0
Thursday 19 Dec 2019 10:34

کوالالمپور کانفرنس۔۔۔۔ مسلم دشمن بے نقاب ہوگئے

کوالالمپور کانفرنس۔۔۔۔ مسلم دشمن بے نقاب ہوگئے
تحریر: تصور حسین شہزاد

کوالالمپور کانفرنس کیخلاف سعودی عرب کا خبث باطن کھل کر سامنے آگیا ہے۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین نے کہا ہے کہ کوالالمپور کانفرنس اُمت میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش ہے، او آئی سی سے باہر مشترکہ جدوجہد اسلام اور امت مسلمہ کو کمزور کر دے گی۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ جدوجہد او آئی سی کے پلیٹ فارم سے کی جانے ضرورت ہے۔ ڈاکٹر یوسف نے یہ بیان تو جاری کر دیا اور ’’مشترکہ جدوجہد کی جانے کی ضرورت‘‘ بھی کہہ دیا، مگر کبھی یہ ضرورت خود محسوس نہیں کی، جب بھی مسلم امہ پر مشکل وقت آیا یہ گہری نیند سو گئے اور اب مسلمان جاگ رہے ہیں تو انہین فکر لاحق ہوگئی ہے۔ 4 روزہ کوالالمپور کانفرنس پاکستان ترکی، ملائیشیا کی تجویز پر بلائی گئی ہے، جس میں ایران سمیت دنیا بھر سے مسلم ممالک کے سربراہان اور نمائندگان شریک ہیں جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شریک نہیں ہوئے۔

کانفرنس کا آغاز مہاتیر محمد کے خطاب سے ہوگا، جس میں وہ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل اور چینلجز پر روشنی ڈالیں گے۔ قطر کے امیر شیخ تمیم حماد، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان، ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی بھی پہلے سیشن سے خطاب کریں گے۔ انڈونیشیاء کی نمائندگی نائب صدر معروف امین کر رہے ہیں جبکہ ازبکستان کی نمائندگی ازبک صدر کے مشیر رستم قاسموف کر ر ہے ہیں۔ دیگر 56 مسلم ممالک سے 450 مندوبین بھی پہنچ چکے ہیں۔ کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اسلامو فوبیا اور جنگوں کے باعث اپنے ممالک سے مسلمانوں کی ہجرت ہے، جس کے باعث مسلمان مسائل کا شکار ہیں۔ کانفرنس میں نوجوانوں کیلئے بھی خصوصی نشست کا اہتمام ہوگا۔ اس میں نوجوانوں کے مسائل اور ملکوں کی ترقی میں نوجوانوں کے کردار پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ نوجوانوں کی نشست میں پاس ہونیوالی متفقہ قرارداد مرکزی کانفرنس کے شرکاء کو دی جائے گی۔ کانفرنس کی کوریج کیلئے 800 کے قریب ملکی و غیر ملکی صحافی بھی کوالالمپور پہنچ چکے ہیں۔

گذشتہ روز ملائیشیاء کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور ایران صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے درمیان ملاقات بھی ہوئی، اس ملاقات میں مہاتیر محمد نے ایران پر امریکہ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ ایران کا اس کانفرنس میں شرکت کا مقصد ایشیائی ممالک کیساتھ اپنے تجارتی تعلقات کا فروغ اور اسلام کیخلاف ہونیوالی سازشوں کے تدارک کیلئے پالیسی کی تیاری میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ درحقیقت یہ کانفرنس اُمت کے مسائل اور اسلام کی سربلندی کی کانفرنس ہے۔ اس کانفرنس کے ذریعے ماضی میں اسلام کیخلاف ہونیوالی سازشوں اور اسلام کو دہشتگرد مذہب بنا کر پیش کرنے کی سوچ کے برعکس اسلام کا اصل چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ماضی میں سعودی عرب کی مالی مدد سے القاعدہ، طالبان، داعش جیسی تنظیموں کو وجود میں لاکر اسلام کا بدنام کرنے کی گھناونی سازش کی گئی۔ یہ تنظیمیں اسلام کے نام پر تو بنیں، مگر ان کا اسلام سے دُور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا انہی عاقبت نا اندیشیوں کی وجہ سے اسلام سے خوفزدہ ہے۔

حالیہ کانفرنس سے سعودی عرب کے پیٹ میں اٹھنے والا مروڑ ثابت کرتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ اسلام کی اصل تصویر دنیا کے سامنے آئے، یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح یہ کانفرنس ناکام ہو جائے۔ عمران خان کو کانفرنس میں شرکت سے روک کر سعودی عرب یہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے بہت بڑا تیر مار لیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک سورج ہے، جو بادلوں کے پیچھے بھی ہو تو بھی روشنی دیتا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پہلے ہی کوالالمپور کانفرنس کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا اور اب او آئی سی کی جانب سے کھل کر کوالالمپور کانفرنس کی مذمت کر دی گئی ہے۔ او آئی سی کی سربراہی اس وقت سعودی عرب کے پاس ہے۔ جب سے او آئی سی سعودی گود میں گئی ہے، مردہ گھوڑا بن کر رہ گئی ہے۔

مسلمانوں کے کسی بھی مسئلے پر او آئی سی نے سوائے ایک مردنی سا مذمتی بیان جاری کرنے کے سوا کے کچھ نہیں کیا۔ مسئلہ فسلطین ہو یا کشمیر، او آئی سی نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی بھی اسرائیل و بھارت کے مظالم کیخلاف آواز نہیں اٹھائی۔ کشمیر میں گذشتہ 4 ماہ سے لاک ڈاون ہے، ادویات نایاب ہیں، خوراک ختم ہوچکی ہے، کشمیریوں کیلئے وادی کو جیل بنا دیا گیا ہے، مگر او آئی سی ٹس سے مس نہیں ہوئی بلکہ محمد بن سلمان نے مودی کو بلا کر بڑے اعزاز سے نواز دیا۔ جب او آئی سی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے تساہل سے کام لے رہی تھی اور عضو معطل بن کر رہ گئی تھی تو ایسے میں مسلمان ممالک کے قائدین نے امت کے مسائل حل کرنے کیلئے الگ سے ایک بیٹھک کا اہتمام کیا۔ اس کی تجویز بھی بذات خود عمران خان نے دی، جس پر ملایشیاء اور ترکی نے حامی بھر لی اور اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ہی "کوالالمپور کانفرنس" کے مقاصد اور اہداف کا ایک خاکہ تیار کیا گیا اور باقی معاملات کانفرنس میں ہی طے کئے جانے تھے۔

تمام تیاریاں مکمل تھیں۔ عمران خان کا دورہ شیڈولڈ تھا، مگر اچانک سعودی عرب سے "کال" آگئی اور عمران خان کو یقیناً وہاں بلوا کر ڈرایا دھمکایا گیا ہے کہ اگر اس کانفرنس میں شرکت کی تو پٹرول بھی بند کر دیں گے اور 3 ارب ڈالر کا جو ریلیف دیا گیا ہے، وہ بھی واپس لے لیں گے، جبکہ آرمی چیف یو اے ای گئے، جہاں انہوں نے متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کی باتیں سنیں۔ یقیناً یہ پاکستان کیلئے ایک مشکل مرحلہ تھا، جس پر عمران خان نے سعودی شاہ کے سامنے ہتھیار  ڈال دیئے اور وعدہ کر لیا کہ وہ کوالالمپور کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے اور اپنی جگہ پر وزیر خارجہ کو بھیج دیں گے، عمران خان کے وطن واپس پہنچنے پر دوبارہ عمران خان کو "شاہ" کا فون آگیا کہ نہ آپ نے جانا ہے اور نہ ہی شاہ محمود قریشی کو بھیجنا ہے۔ جس پر عمران خان نے اس کی بھی حامی بھر لی۔

عمران خان نے مہاتیر محمد کو ٹیلی فون کرکے اپنی پوزیشن سے آگاہ کر دیا۔ جس پر انہوں نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ "ہم پاکستان کی مجبوریاں سمجھتے ہیں" جبکہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ "اگر پاکستان اس کانفرنس میں شرکت کرتا تو بہت اچھا ہوتا۔" سعودی عرب خود کو امریکی دوستی میں اتنا غرق ہے کہ اس دوستی میں اُمت مسلمہ کا مفاد بھی داؤ پر لگا چکا ہے، جبکہ دوسری جانب اگر امت اپنے مسائل کیلئے سر جوڑتی ہے تو اس میں بھی رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ امت سعودی عرب سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ او آئی سی مسلمانوں کی تنظیم ہے یا امریکی مفادات کی محافظ؟ امریکہ کا معاملہ ہو تو او آئی سی کے ذمہ داروں کو نیند تک نہیں آتی اور مسلمان مظالم کا شکار ہو رہے ہوں تو چشم پوشی کر لی جاتی ہے۔

عمران خان کے انکار کے بعد مہاتیر محمد نے سعودی عرب کے شاہ سلمان کو ٹیلی فون کیا اور انہیں کوالالمپور کانفرنس کے حوالے سے سعودی عرب کے بے بنیاد تحفظات کے حوالے سے بتایا۔ ذرائع کے مطابق مہاتیر محمد نے واضح کیا کہ کوالالمپور کانفرنس کوئی نیا مسلم بلاک نہیں بن رہا بلکہ اس پلیٹ فارم سے مسلم امہ کے مسائل اور اسلامو فوبیا کو کاونٹر کرنے کیلئے پالیسی بنائی جانی تھی۔ مہاتیر محمد نے یہ بھی کہا ہوگا کہ او آئی سی خود تو کچھ کر نہیں رہی اور اگر ہم اسلام کے دفاع میں نکل رہے ہیں تو اس پر آپ سیخ پا کیوں ہو رہے ہیں۔؟ مہاتیر محمد نے جلد سعودی عرب کا دورہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ مبصرین کہتے ہیں مہاتیر محمد ایک بہادر رہنما ہیں، وہ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے۔

توقع کی جا سکتی ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای کی مخالفت اور پاکستان کی عدم شرکت کے باوجود یہ کانفرنس کامیاب ہوگی، کیونکہ دنیا کے تمام مسلم ممالک یہ جان چکے ہیں کہ سعودی عرب میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ مسلم امہ کے مسائل حل کرسکے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے امریکہ و اسرائیل کیساتھ تعلقات بھی سعودی عرب کے امت مسلمہ کیساتھ مخلص ہونے کو مشکوک بناتے ہیں۔ دوسری جانب اسلامو فوبیا کے باعث دنیا بھر میں مسلمانوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ضرورت تو تھی کہ اس حوالے سے سعودی عرب کردار ادا کرتا، مگر اس کی جانب سے مسلسل خاموشی نے مسلم رہنماوں کو مجبور کر دیا کہ وہ الگ سے اسلام کے دفاع کیلئے نئی پالیسی بنائیں، جس پر کام شروع ہوا تو اسلام کے مخالف مخالفت میں آکر خود ہی بے نقاب ہوگئے۔
خبر کا کوڈ : 833602
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش