائل کا تذکرہ کیا گیا وہ ایسے بنیادی مسائل تھے جن کا تدارک سیرت امیر المومنین (ع) کی روشنی میں خود باآسانی کیا جاسکتا ہے، لیکن چند ایسے مسائل بھی ہیں جن کے تدارک کے لئے ضروری ھے کہ ہم اپنی صفوں کو آمادہ کریں ان ظالم حکام سے جھاد کے لئے جو اسلامی معاشروں کی زبوں حالی کے اصل ذمہ دار ہیں، اگر ان کے سیاہ کرتوت نہ ہوتے تو شاید ہمارے مسائل اتنے زیادہ نہ ہوتے کچھ ایسے افراد کے بارے میں مولائے کائنات فرماتے ہیں، "لیکن مجھے افسوس ہے اس بات کا کہ اپنی املاک اور اس کے بندوں کو اپنا غلام بنالیں گے خدا کے صالح بندوں سے برسر پیکار رہیں گے اور بدکرداروں کے ساتھ اپنا گروہ تشکیل دیں گے"۔(59)۔ مولائے کائنات کے ان حکیمانہ کلمات سے واضح ہوتا ہے کہ خیانت کار حاکموں کی دو خصلتیں ہونگی، جہالت و سفاہت، فسق و فجور اور یہ افراد قوم کو تاراج کرنے کے بعد بیت المال کو اپنا مال سمجھیں گے اور بساط عیش طرب بچھا کر اپنے آقاوں کے حضور سجدہ ریز دنیا کی تباہ کاریوں کے ترانہ گائیں گے اور خدا کے ناتواں بندے ان کے غلام ہوں گے، اب ہمیں سوچنا چاہیئے کہ ایسے افراد کیوں کر مسند حکومت پر پہونچے؟! اور ہم ان کے خلاف کیا کرسکتے ہیں، اس لئے کہ اگر ہم نے ایسے ظالموں کو خلاف کوئی ردّعمل نہیں کیا تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بار پھر مولا کی یہ تعبیر عملی ہو جائے جس کے لئے آپ نے فرمایا، ”اس زمانے کے لوگ بھیڑیئے ہو جائیں گے اور بادشاہ و حکام درندے، متوسطہ طبقہ شکم پرور ہوگا اور غریب و پست طبقہ کے افراد مردہ ہونگے، صداقت ناپید ہو جائے گی اور جھوٹ کا بول بالا ہوگا۔۔۔ اور لوگوں کے قلوب ایک دوسرے سے کشیدہ ہونگے۔“(60)۔

راہ حل:
جب ماحول اس قدر سنگین صورتحال اختیار کر جائے گا تو اس کا حل کیا ہوگا؟ امام (ع) راہ حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ”دیکھو! ایسے بے غیرتوں کی اطاعت سے گریز کرو کہ اپنے صاف پانی کے ساتھ تم نے جن کا گندا پانی پیا اور ان کی خرابیوں کو اپنی اچھائیوں میں ملا دیا اور ان کے باطل کو اپنے حق کے ہمراہ شامل کرلیا، یہ فسق و فجور کی بنیادیں اور ان کا منبع ہیں اور عصیان و نافرمانی کے دلدادہ ہیں، ابلیس نے انہیں اپنی سواری اور گمراہی کا جانور بنا لیا ہے اور ان سے فوج درست کرلی ہے، جن کے ذریعہ وہ لوگوں پر حملے کرتا ہے، ان کی زبانوں سے حملے کرتا ہے تاکہ تمھاری عقل اور تمھارے افکار تم سے چھین لے اور تمھاری آنکھوں میں اتر جائے اور تمھارے کانوں میں وسوسے پھونک دے اور اس کے بعد اپنے زھر آنگیں تیروں سے تمھیں نشانہ بنائے تمھارے سروں پر اپنے قدم رکھے اور آخر کار تمھیں اپنا آلہ کار بنالے۔“ (61) طغیان پیشہ حاکموں کی ناہنجاریوں کے اثرات بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ کس طرح انسانیت کو نابود کرسکتے ہیں، لہٰذا آپ فرماتے ہیں کہ لوگوں کا فریضہ ہے کہ ذلت و خواری اختیار نہ کریں اور ایسے افراد کے آگے سرتسلیم خم نہ کریں، بلکہ ایسے غاصبوں کے حلق میں اپنا ھاتھ ڈال کر اپنا حق نکال لیں۔ یھی اس مسئلہ کا حل ہے۔

نتیجہ گفتگو:
حضرت علی (ع) کی سیرت آئینہ کی طرح شفاف ہے، جس میں ہم اپنے اندر جو موجودہ نقائص کو آسانی کے ساتھ تلاش کرسکتے ہیں لیکن صرف تلاش کرنا ہی کافی نہیں ہوگا، جب تک ہم انہیں دور کرنے کی کوشش نہ کریں، اس لئے کہ آئینہ صرف نقائص کی طرف متوجہ کرتا ہے، اب اگر ہم متوجہ ہوکر بھی کوئی اقدام نہ کریں اور اپنے مسائل کے حل کرنے کے لئے تگ و دو نہ کریں، تو پھر اپنی تمام بدبختیوں کے ذمہ دار ہم خود ہونگے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی انہیں افراد کی طرح ہو جائیں جن کے بارے میں مولا نے فرمایا، ”جب میں نے تمھیں تمھارے بھائیوں کو دعوت کے لئے بلایا تو تم زخم خوردہ شتر کی طرح نالہ و شیون کرنے لگے اور مجروح اونٹ کی طرح حرکت سے باز آئے، اور زمین سے چپک کر بیٹھ گئے اور پھر چند متزلزل و ناتواں افراد کہ گویا جنھیں موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ہو اس طرح انہوں نے حرکت کی (اور یہ بھی کیا حرکت تھی) کہ انہوں نے محض دیکھنے پر اکتفا کیا۔۔۔!“ (62) اس سے پھلے کہ سب کچھ دیکھنے اور کف افسوس ملنے میں ختم ہو جائے، اٹھیں اور کمر ہمت باندھ کر اپنے مولا کی سیرت کو اپنا آئینہ بناکر تمام مسائل کو خود ھی حل کریں۔ اس لئے کہ "انّ اللہ لا یغیر ما بقومٍ حتّی یغیّروا ما بانفسھم" (63

حوالہ جات و حواشی:
۔الفقر موت الاٴکبر۔ نھج البلاغھ، کلمھ 163
33۔ وسائل الشیعھ، ج12، ص4 (انّ معایش الخلق خمسة الامارة، و التجارة، الاجارة، و الصدقات۔۔۔)
34۔ مامنع فقیر الاّ متّع بہ غنی علامہ محمد تقی جعفری شرح نھج البلاغھ، ج10، ص 26۔
35۔ الحیات، ج4، ص 319۔
36۔ الحیات، ج4، ص 33۔
37۔ الحیات، ج4، ص 32۔
38۔ 39۔ 40۔ الحیات، ج4، ص 286۔
41۔ علامہ تقی جعفری، شرح نھج البلاغھ، ج9، ص 25۔
42۔ نگاھی بہ فقر زدائی از دیدگاہ اسلام ص 34۔
43۔ الحیات، ج4، ص 309۔
44۔ نھج البلاغہ مکتوب 53۔
45۔ شناخت کشور ھائے اسلامی ص 36۔
46۔ فانظروا کیف کانوا حیث کانت الاٴملاء مجتمعة و الاٴھواء موٴتلفة و القلوب معتدلة۔۔ اٴ لم یکونوا اٴربابا فی اقطار الاٴرضین و ملوکا علیٰ رقاب العلمین؟ نھج البلاغہ خطبہ 192۔
47۔ (۔۔۔ من الاجتناب الفرقة و اللزوم الاٴلفة و التخاض علیھا و التواصی بھا و الجتنبوا کلّ اٴمر کسر فقرتھم ۔۔۔) وھی مدرک۔
48۔ (۔۔۔ فاقتلوہ و لو کان تحت عما متی ھذہ ۔۔۔) نھج البلاغہ خطبہ 127۔
49۔ طبری ج2 ص449، خلافت و ملوکیت، ابو العلاء مودودی ص 104۔
50۔ نھج البلاغہ خطبہ 146۔
51۔ التبشیر و الاستعمار فی البلاد العربیہ ص40۔
52۔ شناخت قرآن، سید علی کمالی ص 18۔
53۔ ابراھیم 1۔
54۔ (۔۔۔ فاستشفوہ من عدوائکم و استعینوا بہ علیٰ الآوئکم فانّ فیہ شفاء من اکبر الداء و ھو الکفر و النفاق الغیّ و الضلال۔۔۔) نھج البلاغہ خطبہ 174۔
55۔ نہج البلاغہ خطبہ 174۔
56۔ (۔۔۔ فانّ ھذا الدین کان اسیرا فی اٴیدی الاشرار یعمل فیہ بالھواء و تطلب بہ الدنیا۔۔۔) نھج البلاغہ خطبہ 122۔
57۔ (۔۔۔ و ما اٴحدثت بدعة الاّ ترک بھا السنّة ۔۔۔) علامہ تقی جعفری نھج البلاغہ ج24، ص166۔
58۔ الکتّانی التراتیب الاداریة۔ ص272۔ نگرشی بہ تصوّف محمد باقر لائینی۔
59۔ (۔۔۔ و لکن آسی اٴن یلی اٴمر ھذہ الاٴمة سفھاء ھا و فجّارھا فیتخذوا مال اللہ دولا و عبادہ خولا و الصالحین حربا و الفاسقین حزبا فانّ منھم الذی قد شرب فیکم الحرام۔۔۔) نھج البلاغہ مکتوب 62۔
60۔ (۔۔۔ و کان اٴھل ذٰلک الزمان ذئابا و سلاطین سباعا و اٴوساب اٴکلالا و فقراء امواتا۔۔۔) خطبہ 108۔
61۔ (۔۔۔ و لاتطیعوا الاٴدعاء الذین شربتم یصفوکم کدرھم و خلطتم بصحتکم مرضھم و اٴدخلتم فی حقّکم باطلھم و ھم اساس الفسوق و احلاس العقوق اتّخذھم ابلیس مطایا ضلال۔۔۔) خطبہ 192۔
62۔ (۔۔۔ فما یدرک بکم ثار و لایبلغ مران دعوتکم الیٰ نصر اٴخوانکم فجررتم جرجرة الجمل الاٴسرّ و تثاقلتم۔۔۔) علامہ تقی جعفری شرح نھج البلاغہ ج9، ص 210۔
63۔ رعد 11۔
خبر کا کوڈ : 784404
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش