0
Saturday 19 Oct 2019 19:10

مولانا کی رابطہ مہم اور اپوزیشن کا کردار

مولانا کی رابطہ مہم اور اپوزیشن کا کردار
لاہور سے ابوفجر کی رپورٹ

حکومت اپنی رفتار سے جا رہی ہے۔  ملک کی بہتری کیلئے عمران خان سے جو ہو رہا  وہ کر رہا ہے۔ وزیراعظم ایک طرف ملک چلا رہے ہیں تو دوسری جانب اپنی کابینہ کو بھی چلانے کی ذمہ داری انہیں کے پاس ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی وزیر اپنے طور پر فیصلے نہیں کر رہا بلکہ ہر کام کیلئے عمران خان کی طرف ہی  دیکھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ کام کی رفتار نسبتاً سست ہے۔ زرداری اور نواز شریف کے ’’اندر‘‘ ہونے سے حکومت کو اپوزیشن کا بھی کوئی سامنا نہیں البتہ مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن کا خلا پُر کیا ہوا ہے۔ جے یو آئی (ف) حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ دوسری سیاسی جماعتیں کھل کر سامنے تو نہیں آ رہیں البتہ انہوں نے بھی فضل الرحمان کا کندھا غنیمت سمجھتے ہوئے اسی پر بندوق رکھ کر چلا رہے ہیں۔ جبکہ حکومت مخالف مارچ کیلئے مولانا نے رابطے تیز کر دیئے ہیں۔

ابتدا میں مولانا فضل الرحمن صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے زیادہ رابطے میں تھے لیکن اب انھوں نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہوں سے بھی ملاقات کی ہے اور ان کو قائل کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ حکومت کا ساتھ چھوڑیں کیونکہ موجود حکومت کا ساتھ دینا عوام دشمنی ہے۔ چودھری برادران ملک کے زیرک سیاستدان ہیں اور موجودہ حالات میں ان کا حکومت میں رہنا مناسب نہیں لیکن چودھری برادران نے اس پر انہیں صرف ایک ہی بات کی کہ وہ حکومت سے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں لیکن مولانا نے ایک بار پھر یہی کہا کہ وہ حکومت سے اب استعفی دینے پر ہی مذاکرات کر سکتے ہیں۔ مولانا اپنی ضد پر ابھی تک تو قائم ہیں جبکہ حکومت نے بھی ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ سعودی عرب بھی کردار ادا کر رہا ہے جبکہ بیک ڈور چینل بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

ادھر مولانا کی جانب سے رابطے بھی تیز ہو چکے ہیں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مولانا فضل الرحمن سے بات چیت کرتے ہوئے ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا گیا ہے لیکن اس پر جب مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی تو شہباز شریف نے کوئی واضح طریقہ کار نہیں بتایا کہ وہ کس طرح آزادی مارچ میں شرکت کر رہے ہیں لیکن ایک چیز دوران پریس کانفرنس واضح ہوئی کہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے یہی کہا جاتا رہا کہ وہ ابھی طے کریں گے کہ کس طرح مارچ میں شریک ہوں گے، اس بارے میں طے کیا جا رہا ہے لیکن اس کیساتھ یہ بھی کہا گیا کہ 31 اکتوبر کو آزادی مارچ کو بھرپور سپورٹ کیا جائے گا۔ تمام لیگی رہنما جے یو آئی کے جلسہ میں شرکت کرکے خطاب کریں گے البتہ آزادی مارچ جہاں سے گزرے گا وہاں سے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مکمل سپورٹ کیا جائیگا۔

مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے یہ بھی موقف اختیار کیا جاتا رہا کہ ہم دیکھیں گے کہ اگر پیپلز پارٹی کی جانب سے پارٹی کی قیادت (بلاول بھٹو) آزادی مارچ میں شریک ہوئی تو مسلم لیگ ن کی جانب سے شہباز شریف قیادت کریں گے اس تمام صورتحال کی وجہ سے ابھی تک دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ مارچ میں ان کی جانب سے قیادت کون کرے گا اس کے علاوہ کس حد تک آزادی مارچ کوسپورٹ کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ ایک طرف تو مذاکرات کیلیے ٹیمیں بھیجنے کی بات کرتے ہیں دوسری جانب حکومتی رہنما مسلسل گالیاں دے رہے ہیں، تو ایسے میں کیسے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات صرف اسی صورت میں ہوں گے جب حکومت استعفی دے گی اس کے علاوہ حکومت سے کسی صورت میں کوئی بات نہیں ہو گی۔

مسلم لیگ ن کیساتھ ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمن نے دعوی کیا کہ31 اکتوبر کولاکھوں افراد اسلام آباد میں داخل ہوں گے اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نواز شریف کے خط میں تجویز کردہ روڈ میپ پر بھی مشاورت ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے بعد فوری طور پر نیب لاہور کے دفتر میں جاکر میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور اپنی بھرپور حمایت کے بارے میں اعلان پر اعتماد میں لیا۔ یہ ملاقات ایک گھنٹہ سے زائد وقت تک جاری رہی جس میں ن لیگ کی جانب سے آزادی مارچ کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا۔ نواز شریف چاہتے ہیں مارچ ہو تاکہ حکومت جائے اور انہیں قید سے آزادی نصیب ہو جبکہ شہباز شریف کی باڈی لینگوئج سے لگتا ہے کہ وہ ابھی حکومت گرانے کے حق میں نہیں۔ بہتر حال مولانا اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں جبکہ حکومت بھی دھرنا روکنے کیلئے اپنے طور پر اقدامات کر رہی ہے۔ جے یو آئی (ف) کی لٹھ بردار ذیلی تنظیم ’’انصار الاسلام‘‘ کو بھی کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ اسلام آباد کی کیٹرنگ کمپنیوں کو بھی ہدایات کی گئی ہیں کہ وہ دھرنے کیلئے ٹینٹ اور دیگر سامان فراہم نہ کریں۔ مولانا کی رابطہ مہم کامیاب ہوکر حکومت کے خاتمے کا سبب بنتی ہے یا حکومتی مذاکراتی ٹیم مولانا کو رام کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یہ آئندہ چند روز میں واضح ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 822860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش