1
Friday 27 Sep 2019 11:37

سفارتکاری کا عالمی میلہ

سفارتکاری کا عالمی میلہ
تحریر: ممتاز ملک

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 74واں اجلاس دنیا کے سب سے امیر ترین شہر نیویارک میں جاری ہے، جس میں تمام ممالک کے سربراہان اور خارجہ امور کے ماہرین جمع ہو کر اپنا اپنا بیانیہ پیش کرتے ہیں۔ اجلاس ہر سال ستمبر کے آخری ہفتے سے شروع ہو کر دسمبر تک جاری رہتا ہے۔ سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن ممالک کا چناؤ، معاشی و معاشرتی کونسل کے اراکین کا چناؤ، نئی ریاستوں کی رکنیت سازی اور منسوخی، اقوام متحدہ کے بجٹ کی منظوری کے ساتھ ساتھ عالمی امن کو قائم رکھنے والے اقدامات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ پوری دنیا کے سربراہان اس وقت جنرل اسمبلی سے اپنے شیڈول کے مطابق خطاب کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے امریکی صدر خطاب کرتے ہیں، پھر دیگر ممالک کے سربراہوں کی باری آتی ہے۔ امریکی صدر کا خطاب جسے پورے سال کی امریکن خارجہ پالیسی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ہو چکا ہے، جس میں ایرانی صدر حسن روحانی شریک نہیں ہوئے اور سب سے زیادہ سخت زبان بھی ٹرمپ نے ایران کے خلاف استعمال کی ہے، چین اور وینزویلا بھی تنقید کی زد میں رہے۔ ایران پر الزام لگانے میں برطانیہ نے بھی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی ہے، کیونکہ اسے بھی امریکہ سے ایک اچھے تجارتی معاہدے کی امید ہے۔

امریکی قیادت اس وقت سبکی محسوس کر رہی ہے کہ ہمارے گھر میں آکر ایرانی صدر ہم سے ملاقات نہیں کر رہے، اس لیے کبھی وہ تڑی لگاتے ہیں تو کبھی فرانس، جرمنی اور اب پاکستانی وزیراعظم کے ذریعے ایران سے ثالثی کی بات کرتے ہیں، جس کی تصدیق عمران خان صاحب کرچکے ہیں کہ ہم نے صدر ٹرمپ سے ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تو انہوں نے کہا چلیں آپ بھی دیگر ممالک کی طرح کوشش کریں۔ اس سلسلے میں عمران خان کی صدر روحانی سے ملاقات بھی ہوئی ہے، لیکن ایرانی صدر نے اپنا ارادہ اور پیغام جنرل اسمبلی کے خطاب میں سب کو سنا دیا ہے کہ جب تک امریکہ مجرمانہ پابندیاں نہیں اٹھائے گا، بات چیت یا کسی نئی ڈیل کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا اور ہرمز امن کے نام پر ایک پروگرام بھی پیش کیا، جس میں تمام خلیجی ریاستوں کو شامل ہو کر تیل کی گزرگاہ کو محفوظ بنائے جانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے ابھی تک کشمیر کے مسئلے پر ثالثی والا پرانا بیان ہی دوہرایا ہے، وہ پاکستان اور بھارت دونوں کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، ہمیں افغان امن معاہدہ کے لیے اور انڈیا کو بڑی تجارتی منڈی ہونے کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ مخاصمت کے لیے بھی۔ کشمیر کا مقدمہ اب تک ہمارے وزیراعظم صاحب مناسب انداز میں لڑ رہے ہیں، 70 سے زائد سربراہان مملکت اور عالمی اداروں کے ساتھ ملاقاتیں ایک متحرک ترین سفارتکاری کی عکاس ہیں، لیکن جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے مختلف ممالک کے دورہ جات کر لیے جاتے تو آج ہماری ملاقاتیں اور سفارتکاری اور زیادہ موثر ثابت ہوتی نظر آتیں۔ عمران خان صاحب سعودی عرب کے ولی عہد سے ان کے طیارے میں امریکہ جانے کی پیشکش ملک ملت کے وقار کی خاطر شکریہ کے ساتھ قبول نہ کرتے، لیکن خیر اب ان کے بقول سعودی ولی عہد نے ایران سے بات کرنے کا کہا ہے تو ہمارے وزیراعظم کو یہ مصالحت کروانے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیئے اور سعودی عرب یمن جنگ بندی اس کا پہلا قدم ہونا چاہیئے۔

پاکستانی وزیراعظم کے خطاب سے پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خطاب کریں گے، اس کے بعد عمران خان اپنا نقطہ نظر عالمی برادری کے سامنے رکھیں گے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور 55 روزہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستانی وزیراعظم کا خطاب بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے، اس لئے ٹرمپ کے بعد اس وقت عمران خان سب سے زیادہ گوگل پر سرچ کیے جانے والے دوسرے عالمی لیڈر بن گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ان کے خطاب کا محور و مرکز مسئلہ کشمیر ہوگا، جس میں وہ عالمی برادری کو یہ بات باور کرانے کی پوری کوشش کریں گے کہ خطے میں بھڑکتی ہوئی صورتحال پر توجہ دی جائے، ورنہ آگ کسی کی نہیں ہوتی اور اپنی طرف سے حجت تمام کریں گے کہ اگر کشمیر کے مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو تمام تر سنگین صورتحال کی ذمہ داری بھارت اور عالمی برادری پر عائد ہوگی۔

امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ پاک بھارت اور ایران، سعودیہ اور امریکہ مسائل کے ضمن میں عمران ٹرمپ ایک اور ملاقات ہوسکتی ہے، کیونکہ پاکستان ماضی میں بھی تہران اور واشنگٹن کے درمیان سفارتکاری کرتا رہا ہے۔ چین، روس، اسرائیل، سعودی عرب، برطانیہ، وینزویلا اور عراق و شام کے سربراہان کے اہم خطاب ابھی باقی ہیں۔ سفارت کاری کے اس عالمی میلے میں جوڑ توڑ جاری ہے، ہوٹلوں میں رش ہے، جنرل اسمبلی کی بلڈنگ کے باہر مختلف ممالک کی پالیسیوں کے خلاف عوامی احتجاج بھی زور شور سے جاری ہے، جس میں مسئلہ کشمیر، عالمی موسمیاتی تبدیلی اور مشرقِ وسطیٰ کے حالات سرفہرست ہیں۔
خبر کا کوڈ : 818624
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش