0
Wednesday 4 Mar 2020 17:03

ترکی کو دلدل سے نکالنے کی ضرورت ہے

ترکی کو دلدل سے نکالنے کی ضرورت ہے
تحریر: ثاقب اکبر

ترکی اس وقت شام میں اپنی پالیسیوں کی بنا پر جس انداز سے مشکلات میں گِھر چکا ہے، اس کے مخلصین کو چاہیئے کہ شاباش کہنے اور ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، کہنے کے بجائے اسے اس گرداب سے نکالنے کی کوشش کریں۔ شام کے شمال میں ادلب کے محاذ پر "جہادیوں " کی سرپرستی کرتے ہوئے ترکی مسلسل نقصانات اٹھا رہا ہے، اسے حوصلہ دے کر درست فیصلے تک پہنچانے کی ضرورت ہے، وگرنہ شام اور شامی عوام کو تو جو مصیبتیں سہنا پڑ رہی ہیں وہ اپنے مقام پر، ترکی بھی دلدل میں اترتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر راشد عباس نے ترکی کے بارے میں بہت پہلے "ترکی پاکستان کے راستے پر" کے زیر عنوان ایک مضمون لکھا تھا، جو ماہنامہ پیام نومبر 2012ء کی اشاعت میں موجود ہے۔ انہوں نے جو پیشگوئی اس مضمون میں کی تھی ہمیں آج یاد آرہی ہے۔

انہوں نے لکھا تھا: "ترکی کی شام میں مسلسل مداخلت، شام کی سرحدوں پر ترک فوج کی مشقیں، شام سے ملحقہ سرحدوں پر مہاجر کیمپ اور عسکری تربیتی مراکز، القاعدہ اور عرب جنگجوؤں کا ترکی میں اکٹھ، ترکی کے اندر بم دھماکے، ترکی کی حکومت کی امریکا نواز خارجہ پالیسی اور دیگر انگنت اقدامات ہیں، جن کو دیکھ کر 80 کی دہائی کا پاکستان یاد آجاتا ہے۔ افغانستان پر جب روسی جارحیت کا آغاز ہوا تو پاکستان کے طالع آزماؤں نے جس طرح پاکستان کو اس جنگ میں جھونکا اور جس طرح امریکا اور بعض عرب ملکوں کی مدد سے خطے میں جہاد کا نعرہ بلند کیا، اس کے منفی اثرات آج ہر باشعور آدمی آسانی سے محسوس کر رہا ہے۔" ڈاکٹر راشد عباس نے اس کے بعد پاکستان پر کیا گزری، اس کا ایک نقشہ پیش کیا ہے، اس کے بعد مزید لکھتے ہیں: "آج ترکی بھی 80 کی دہائی کے پاکستان کی روش پر گامزن ہے، وہ شام کے خلاف امریکا اور اسرائیل کی جنگ لڑ رہا ہے۔ شام میں بھی امریکی اور عرب بالخصوص سعودی سرمائے کی ریل پیل ہے۔ ترکی بھی پاکستان و افغانستان سمیت دنیا کے عسکریت پسندوں کو اپنے ملک میں جمع کر رہا ہے۔ ترکی شام میں نام نہاد جہادی اور جدید ترین اسلحہ بھیج رہا ہے۔"

وہ مزید لکھتے ہیں: "ترکی خلافت عثمانیہ کے احیاء اور اپنے تخیلاتی دور کو واپس لانے کے لیے امریکی اور یورپی ٹینکوں پر سوار ہوکر اسرائیل کے راستے کی سب پہلی اور مضبوط دیوار گرانا چاہتا ہے۔ شام صہیونی مزاحمت کا ایک مرکز سمجھا جاتا ہے۔ حماس اور جہاد اسلامی جیسی تمام چھوٹی بڑی فلسطینی تنظیموں کا مرکز اور محفوظ ٹھکانہ شام ہے۔ حافظ الاسد ہو یا بشار الاسد، ان کے نظام حکومت اور داخلی پالیسیوں پر لاتعداد سوال اٹھائے جاسکتے ہیں، لیکن یہ بات دشمن بھی قبول کرتا ہے کہ فلسطین، لبنان اور حزب اللہ کے حوالے سے شام کا ماضی انتہائی شاندار ہے۔" ڈاکٹر راشد عباس مضمون کے آخر میں پیشگوئی کرتے ہیں: "ترکی کے ہمسایہ ملک جہادیوں کی کارستانیوں سے تنگ آکر پہلے سفارتی اور پھر عملی احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے۔ ترکی علاقائی اور عالمی سطح پر تنہا سے تنہا تر ہوتا چلا جائے گا اور بالآخر امریکا بھی اس سے منہ پھیر لے گا۔ پاکستان جس دلدل میں 80 کی دہائی میں گرا تھا، آج 2012 میں ترکی اسی دلدل میں گر رہا ہے۔ پاکستان کو موجودہ صورتحال تک پہنچنے میں تیس سال سے زائد کچھ عرصہ لگا، لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ ترکی کو اس حالت تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔"

اس مضمون کو لکھے ہوئے پورے ساڑھے سات سال نہیں ہوئے، لیکن اس میں بیان کی گئیں باتیں آج بہت حد تک پوری ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ سعودی عرب اور اس کے ہمنوا شام سے الگ ہوچکے ہیں، حزب اللہ اور ایران شام کے ساتھ کھڑے ہیں، امریکا جیسے افغانستان سے فرار کر گیا تھا، اصولی طور پر شام سے رخصت ہوچکا ہے، جب تک شام اور ترکی کی فوجیں آپس میں نبردآزما ہیں، اتنی دیر تک شام کے تیل کے کنوؤں سے لوٹ مار کرتا رہے گا اور جب یہ جنگ ختم ہو جائے گی تو وہ یہاں سے اپنا بوریا بستر پوری طرح سمیٹ کر چلتا بنے گا۔ شام اور ترکی کی فوجوں کو آمنے سامنے کرنے میں بنیادی کردار امریکا ہی کا ہے، جس نے قبل ازیں شام کے کردوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی اور ان کی ایک فوج تیار کرکے شامی حکومت کے خلاف اسے سرگرم رکھے ہوئے تھا، اسی طرح دیگر دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی بھی کر رہا تھا۔ کردوں کی اس فوج کے سر سے ہاتھ اٹھانے کے بعد اس نے ترکی کے ساتھ معاہدہ کیا کہ اب ان سے اور شامی فوج سے نمٹنے کا کام ترکی کے ذمہ ہوگا اور امریکا اس میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا، بشرطیکہ امریکا شامی تیل کی جو لوٹ مار کر رہا ہے، اس سے کوئی سروکار نہ رکھا جائے۔

ترکی کو توقع تھی کہ وہ نیٹو کا رکن ہے، لہٰذا وہ اس کی مدد کو آئے گا، لیکن یہ ترکی کی خام خیالی تھی، امریکا کی سرپرستی میں بننے والا یہ اتحاد اسرائیل کی مدد تو کرسکتا ہے، ترکی جو بہرحال ایک مسلمان ملک ہے، اس کی مدد نہیں کرسکتا۔ ترکی کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ بلغاریہ، یونان اور دیگر یورپی ملکوں کی طرف شامی مہاجرین کو دھکیلنے کا خوف دلا کر ان کی مدد حاصل کرسکے گا، لیکن ابھی تک یورپیوں کی طرف سے بھی زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔ یورپی ممالک نے ترکی کی عملی مدد کرنے کے بجائے صرف نصیحتیں کرنے اور جنگ بندی کی فرمائش دہرانے پر اکتفا کیا ہے۔ دوسری طرف شامی فوج جسے آٹھ سال سے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کا تجربہ حاصل ہوچکا ہے، پے در پے آگے کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اس نے شام کے اقتصادی مرکز حلب کو دہشتگردوں سے آزاد کروا لیا ہے اور اب وہ ادلب کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔ ادلب کے نہایت اہم قصبے سراقب پر پہلے مرحلے میں شامی فوج نے قبضہ کر لیا، تاہم ترک فوج کی مدد سے تحریر الشام اور دیگر دہشتگرد گروہوں نے ایک مرتبہ پھر سراقب کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، لیکن اب پھر شامی فوجوں نے سراقب کو واپس لے لیا ہے۔ اس وقت سراقب میں روسی پولیس خدمات انجام دے رہی ہے اور شامی فوج اردگرد کے قصبوں کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔ طرفین مختلف دعوے کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے اعلانات کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ روز ترک فوج نے شام کے ایک فوجی طیارے کو مار گرایا، جبکہ تازہ معرکوں میں شامی فوج نے ترکی کے سات ڈرونز مار گرائے ہیں۔

روس اس جنگ میں شامی حکومت کے ساتھ ہے، البتہ ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر اس نے شام کے بارے میں متعدد امن معاہدے بھی کیے ہیں، کیونکہ روس کے ترکی کے ساتھ بھی وسیع اقتصادی روابط ہیں۔ ترکی کے ساتھ اس نے ایئر ڈیفنس کی فراہمی کا ایک نہایت اہم معاہدہ بھی کیا ہے، جس کی امریکا نے سخت مخالفت کی ہے، اس کے باوجود ترکی اس معاہدے پر کاربند ہے۔ گذشتہ روز (منگل 3 مارچ) ترکی کے ذرائع ابلاغ نے روس کے بحری جہاز نوچر کاسکا کی شام کی طرف حرکت کی خبر دی۔ خبر رساں ایجنسی سپوتنک کے مطابق یہ بحری جہاز جدید ترین اور بھاری فوجی اسلحے سے لیس ہے۔ اس سے پہلے روس کے تین مختلف بحری جہاز جو جدید اسلحے سے لیس ہیں، اس خطے میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ فوجی نقل و حرکت کسی خیر کی خبر کی حامل نہیں ہے۔

ہماری رائے میں ترکی کو آخر کار شام کی سرزمین سے باہر نکلنا ہے۔ ترکی ترکوں کا ہے اور شام شامیوں کا ہے، اسی اصول کے تحت دنیا میں امن قائم رہ سکتا ہے۔ کسی ملک کے اندر موجود کسی دہشتگرد گروہ سے اگر شکایت لاحق ہو تو پھر اسی ملک سے بات کرکے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ کسی ملک کے اندر کسی دہشتگرد گروہ کو فوجی مدد فراہم کرکے کسی دوسرے گروہ کو روکنے کا جواز پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ روس اور ایران اس امر کی طرف بارہا توجہ دلا رہے ہیں کہ ترکی کے ساتھ مل کر تینوں ممالک نے سوچی میں شام کے بارے میں جو معاہدہ کیا تھا، ترکی نے اس کی پابندی نہیں کی۔ اس معاہدے کے مطابق مسلح گروہوں کو شام کے شمال میں بیس کلو میٹر عرض کے علاقے میں محدود کیا جانا تھا، لیکن ترکی نے اس معاہدے کی پابندی کرنے کے بجائے مسلح دہشتگردوں کو منظم کرکے شامی فوج کے مقابل صف آرا کرنے کا راستہ اختیار کیا اور انھیں بھاری اسلحہ بھی مہیا کیا۔

ترک فوج بھی ان کے ساتھ اس وقت میدان میں موجود ہے۔ اس صورتحال میں اگر ترکی پر شامی مہاجرین کے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا ذمہ دار خود ترکی بھی ہے۔ مہاجرین کو بہانا بنانا گویا اپنے مفادات کے لیے انسانوں کو سپر قرار دینا ہے۔ پاکستان جو بظاہر اپنے آپ کو مشرق وسطی کی جنگوں میں غیر جانبدار ظاہر کرتا ہے، حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی۔ تاہم اپنے ماضی کے تجربات کی روشنی میں پاکستان، ترکی اور اپنے دیگر دوستوں کو اچھا مشورہ ضرور دے سکتا ہے۔ آج ترکی کے لیے اچھا مشورہ یہی ہے کہ وہ شام سے اپنی فوج باہر نکالے، شام کے اقتدار اعلیٰ کا احترام کرے اور اسے مہاجرین کے بارے میں یا شام کے اندر موجود کسی گروہ سے تحفظات ہیں تو اس کے لیے وہ شام اور دیگر موثر ممالک کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ وہی راستہ جو آخرکار امریکا کو افغانستان میں طالبان کے ساتھ اختیار کرنا پڑا ہے۔
خبر کا کوڈ : 848405
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش