0
Thursday 30 Jun 2011 01:41

رہبر انقلاب اسلامی کے فرامین کی روشنی میں بعثت کی تعریف

رہبر انقلاب اسلامی کے فرامین کی روشنی میں بعثت کی تعریف
 تحریر:محمد علی نقوی
بعثت کسی واقعے کی یاد یا کسی تاریخی واقعے کی یاد کی مانند نہیں ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو تاریخ انسانیت کے اس عظیم واقعے اور یادگار رويداد پر نظر ڈالتے وقت ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے۔ اس عظیم الشان واقعے کی جانب پوری توجہ کی ضرورت درحقیقت ناقابل فراموش درس ہے امت مسلمہ کے لئے، جس میں عوام بھی شامل ہیں اور خواص بھی سیاستداں بھی شامل ہیں اور دانشور و روشن خیال افراد بھی، اسی طرح یہ درس ہے کائنات کے ہر انسان کے لئے، یہ ایک درس کا اعادہ اور از سر نو مطالعہ ہے، یہ ایک سبق آموز واقعے کی یاد ہے۔
اس واقعے میں گوناگوں پہلو پنہاں ہیں، اگر کوئي واقعی چاہتا ہے کہ بعثت کے تمام پہلوؤں کو اجمالا ہی سہی خوش اسلوبی سے بیان کرے تو اس کے لئے گھنٹوں تقریر کی ضرورت ہو گی، کئی کتابیں تیار ہو جائیں گی۔ اس واقعے پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی متعدد سبق ملتے ہیں۔ آپ غور کیجئے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انسانی ضرورتوں اور ان کی تکمیل کے طریقوں پر محیط ایک جامع پیغام کے ساتھ ایسے معاشرے میں قدم رکھتے ہیں اور اپنی تحریک کا آغاز کرتے ہیں جس میں ان کمالات کا کہیں کوئي نام و نشان نہیں تھا۔
پیغمبر اسلام، پیغمبر علم بن کر اس معاشرے میں آئے، جہاں علم عنقا تھا، اس معاشرے میں پیغام عدل و انصاف کے ساتھ آئے، جسے انصاف چھو کر بھی نہیں گزرا تھا، وہاں تو طاقتور اور مالکان زور و زر کا بول بالا تھا، اس معاشرے میں آپ اخلاق و ایثار و مساوات و محبت کا پیغام لائے، جہاں ان چیزوں کا کوئی معنی و مفہوم ہی نہ تھا۔ تشدد پسند اور استبداد کا خوگر معاشرہ، اخلاق و معنویت سے بے بہرہ سماج، علم و دانش سے پرے اور نفسانی خواہشات، جاہلانہ تعصب اور تکبر و غرور میں ڈوبے ہوئے لوگ۔
ایسی سخت اور دشوار صورتحال میں اور ایسے سنگ زار میں (اسلام کا) یہ پودا لگايا گیا۔ تیرہ سال تک دشوار ترین حالات میں اس کی آبیاری کی گئی اور تیرہ سال پورے ہونے پر ایک حکومت کی تشکیل عمل میں آئی اور علم و عدل و توحید و معنویت و اخلاق و کرامت کی بنیاد پر ایک معاشرہ معرض وجود میں آیا، جس نے ذلت کو عزت میں، وحشی پنے کو اخوت میں، تعصب کو دانشمندی و ایثار میں اور جہل کو علم میں تبدیل کر دیا۔ ایک مستحکم بنیاد رکھی گئی جس کے سہارے مسلمانوں نے دنیا کی تہذیبوں کے نقطہ کمال پر قدم رکھے اور انہوں نے خود بھی نئی منزلوں اور نئی بلندیوں کو وجود بخشا، جس کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ یہ حکومت دس سال سے زیادہ نہیں رہی۔ اگر آپ ایک قوم کی عمر کو پیش نظر رکھتے ہوئے دس اور تیرہ، تیئیس سال کے عرصے کو دیکھئے تو ایک لمحے کی مانند محسوس ہو گا۔ اتنی سی مدت میں ایک عظیم تحریک معرض وجود میں آئی، جس نے پوری تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، ایک حصہ ما قبل اسلام کا اور دوسرا ما بعد اسلام کا۔ 
اس نے انسانیت کو پیشرفت کے راستے پر گامزن کیا، اخلاقی بنیادوں کو استحکام بخشا اور انسانی معاشرے کو ناقابل فراموش درس دیا۔ آپ بعثت کی عظمت کو اس زاویے سے دیکھئے۔ پیغمبر اسلام کی بعثت اور دین اسلام، عدل و انصاف، صلح و آشتی، آسائش و سلامتی اور انسانوں کے تحفظ کا پیغام ہے اور سرانجام یہ یکتا پرستی کا سلسلہ سچے وعدہ الہی کے مطابق اپنے پیروکاروں کے لئے فلاح و نجات اور کامیابی و کامرانی کی نوید ثابت ہو گا۔ بعثت عدل و انصاف، صلح و آشتی اور آسائش و سلامتی کا سرآغاز ثابت ہونے کے باعث رحمت الہی کی بعثت ہے، طمانیت و سلامتی کی یہ راہیں انسان کے دل کی اندرونی وادی سے شروع ہو کر معاشرے کی فضا اور دنیا کی سطح تک جاتی ہیں اور جو لوگ اسلام میں ان راہوں کے مخالفین کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں وہ وہی لوگ اور مکاتب فکر ہیں جو انسانیت کی حقیقی خوشبختی کے مخالف ہیں۔ 
قرآنی آیات بشریت کی فلاح اور بہبود کے مخالفین کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی دعوت دینے والی ہیں اور اسلام روشن دلیلوں سے تمام انسانوں کو امن و انصاف اور سلامتی و تحفظ کے زیر سایہ سعادت بخش زندگی گزارنے کی دعوت دیتا ہے، لیکن دوسری جانب اس راہ کے مخالفین ہیں جو سخت مخالفت کا حکم دیتے ہیں، طول تاریخ میں بشریت کی فلاح کے نورانی راستے کے مخالفین نے عدل و آشتی کے قیام کے لئے نہیں، تسلط اور ظلم کا دائرہ پھیلانے اور انسانوں کا چین و سکون چھین لینے کے لئے جنگیں کی ہیں اور آج بھی دنیا کی تسلط پسند اور سامراجی طاقتیں جدید ٹکنالوجی اور ایٹمی اسلحے سمیت پیشرفتہ ہتھیاروں کے ذریعے زمانہ جاہلیت کی اسی روش کو ماڈرن پیرائے میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سامراجی طاقتوں کے فوجی ساز و سامان اور اس پر آنے والے بے پناہ اخراجات عصر حاضر کا المیہ ہیں اور جب تک عالمی معاملات میں بڑی طاقتوں کی مداخلت رہے گی، جنگ، بدامنی اور ناانصافی پوری دنیا میں پھیلی رہے گی۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے 1990ء تک 45 سال کے عرصے میں صرف تین ہفتے ایسے گزرے ہیں جو جنگ سے خالی رہے۔ یہ جنگیں انہی لوگوں نے شروع کی ہیں جو ہھتیاروں کی پیداوار میں پہلے نمبر پر ہیں اور فوجی ساز و سامان فروخت کر کے پیسہ کمانے کی فکر میں رہتے ہیں، امن و انصاف قائم کرنے کے لئے جنگ کا امریکا کا دعویٰ سب سے بڑا جھوٹ ہے، امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فوجی ساز و سامان پر سینکڑوں ارب ڈالر صرف کئے، یہ فوجی ساز و سامان افغانستان کے مسلمانوں کی سرکوبی، ملت عراق پر غلبے اور مشرق وسطٰی کو درہم برہم کرنے کے لئے خبیث صیہونی حکومت کی مدد و اعانت میں استعمال ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے دنیا میں انسانی زندگی پر اس جاہلانہ طاغوتی نظام کی حکومت ہے، لیکن چونکہ یہ سلسلہ خلقت سے متعلق سنت الہی اور حق کے برخلاف ہے، اس لئے اس کا مٹ جانا یقینی ہے اور اس کے زوال کے آثار بھی نظر آنے لگے ہیں، سامراجی طاقتوں کا زوال شروع ہو جانے کی ایک وجہ مسلمانوں میں آنے والی اسلامی بیداری ہے، جس کی وجہ سے ان طاقتوں کے پاس ماضی کی توانائياں باقی نہیں رہیں اور امریکا کے حال کا اس کے ماضی سے موازنہ کر کے اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
مسلمانوں میں پہلے سے زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے، راہ توحید اور سعادت بشر کے مخالفین ہر اس مقام پر خطرے کا احساس کرنے لگتے ہیں جہاں اسلامی بیداری بڑھ رہی ہو، یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران سے دشمنیاں بڑھ گئی ہیں، بتیس سال سے سامراجی طاقتیں اسلامی نظام کی مخالفت کر رہی ہیں اور بتیس سال سے ان تمام مخالفتوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران بفضل پروردگار ماضی کے مقابلے میں زیادہ قوی ہوا اور اس کی جڑیں زیادہ مضبوط ہوئی ہیں، یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا اور وعدہ پروردگار کے مطابق باطل کی سرنگونی و نابودی یقینی ہے۔ دشمنیاں جتنی بڑھیں گی، عالم اسلام میں عوامی محاذ خود کو اور بھی بہتر طریقے سے پہچانے گا لہذا اسلامی حکومتوں اور قوموں کو بھی چاہئے کہ خوداعتمادی پیدا کریں اور سامراجی طاقتوں سے بالکل خوفزدہ نہ ہوں کیونکہ ان کی طاقت غیرحقیقی اور نام نہاد اور زوال پذیر ہے۔
 بعثت کا مقصد انسانی فطرت سے ہم آہنگ دین اسلام کی دعوت دینا اور بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پیغام خدا کی بندگی، کلمہ توحید، قیام عدل، طاغوتی اور شیطانی طاقتوں کے مقابلے کا پیغام ہے، جس کا نتیجہ انسانوں کی فلاح و بہبود ہے۔ انسانوں کی فطری بیداری سے شیطانی طاقتیں خوف و ہراس کا شکار ہیں۔

خبر کا کوڈ : 81921
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش