0
Tuesday 3 Mar 2020 23:42

شام کے صوبہ ادلب کی پیچیدہ صورتحال

شام کے صوبہ ادلب کی پیچیدہ صورتحال
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے حال ہی میں شام کے صوبہ ادلب میں "بہار کی ڈھال" نامی فوجی آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ اس آپریشن میں پندرہ ہزار ترک فوجی اور 3500 سے زائد فوجی گاڑیاں شامل ہیں۔ اسی طرح ترکی اپنے اس آپریشن میں النصرہ فرنٹ سمیت دیگر دہشت گرد قرار دیے گئے گروہوں کو بھی استعمال کر رہا ہے۔ ترکی نے ان گروہوں کو اینٹی ایئر میزائلوں سے لیس کر دیا ہے۔ یہ میزائل امریکہ اسٹینگر میزائلوں کی ترقی یافتہ ورژن ہیں۔ ترکی کی جانب سے دہشت گرد عناصر کو فراہم کئے گئے یہ میزائل نہ صرف شام کے جنگی طیاروں کیلئے خطرہ تصور کئے جا رہے ہیں بلکہ روس کی فضائیہ کیلئے بھی خطرہ ہیں۔ ماسکو انقرہ کے اس اقدام کو تمام ریڈ لائنز سے عبور قرار دے چکا ہے۔ رجب طیب اردگان شام میں روس سے براہ راست ٹکر لینا نہیں چاہتے کیونکہ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ ایسی صورت میں فتح سے ہمکنار نہیں ہو سکتے۔ روس ضرورت پڑنے پر محدود پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیاروں کا بھی استعمال کر سکتا ہے۔ یہ وارننگ حال ہی میں روس کے ایک سیاسی تجزیہ کار نے دی ہے۔

روس ادلب میں ہزاروں فوجیوں اور فوجی سازوسامان کا استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ میدان جنگ سے اس کا فاصلہ بہت زیادہ ہے لیکن وہ شام میں واقع اپنے حمیمیم ایئربیس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور جدید ترین جنگی اور بمبار طیارے وہاں بھیج سکتا ہے۔ شام کے صوبہ لاذقیہ کے قریب واقع یہ روسی فوجی اڈہ بہت حد تک اس کی کمزوریاں دور کرنے کے قابل ہے۔ ترک فوجیوں اور ان کے اتحادی تکفیری دہشت گرد عناصر کے درمیان فرق کرنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ یہ دونوں شام اور روس کے خلاف ایک محاذ پر کھڑے ہیں۔ اسی طرح دہشت گرد عناصر میں سے معتدل اور شدت پسند عناصر کے درمیان فرق کرنا ممکن نہیں ہے۔ ادلب کے قریب ایک فضائی حملے میں چونتیس ترک فوجیوں کی ہلاکت شاید روس کی جانب سے ترکی کو ایک وارننگ تھی جو رجب طیب اردگان کی جانب سے سوچی اور آستانہ معاہدوں کی واضح خلاف ورزی اور ادلب کے خلاف اعلان جنگ کرنے کے خلاف اعتراض کے طور پر دی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رجب طیب اردگان نے اپنے ان فوجیوں کی ہلاکت کا الزام کبھی بھی روس پر عائد نہیں کیا بلکہ شام کو ان کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

شاید رجب طیب اردگان روس کو اشتعال دلانا چاہتے ہیں اور روس کے ساتھ معاہدے کے حصول کیلئے اس پھندے سے نکلنے میں امیدوار ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بحران سے باہر نکلنے کا واحد راستہ روس کی ترجیحات اور شرائط کی بنیاد پر ماسکو سے اتفاق رائے میں مضمر ہے کیونکہ روس کو سیاسی اور فوجی دونوں میدانوں میں برتری حاصل ہے۔ رجب طیب اردگان کی جانب سے اپنے فوجیوں کی مدد کیلئے امریکہ سے ادلب میں پیٹریاٹ میزائل سسٹم نصب کرنے کی درخواست کا مطلب یہ ہے کہ ترکی روس کا ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم اسی کے جنگی طیاروں کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف یمن میں انصاراللہ نے سعودی عرب پر اپنے ہوائی حملوں کے ذریعے امریکہ کے پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم کی افادیت کو مشکوک بنا ڈالا ہے لہذا ترکی شام اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اس میزائل سسٹم پر کس طرح اعتماد کر سکتا ہے؟ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان شام کے صوبہ ادلب میں فوجی آپریشن کے ذریعے عراق میں امریکہ کی فوجی جارحیت پر مبنی ماڈل پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں۔ رجب طیب اردگان اب تک کئی بار شام کے صدر بشار اسد کی حکومت گرانے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔

ترکی کے صدر اس حقیقت سے غافل ہیں کہ شام کی مسلح افواج عراق کی مسلح افواج سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں جبکہ شام کو روس جیسی عالمی طاقت کی بھی مدد اور حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف شام آرمی اب تک اپنی اتحادی افواج کی مدد سے ملک کے 80 فیصد سے زیادہ علاقہ تکفیری دہشت گرد عناصر کے قبضے سے آزاد کروا چکی ہے۔ دوسری طرف امریکہ صرف چند سال تک ہی عراق میں رہ سکا اور اس دوران اس کے 3500 فوجی ہلاک اور تیس ہزار سے زائد فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ امریکہ چھ کھرب ڈالر کے اخراجات برداشت کرنے کے بعد عراق سے نکلنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اب تک امریکہ اور نیٹو بھی شام میں فوجی مداخلت میں ترکی کی مدد کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ ترکی نے مہاجرین کا کارڈ بھی استعمال کر کے دیکھ لیا ہے اور یورپی ممالک کو مہاجرین کے ذریعے بلیک میل کرنے کی کوشش بھی ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔ لہذا ترکی ادلب میں اپنے فوجی آپریشن میں تنہا ہے اور کوئی اس غیرقانونی اقدام میں اس کا شریک ہونے کیلئے تیار نظر نہیں آتا۔

شام آرمی ادلب کو غیرملکی دہشت گرد عناصر سے آزاد کروانے میں تنہا نہیں بلکہ حزب اللہ لبنان اور حشد الشعبی عراق سمیت دیگر اتحادی قوتیں بھی اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ یوں ادلب کی جنگ ایک محدود جنگ نہیں بلکہ اس کا دائرہ خطے کی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔ حزب اللہ لبنان اپنی تاریخ پیدائش سے لے کر اب تک کسی جنگ میں ہار کا شکار نہیں ہوئی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حزب اللہ لبنان کا سامنا اسرائیل سے ہو یا امریکہ کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گرد عناصر سے ہو یا ترکی کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گرد گروہوں سے ہو۔ اگر رجب طیب اردگان یہ تصور کر رہے ہیں کہ وہ اہداف جنہیں وہ گذشتہ نو برس کے دوران حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اب انہیں حاصل کر سکتے ہیں تو وہ شدید غلطی کا شکار ہیں۔ کیونکہ اس وقت تکفیری دہشت گرد عناصر دمشق کے دروازے پر کھڑے تھے اور انہیں دنیا کے 95 ممالک کی حمایت حاصل تھی اور امریکہ اور عرب ممالک سے اربوں ڈالر کے فنڈز دریافت کر رہے تھے جبکہ آج صورتحال بالکل برعکس ہے۔ آج علاقائی اور عالمی سطح پر شام کے صدر بشار اسد کی پوزیشن انتہائی مضبوط ہو چکی ہے جبکہ روس بھی شام میں پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں۔ شام اور لیبیا سے ترک فوجیوں کے تابوت جب ترکی پہنچیں گے تو مزید اضطراب اور ہلچل کا باعث بنیں گے۔
خبر کا کوڈ : 848234
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش