0
Tuesday 26 Nov 2019 23:14

صنف نازک پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن

صنف نازک پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

انسانی زندگی میں عورت کا کلیدی کردار ہے، اسلام نے عورت کو عظمت عطا کی ہے۔ اسلامی تہذیب کی ابتداء ہی عورت کو مقام و مرتبہ دلوانے سے ہوئی۔ عصر حاضر کا المیہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم کی نسبت دنیا ترقی کی منزلیں طے کرچکی ہے، لیکن انسان کی شناخت اور اس کے نتیجے میں عورت کے کردار کو تو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن خواتین کو جو حیثیت حاصل ہونی چاہیئے، وہ نہیں دی جاتی بلکہ کمزور ہونیکی وجہ سے خواتین کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جہاں دنیا میں عالمی سطح پر انصاف پہ مبنی ماحول کو فروغ دینے کیلئے قوانین بنائے جاتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کیلئے آگہی کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس ضمن میں یعنی خواتین پر ظلم و ستم کی روک تھام کے حوالے سے ہر سال 25 نومبر کو صنف نازک پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 25 نومبر 1960ء میں ہوا تھا، جب ڈومینکن ری پبلک کے جابر و ظالم حکمراں رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں کو قتل کر دیا گیا تھا، جو ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔

1981ء سے عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کے خلاف دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔ 17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبرکو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر مختلف ممالک میں 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا، انہیں ہر طرح کا تحفظ مہیا کرنا اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔ اسی روز عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے سولہ روزہ تقریبات کا بھی آغاز ہوتا ہے۔ جس کا اختتام دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر عمل میں آتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عالمی تحریک کے باوجود دنیا کے بہت سارے ممالک میں خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اکثر خواتین تو خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا پا رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی 33 فیصد اور یورپ میں 12 سے 15 فیصد خواتین روزانہ ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ دنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کو زندگی میں کبھی نہ کبھی جسمانی یا ذہنی طور پر بد سلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1820 میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کو انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم قرار دیا گیا ہے، تاہم دُنیا کے کئی ممالک میں اِس جرم کا ارتکاب کرنے والے سزا سے بچ جاتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر سال 1 ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں اور ہر سال 10 ہزار سے زائد خواتین گھریلو تشدد سمیت دیگر سنگین جرائم کا شکار ہوتی ہیں۔ خواتین پر تشدد صرف نفسیاتی مریض اور پاگل مرد کرتے ہیں، ان کا علاج ضروری ہے۔ 74 فیصد کیسز پنجاب میں ہوتے ہیں۔ خواتین کے خلاف سنگین جرائم کے ارتکاب میں پڑھا لکھا پنجاب سب سے آگے اور پسماندہ صوبہ بلوچستان سب سے پیچھے ہے۔ سندھ دوسرے جبکہ خیبر پختونخوا تیسرے نمبر پر ہے۔

عام طور پر کمزور کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کافی محنت و کوشش کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر ان کو ان کے جائز حقوق ملتے ہیں، ورنہ تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ موجودہ دور نے اپنی بحث و تمحیص اور احتجاج کے بعد عورت کے کچھ بنیادی حقوق تسلیم کیے اور یہ اس دور کا احسان مانا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ احسان اسلام کا ہے، سب سے پہلے اسی نے عورت کو وہ حقوق دیئے، جن سے وہ مدتِ دراز سے محروم چلی آرہی تھی۔ یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیئے کہ عورت اس کا مطالبہ کر رہی تھی، بلکہ اس لیے کہ یہ عورت کے فطری حقوق تھے اور اسے ملنا ہی چاہیئں تھے۔ اسلام نے عورت کا جو مقام و مرتبہ معاشرے میں متعین کیا، وہ جدید و قدیم کی بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے، نہ تو عورت کو گناہ کا پُتلا بنا کر مظلوم بنانے کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے یورپ کی سی آزادی حاصل ہے۔ مغربی تہذیبی یلغار کا شکار خواتین بھی ایک خطرناک ترین تشدد کا شکار ہیں، کیونکہ دور حاضر میں یورپ و امریکہ اور دوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑی مخلوق ہے، جو صرف اور صرف تجارتی اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

وہ اشتہاری کمپنیوں کا جزء لاینفک ہے، بلکہ یہاں حالت اس درجہ ابتر ہے کہ اس کے کپڑے تک اتروا دیئے گئے ہیں اور اس کے جسم کو تجارتی اشیاء کے لیے مباح کر لیا گیا ہے اور مردوں نے اپنے بنائے ہوئے قانون سے اسے ایک کھلونا بنا لیا ہے۔ عصر حاضر میں عورت نے جب گھر سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کیا تو اسے ہوٹلوں میں بحیثیت ریسیپشن، ہسپتالوں میں بطور نرس، ہوائی جہازوں میں بحیثیت ایئر ہوسٹس، مخلوط تعلیم گاہوں میں بحیثیت طالبات اور ٹیچرس، تھیٹروں میں بحیثیت اداکارہ یا گلوکارہ، مختلف ذرائع ابلاغ میں بحیثیت اناؤنسر بٹھا دیا گیا، جہاں وہ اپنی خوبروئی، دلفریب ادا اور شیریں آواز سے لوگوں کی ہوس ناک نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ فحش رسائل و اخبارات میں ان کی ہیجان انگیز عریاں تصویر چسپاں کرکے مارکیٹنگ کا وسیلہ بنایا گیا تو تاجروں اور صنعتی کمپنیوں نے اسی نوعیت کی فحش تصویر اپنے سامان تجارت اور مصنوعات میں آویزاں کرکے انہیں فروغ دینے کا ذریعہ بنا لیا۔ یہی نہیں بلکہ فلموں میں اداکاری کے نام پر اور انٹرنیٹ کے مخصوص سائٹ آزادی کے عنوان سے عریانیت کے کون سے رسواء کن مناظر پیش نہیں کئے جاتے۔

اگر یہی عورت کی آزادی اور اس کی عزت و تکریم اور اس کے حقوق کی بازیابی ہے تو انسانیت کو اپنے پیمانہ عزت و آبرو پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔ یاد رہے کہ مادہ پرستی اور مغرب زدگی کیوجہ سے یہ سب معاملہ عورت کے ساتھ اس وقت تک رکھا جاتا ہے، جب تک اس میں مردوں کی کشش کا سامان، ابھرتی جوانی کی بہار، دل ربا دوشیزگی کا جوبن اور شباب و کباب کی رونق رہتی ہے، لیکن جب اس کی جوانی میں پژمردگی آجاتی ہے، اس کی کشش میں گھن لگ جاتا ہے، بازاروں میں اس کی قیمت لگنی بند ہو جاتی ہے، اس کی ڈیمانڈ کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور اس کی ساری مادی چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے تو یہ کافر معاشرہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے، وہ ادارے جہاں اس نے جوہر کمال دکھائے تھے، اس کو چھوڑ دینے میں عافیت سمجھتے ہیں اور وہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہے یا پھر پاگل خانوں میں۔ یہ ہے آزادیٔ نسواں کی موجودہ کڑوی حقیقت اور یہ ہے اس کا حتمی برا انجام۔

آزادی نسواں پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مغربی مصنف یوں رقمطراز ہے کہ وہ نظام جس میں عورت کے میدان عمل میں اترنے اور کارخانوں میں کام کرنے کو ضروری قرار دیا گیا، اس سے ملک کو چاہے کتنی بھی دولت و ثروت مہیا ہو جائے، مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس سے گھریلو زندگی کی عمارت زمیں بوس ہو کر رہ جاتی ہے، کیونکہ اس نظام نے گھر کے ڈھانچہ پر حملہ کرکے خاندانی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور معاشرتی تعلقات و روابط کے سلسلہ کو درہم برہم کر دیا ہے۔ جو لوگ آزادیٔ نسواں، مساوات مرد و زن اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور صحیح انداز میں عورتوں کو ان کے اسلامی حقوق دلوانا چاہتے ہیں تو ان کا فرض صرف اسی پر ختم نہیں ہو جاتا کہ سال بھر میں ایک بار جلسے جلوس کی چہل پہل دکھا دیں، چند دانشوروں کو بلا کر کسی بزم میں تقریریں کروا دیں، خواتین کے تحفظات پر کوئی لٹریچر شائع کروا دیں بلکہ یہ تو ادائے فرض کی صرف تمہید ہے، کتاب کا فقط دیباچہ ہے، عمارت کی محض بنیاد ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں؎
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلو بند


آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے حوالے سے ایوان صدر اسلام آباد میں تقریب تقریب کا اہتمام کیا گیا، جہاں روایتی تقریریں ہوئیں۔ اگلے برس بھی تقریب ہوگی، لیکن حالات تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں اور انسان کی نجات کا راستہ اسلام ہے، جیسا کہ قرآن مجید نے حقوق العباد کو قریبی تعلقات اور رشتوں تک محدود ہی نہیں رکھا، بلکہ اس دائرے کو ان لوگوں تک بھی پھیلا دیا، جو معاشرے کے ضعیف طبقات ہیں۔ اس میں قرآن مجید نے مزید یہ اہتمام کیا ہے کہ ان کے حقوق کی طرف الگ سے توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ ان کا ذکر رشتہ داروں اور قریبی تعلقات کے ساتھ کیا ہے۔ اس طرح قرآن نے یہ واضح کیا ہے کہ ان ضعیف اور کمزور لوگوں کا حق وہی ہے، جو والدین اور رشتہ داروں کا حق ہے اور جس طرح والدین اور رشتہ داروں اور دیگر تعلقات میں تعلقات کی قربت وجہ احسان و انفاق بنتی ہے، اسی طرح ان ضعفا کا ضعف و محرومی اور ان کی بے بسی ہی ان کو انسان کے اچھے رویئے کا مستحق بنا دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ قرآن مجید نے اجتماعی اموال کے خرچ کی مدات کو جہاں متعین کیا ہے، وہاں بھی ان طبقات کا خصوصی ذکر کرکے یہ واضح کیا ہے کہ افراد کے ساتھ یہ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ضعیف طبقات کا بوجھ اٹھائے۔ آج ایوان صدر اسلام آباد میں اس دن کی مناسبت سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، لیکن عملی طور پر اس میں پیش رفت کی توقع محال ہے۔
خبر کا کوڈ : 829050
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش