0
Saturday 28 Sep 2019 21:06

اقوام متحدہ کے اندر کی کہانی

اقوام متحدہ کے اندر کی کہانی
تحریر: سید اسد عباس

ایک جانب دنیا کے 193 ملک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس میں دنیا کے مسائل کو حل کرنے کی ایکٹنگ کر رہے ہیں اور دوسری جانب وہ مسائل جن کے حل کے لیے اقوام عالم مجتمع ہیں، اپنی نوعیت کے اعتبار سے شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ، مسئلہ کشمیر دو ایسے مسائل ہیں، جو اتنے ہی قدیم ہیں جتنی اقوام متحدہ، تاہم یہ ادارہ ان دونوں مسائل کو نہ فقط حل کرنے سے قاصر رہا ہے بلکہ اکثر اس کے حل کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر سامنے آتا ہے۔ بعض مسائل کے حوالے سے قراردادوں کا انبار ہے، جن کو رکھنے کے لیے بڑے بڑے سٹور بنے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے پاس بحیثیت کلی اگر منصفانہ قوت نافذہ بھی ہو تو یہ ایک اچھا فورم ہے، جہاں دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات لیے جا سکتے ہیں، تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ اقوام متحدہ کی قوت نافذہ دنیا کی وہ طاقتیں ہیں، جن کی وجہ سے مسائل ہیں۔ سرمایہ دار، سامراجی طاقتیں اس ادارے کو چلا رہے ہیں اور اس فورم کو جہاں اپنے مقاصد کے لیے مفید پاتے ہیں، استعمال کرتے ہیں۔


اس ادارے کے بعض فوائد بھی مثلاً ماحولیات کے مسائل، تعلیم، غلامی، آزادی اظہار، انسانی حقوق، روزگار، غربت، افلاس اور اس جیسے دیگر مسائل جو پوری انسانیت کے مشترکہ مسائل ہیں، پر غور و فکر کے لیے یہ ایک اچھا مقام ہے، تاہم ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے پھر وہی قوت نافذہ میدان عمل میں اترتی ہے اور کوئی ایسا قانون، قرارداد یا مسودہ منظور نہیں ہونے دیا جاتا، جو ان طاقتوں کے مفاد میں نہ ہو۔ ماحولیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ سرمایہ دار ملکوں کی فیکٹریاں گاڑیوں کا دھواں دنیا کے ماحول میں تیز رفتار تبدیلیاں لا رہے ہیں اور اگر یہ تبدیلیاں بدستور جاری رہیں تو دنیا کے اکثر علاقے رہائش کے قابل نہیں رہ جائیں گے، تاہم مجال ہے کہ سرمایہ داروں کے کانوں پر جوں رینگتی ہو، قوانین و اصول بنتے ہیں، تاہم ان کا نفاذ کرنے والا کوئی نہیں۔

میزائل ٹیکنالوجی، ایٹمی ٹیکنالوجی، بھاری ہتھیاروں کے حوالے سے ادارے اور ان کے قوانین موجود ہیں، تاہم مجال ہے کہ یہ سب قوانین کسی طاقتور کے خلاف استعمال کیے جاسکیں۔ ان کا استعمال ہمیشہ کمزور ممالک کے خلاف کیا جاتا ہے، انہی پر پابندیاں لگتی ہیں۔ جنرل اسمبلی کے حالیہ سیشن میں مہاتیر محمد، طیب اردگان، حسن روحانی اور عمران خان نے اپنی تقاریر میں انہی باتوں پر زور دیا کہ یہ فورم اپنے اہداف اور دعوں پر پورا اترنے سے قاصر ہے۔ اس سے قبل بھی بہت سے قائدین یہی باتیں کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوگئے، تاہم صورتحال جوں کی توں ہے۔ بعض قائدین کے مطابق اقوام متحدہ میں بعض ممالک کے پاس ویٹو کی طاقت کا ہونا اس کی سب سے بڑی خامی ہے۔ یہ ممالک اس فورم پر اثر انداز ہیں اور بہت سے مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اب اگر ان ممالک سے ویٹو کا حق لے لیا جائے یا سب ممالک کو برابر کا حق دے دیا جائے تو پھر اس ادارے کے پاس رہی سہی قوت نافذہ بھی ختم ہو جائے گی۔

سرمایہ داروں، سامراجی قوتوں اور استبدادی ممالک کو جب اس ادارے سے کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ کیونکر اس کے اخراجات برداشت کریں گے۔ انسانیت ابھی اس مقام پر نہیں پہنچی کہ انسانوں کے مفاد کے لیے اپنا سرمایہ اور طاقت استعمال کرتی رہے۔ جب تک یہ ادارہ قوت نافذہ کے حامل ان ممالک کے مفاد میں ہے، وہ اس کی رونقوں کو بحال رکھیں گے، جونہی انہیں احساس ہوگا کہ دنیا کی آنکھیں کھل رہی ہیں اور وہ اقوام متحدہ پر انحصار نہیں کر رہے تو آپ کو اقوام متحدہ کی عمارتیں اور اسباب یوں غائب ہوتے نظر آئیں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔ وہ افراد جو اقوام متحدہ کے فورمز پر ضمیر جگانے والے خطاب کرتے ہیں، وہ بنیادی طور پر دنیا کے پالیسی سازوں کو سنا رہے ہوتے ہیں کہ وہ مسئلہ جس کے بارے میں بات کی جا رہی ہے، کی نوعیت اس وقت کیا ہے۔ پالیسی سازوں یعنی قوت نافذہ کا اختیار ہے کہ وہ اس مسئلہ کے ساتھ کیا برتاؤ کرتی ہے۔

اگر کوئی سمجھے کہ جنرل اسمبلی، سکیورٹی کونسل کچھ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی بھول ہے، کیونکہ اس کے اجلاسوں میں اکثر تو کرسیاں ہی خالی ہوتی ہیں اور جو بیٹھے ہوتے ہیں، وہ اپنی سفری تھکن دور کرنے کے لیے اونگھ رہے ہوتے ہیں یا انہیں اپنی پسند کی موسیقی سننے کے لیے کانوں والے آلات دیئے جاتے ہیں، جسے لگائے وہ مدہوش ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان، نریندر مودی، ٹرمپ، طیب اردگان، مہاتیر محمد اور حسن روحانی کے ساتھ ساتھ دسیوں ممالک کے سربراہان نے خطاب کیا، تاہم نہ ہمیں ان کے خطابات سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی ان کے مسائل سے تقریباً یہی حال باقی دنیا کا بھی ان کو عمران خان، نریندر مودی، طیب اردگان یا کسی اور لیڈر کے خطاب سے بالکل کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اقوام عالم ابھی فقط سنانے کے مرحلے تک پہنچی ہیں، سننے اور اس کا حل کرنے کا کام کسی اور کے پاس ہے، جو چاہتا ہے تو دنیا کو عراق کے خلاف اکٹھا کرتا ہے اور اس پر حملہ آور ہو جاتا ہے، جب وہ چاہتا ہے تو دنیا کو افغانستان کے خلاف اکساتا ہے اور اس پر حملہ آور ہو جاتا ہے، یہ دنیا کا حاکم چاہتا ہے تو ایران اور کوریا کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگواتا ہے اور نہیں چاہتا تو دنیا بھلے چلاتی رہے، اسرائیل اور ہندوستان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتا ہے۔

مجھے بالکل بھی حیرت نہ ہوئی، جب میں نے سنا کہ اس اجلاس میں روس اور چین کے سربراہان نے شرکت نہیں کی ہے، کیونکہ وہ اس ادارے کی ماہیت کو سمجھ چکے ہیں، سمجھ کچھ اور لوگوں کو بھی آئی ہوئی ہے، تاہم ان کی سمجھ نے ان کو استعماری طاقت کی جھولی میں لا گرایا ہے۔ کچھ ممالک ابھی تک اس ادارے سے اچھی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، وہ یہاں آکر بھاشن دیتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ اس کا کوئی اثر ظاہر ہونے والا نہیں ہے، نہ ہی وہ مسئلہ جس پر وہ بات کر رہے ہیں، کا کوئی حل ہونے والا ہے۔ اس کے باوجود اپنی عرضیاں اقوام متحدہ کے خداؤں کی بارگاہ میں باری باری پیش کرتے ہیں، تاکہ ممکن ہے اس کو اذن باریابی نصیب ہو، شاید کچھ ممالک ہوں، جن کو اس فورم سے توقع تو اگرچہ کوئی نہ ہو، تاہم وہ حجت تمام کرنے کے لیے یہاں آتے ہوں اور اپنی بات اقوام عالم کے گوش گزار کرتے ہوں۔

میری نظر میں تو یہ ادارہ استعماری قوتوں کا دنیا کو لیڈ کرنے کا ایک ٹول ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے کچھ اختیارات سے اغماض برت کر اور بعض وسائل کو استعمال کرکے اقوام عالم پر حکومت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ پر حاکم قوتیں اس کام میں کافی حد تک کامیاب بھی رہی ہیں۔ اخلاقی اقدار، انسانیت، غربت کے خلاف جنگ، بے روزگاری سے معرکہ، ماحول کا تحفظ ، خواتین بچوں کے حقوق وہ پیاری پیاری باتیں ہیں، جس میں مفلوک الحال اقوام کو پھنسایا جاتا ہے۔ اس ادارے کے چہرے پر بہت ہی پاکیزہ نقاب ہے، بالکل کسی مصلح جیسا، جیسے کوئی حازق طبیب ہو، جو کسی مرض کا واحد معالج ہے، تاہم اس ادارے کا اندروں فی الحال شیطان سے زیادہ مکروہ ہے اور اس کا تریاق کسی زہر سے کم نہیں ہے۔ عراق، افغانستان جنگ، مسئلہ فلسطین و کشمیر، دنیا میں انسانی حقوق کی ابتر صورتحال، آج کی دنیا کے مسائل تو اسی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ نے اپنے اقدامات کے ذریعے اتنے انسانوں کی جانیں بچائی نہیں، جتنوں کی لیں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 818943
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش