0
Tuesday 24 Sep 2019 10:06

وزیراعظم صاحب! امریکہ قابل اعتماد نہیں!

وزیراعظم صاحب! امریکہ قابل اعتماد نہیں!
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی


یوں تو پاکستان کی تاریخ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو کسی بھی سطح پر قائم کرنے کی خواہاں نظر آتی ہے۔ ان تعلقات میں کبھی بھی برابری کا عنصر نہیں پایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو غیر اہم سمجھا اور وقت آنے پر اپنے مفادات کے لئے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے والے حکمرانوں کے ذریعہ اپنا ایجنڈا مکمل کیا۔ امریکہ اور پاکستان کے مابین اس نوعیت کے تعلقات اسلئے بھی زور پکڑتے چلے گئے کیونکہ امریکی حکومت نے براہ راست پاکستان کے مختلف اداروں کے ساتھ بڑی بڑی ڈیلز کرنا شروع کر دیں اور بعد ازاں افراد کو امریکی مفادات کی خاطر مال و متاع اور مراعات کے عوض استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور ایسے حالات میں ملک کی پالیسیوں کو کسی سمت چلانا اور کوئی ایسی حکمت عملی وضع کرنا کہ جس کا امریکی مفادات سے ٹکراؤ ہو، انتہائی مشکل ہے۔

بہرحال، ماضی کے بعد اب کچھ بات حال کی کرتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے کچھ عرصہ قبل امریکہ کا دورہ کیا اور اس دورہ کو بہت گرمجوش دورہ قرار دیا جا رہا تھا اور پھر حکومتی رویہ میں بھی اس قدر تیزی دیکھنے کو آئی کہ جیسے اندھے کو دو آنکھیں مل جاتی ہیں۔ یعنی وزیراعظم سمیت ملک کے تمام ادارے اور اعلیٰ عہدیداروں نے امریکہ سے ایک مرتبہ پھر لو لگا لی تھی کہ چلو اچھے دنوں کا آغاز ہوگا۔ حکومت شاید اس بات پر بھی زیادہ خوش دکھائی دیتی تھی کہ امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی بات کی ہے، چلو اب تو مظلوم کشمیریوں کا مسئلہ حل ہو ہی جائے گا۔ مجموعی طور پر پاکستان کا سو فیصد جھکاؤ امریکہ کی طرف چلا گیا، جیسا کہ امریکہ ہی کا ئنات کا خدا ہے اور سب کو روٹی دینے والا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک کی حکومتیں شاید امریکہ کو خدا ہی کا درجہ دیتی ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے بڑے ملک کو اپنے وقار اور عزت کا خود پاس رکھنا چاہیئے یا کم سے کم بولیویا جیسے چھوٹے ملک سے ہی سبق حاصل کرنا چاہیئے کہ جس نے امریکہ کو خدا نہیں مانا ہے۔

مسئلہ کشمیر پر امریکی حکومت کی ثالثی کے بیان کے بعد حکومت پاکستان نے اپنی تمام تر توجہ کا مرکز امریکی صدر کو بنا لیا، لیکن یہاں حکومت میں موجود سیاست مداروں سے کوئی یہ سوال تو کر لیتا کہ کیا امریکی صدور نے آج تک مسئلہ فلسطین کا حل نکال لیا؟ کیا یہ بات درست ہے کہ دنیا کی باعزت اقوام کی تقدیر کے فیصلے امریکی صدور کریں؟ کیا امریکہ واقعی انسانی حقوق کا پاسدار ہے، اگر ہے تو پھر امریکہ کی تاریخ میں ہیرو شیما، ناگا ساکی سمیت ویت نام، افغانستان اور عراق کے بدنما داغ کیوں ہیں؟ کیا امریکی حکومت بھارت اور اسرائیل کو ایک جیسی مسلح ٹیکنالوجی فراہم کرنے والی حکومت نہیں ہے۔؟

اس طرح کے متعدد سوالات ہیں، جو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیمی نشوونما حاصل کرنے والے نوجوانوں کے اذہان میں ابھر رہے ہیں؟ آج مسئلہ کشمیر پر حکومت کی ناکام پالیسیوں پر پورے ملک کی سیاسی جماعتیں آواز اٹھا رہی ہیں۔ ان کی اس آواز کو صرف یہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے کہ اپوزیشن سیاست کر رہی ہے، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی باتوں میں ستر فیصد صداقت اور شاید تیس فیصد سیاسی عزائم ہیں۔ تاہم حکومت کا یہ کام ہے کہ وہ امریکہ کے جھوٹے وعدوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے پاکستان کے عوام کو بالخصوص کشمیری سوالیہ نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہے ہیں، کشمیریوں کو جواب دے اور بتائے کہ پاکستان نے مسئلہ کشیر پر کیا اقدامات انجام دئیے ہیں اور پاکستان کی عالمی سطح پر سفارتکاری کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟ اس عنوان سے ذمہ دار افراد کا تعین کیا جائے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

محترم وزیراعظم صاحب! آپ کے پڑوس میں ایک ملک ایران بھی موجود ہے، جو امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کے بغیر ترقی کے کئی میدانوں میں کئی ایک ممالک سے آگے نکل چکا ہے، مشکلات اور مصائب کے باوجود عزت و وقار پر کوئی سودے بازی قبول نہیں کر رہا۔ میں آپ کی خدمت میں اسی پڑوسی ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی ایک تقریر کا جملہ یہاں پیش کئے دیتا ہوں، ”امریکہ پر کسی صورت اعتماد نہیں کیا جا سکتا، امریکہ جھوٹ اور مکاری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔“ اس جملہ میں بہت بڑا سبق موجود ہے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق امریکی وعدوں پر یقین اور تکیہ کرنے سے مسئلہ کشمیر کبھی حل ہونے والا نہیں ہے اور ابھی اقوام متحدہ کے اجلاس کے لئے بھارتی وزیراعظم کے نیو یارک پہنچنے پر امریکی صدر کی جانب سے انکے ساتھ روا رکھے گئے سلوک اور امریکی تاریخ میں کسی بھی غیر ملکی سربراہ کے لئے منعقدہ جلسہ جو کہ سب سے بڑا جلسہ قرار دیا جا رہا ہے، یہ سب باتیں آپ کو متنبہ کرنے کے لئے ہیں کہ اب بھی وقت ہے امریکی غلامی کا طوق گردنوں سے نکال پھینکیں۔

آج پاکستان سے کمزور معیشت رکھنے والے اور چھوٹے ممالک امریکہ کے ساتھ بغیر تعلقات کے ترقی کر رہے ہیں، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت پاکستان سعودی عرب کے نا تجربہ کار شہزادہ محمد بن سلمان کی باتوں میں آکر بذریعہ سعودی عرب امریکی غلامی کا طوق اپنی گردنوں کی زینت بنانے کو ترجیح دے رہی ہے۔ آج امریکہ سے اربوں اور کھربوں ڈالرز کا اسلحہ خریدنے والا سعودی عرب اپنا دفاع خود نہیں کرسکتا ہے اور پاکستان جیسا ایک بڑا اسلامی ملک حیرت کی بات ہے کہ آل سعود حکمرانوں کے ذریعہ امریکہ تک پہنچنے کو اپنی عزت وحمیت سمجھتا ہے؟
خلاصہ یہ ہے کہ لومڑی کی صحبت میں رہنے سے شیر بھی لومڑی بن جاتا ہے اور اگر لومڑی شیر کی صحبت اختیار کرے تو لومڑی بھی شیر بن جاتی ہے۔ اب یہ فیصلہ وزیراعظم صاحب کو ہی کرنا ہے کہ وہ کس صحبت کو اختیار کریں گے؟

آج دنیا کی سیاست کا محور تبدیل ہوچکا ہے، امریکہ سپر پاور ہوا کرتا تھا، اب نہیں ہے۔ اگر پاکستان خطے میں مضبوط کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو پھر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنا ناگزیر ہیں، آج جنوبی ایشیاء کے سیاسی افق پر ایران، روس، چین واضح طور پر نظر آرہے ہیں اور ان کا نقش عالمی سیاسی افق پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ آج یہی امریکی صدر کہ جس سے ہمارے حکمران ملنے کے لئے ترس رہے ہوتے ہیں، یہ امریکی صدر ٹرمپ آج ایران کے صدر روحانی نے ملنے کو تڑپ رہا ہے۔ اپنا فون نمبر تک ان کو دے رہا ہے کہ ایک فون ہی کر لو، جاپان کے وزیراعظم کے ذریعہ خط بھیج رہا ہے، لیکن جواب میں اس خط کو کھولا ہی نہیں جاتا اور کوئی جواب دینا گوارا نہیں کیا جاتا۔ کاش میرے وطن کے حکمرانوں کو بھی یہ بات سمجھ آجائے کہ امریکہ قابل اعتبار نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 818166
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش