0
Tuesday 24 Dec 2019 19:00

وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ، مگر کیوں؟

وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ، مگر کیوں؟
تحریر: شیخ فدا علی ذیشان

 پاکستانی قوم نے مختلف افراد کو بہت زیادہ آزمایا، مگر نہ کوئی خاطر خواہ ترقی  ہوئی اور نہ کوئی کام ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ نہ صحیح طرح داخلہ پالیسی بنی اور نہ خارجہ پالیسی ملک کے مفاد میں بنائی گئی۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو قوم نے اس نعرے کو پسند کیا اور خان کی تبدیلی کے نعروں و تقریروں سے پاکستانیوں کو یقین ہوا کہ اب خان ہی تبدیلی لاسکتا ہے۔ قوم نے انہی کو مسیحا سمجھا اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے خان کو طاقتور کرنے کا عزم کیا۔ ووٹ کی طاقت سے خان کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر پہنچا دیا۔ اس پراسیس کے دوران کرپشن کے خلاف بڑی بڑی تقریریں کی گئیں۔ آزادی مارچ جب دھرنا میں تبدیل ہوا، تب بڑی بڑی باتیں کیں، مثلاً کہا کہ میں کسی سے کوئی قرضہ نہیں لوں گا، میں آئی ایم ایف نہیں جاوں گا، میں عرب ممالک کی غلامی کبھی بھی اختیار نہیں کروں گا، بڑے بڑے چوروں کو پکڑا جائے گا اور امام خمینی کی طرح اقتدار نچلی سطح پہ منتقل کروں گا۔

وہ بارہا کہتے کہ میں پاکستان کو دنیا میں اس کی عزت لوٹا دوں گا۔ اپنی ہر تقریر ایاک نعبدو و ایاک نستعین سے ہی شروع کرتے۔ عام لوگ تو عام لوگ! میں خود بھی خان کے نعروں سے بہت متاثر تھا اور سوچتا تھا کہ شاید خان کو وزارت کی کرسی مل جائے تو حقیقی تبدیلی آجائے۔ بطور اپوزیشن رہنماء ان کی مختلف تقریریں سننے کے بعد ہر کوئی، خصوصاً نوجوان طبقہ نے عمران خان کو پاکستان کا ایک مسیحا سمجھا! اس لئے کیونکہ خان نے کبھی خمینی کے انقلاب کا تذکرہ کیا تو کبھی علامہ اقبال کے اشعار سنا کر گرمایا۔ اپنے دعوؤں پر یقین دلانے کیلئے قرآنی آیات کا سہارا لیا اور بار بار ریاست مدینہ کی مثال پیش کی۔ مگر۔۔۔۔۔

وزارت عظمیٰ کی کرسی ملنے کے بعد وزیراعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنانے کے دعووں کی قلعی کھلنے اور وزیراعظم ہاوس کی بھینسوں کو فروخت کرکے قناعت شو کرنے جیسے احمقانہ کاموں نے واضح کر دیا کہ خان حقیقی تبدیلی کے خواہاں نہیں بلکہ جعلی تبدیلی اور غیر ضروری کاموں سے لوگوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ بلند و بانگ دعوے اور تبدیلی کے نئے نعرے نے کرکٹ کھلاڑی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی تو دلوا دی، مگر سابقہ ادوار کے حکمرانوں کی طرح یہ بھی جھوٹے اور فریب کار حاکم ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ جس طرح کے دعوے کئے تھے، ابتک اپنے ایک دعوے کو بھی سچ کرکے نہیں دکھا سکے، بلکہ ہر اہم موڑ پر یو ٹرن لیا۔

بالخصوص تاریخ کے اہم ترین موڑ پر جب بعض مسلمان ممالک نے پہلی مرتبہ اپنی طاقت کو منوانے کے لئے اور شیطان بزرگ کی اجارہ داری کے ماتحت رہنے کی بجائے عالم اسلام کے مفاد میں آپس میں سرجوڑ کر بعض امور کو طے کرنا چاہا اور خان نے وعدہ بھی کیا تھا کہ میں کوالالمپور سمٹ میں شریک ہوں گا، مگر اس اہم موقعہ پر تبدیلی سرکار نے عربوں کی غلامی کا حق ادا کیا۔ سعودی عرب جا کر کوالالمپور سمٹ میں جانے سے معذرت خواہی کی۔ ترکی کے صدر اور معتبر عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق عرب حکمرانوں نے وزیراعظم کو دھمکی دی اور کچھ راز کی باتیں کیں، جس نے خان کو اپنے پسندیدہ کام کرنے، یعنی یوٹرن لینے پر مجبور کر دیا۔ یوں ملکی تاریخ کی ایک بڑی خیانت کی اور وعدہ خلافی کی مثال قائم کی۔

 اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ مطالبہ غیر معقول نہیں لگتا کہ عمران خان کو اب وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے، انہیں فوراً اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیئے۔ عظیم لیڈر یوٹرن سے نہیں بلکہ اپنے منشور پر قائم رہنے سے بنتا ہے۔ جس خمینی کی یہ خان صاحب بات کرتے پھرتے ہیں، شاید یہ خمینی کی دور اندیشی اور انقلاب سے سرسری سی بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ ایک طرف دنیا کے بڑے بڑے حکمران، ایک طرف خمینی۔ مگر وہ خمینی جلاوطنی کے دوران بھی اپنے منشور سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوئے۔ امام خمینی کو عراق جلا وطن کیا جاتا ہے، عراق سے کویت، پھر کویت سے فرانس بھیجا جاتا ہے، مگر پھر بھی اپنے منشور سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے تھے عظیم لیڈر امام خمینی۔

مگر خان صاحب؛ آپ کی باتیں کچھ اور، آپ کا وطیرہ کچھ اور۔ ایسے میں اب آپ کی عزت اسی میں ہے کہ آپ قوم سے معافی مانگیں اس بات پر کہ آپ قوم کے لئے کچھ نہ کرسکا۔ آپ سے قوم نے یہ حقیقت جان لی ہے کہ کہنا آسان اور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آپ مستعفی ہو جائیں، تاکہ ہم سمجھیں کہ آپ کرسی کے بھوکے نہیں ہیں بلکہ کچھ کرنا چاہتے تھے، مگر اس کی اہلیت آپ میں نہیں۔ اپنے وعدے اور دعووں کے مطابق کارکردگی نہ دکھا سکنے پہ مستعفی ہو جانا بڑائی کی علامت سمجھی جائیگی، تاریخ آپ کی اس بڑائی کو یاد رکھے گی۔
خبر کا کوڈ : 834616
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش