0
Thursday 12 Mar 2020 14:14

بلیک میلنگ کی انتہاء

بلیک میلنگ کی انتہاء
اداریہ
دنیا میں ہر جنگ کے کچھ اصول و ضوابط یا دوسرے الفاظ میں آداب و اقدار ہوتے ہیں۔ ماضی کے دورِ جہالت میں بھی جب جنگیں ہوتیں تو کوئی نہ کوئی اصول ضرور ہوتے، جنکا متحارب گروپ خیال کرتے۔ آج کی بظاہر مہذب دنیا میں بھی اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے جنگوں کے لیے کچھ پروٹوکولz تیار کر رکھے ہیں اور ان پرٹوکولz کو عالمی برادری کے سامنے پیش بھی کیا جاتا رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کے دیگر امور میں سے ایک ملکوں کے درمیان جنگ و جدل کو روکنا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشن کی ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کے قیام کا ایک مقصد دنیا کو جنگوں سے محفوظ بنانا تھا اور بعید نہیں کہ اقوام متحدہ کے سب سے اہم ادارے کا نام سیکورٹی کونسل یا سلامتی کونسل بھی اسی لیے رکھا گیا ہو۔ سلامتی اور سیکورٹی، عدم سلامتی یعنی جنگ کا متضاد لفظ ہے۔ سلامتی کونسل کا تصور تو دنیا میں امن و سلامتی کا رواج دینا تھا، لیکن اسکا ڈھانچہ اور اس کونسل کے مستقل اراکین کی منفی پالیسیوں نے اس تصور کا بیڑا غرق کر دیا۔ آج کل مختلف ممالک کے درمیان جنگ کی نوعیت اور قسموں میں فرق ہے۔

کبھی سرد جنگ اور کبھی سافٹ اور ہارڈ وار کی اصطلاحیں بولی جاتی ہیں، لیکن جنگ کی ایک قسم کو چومکھی جنگ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے، جس کے بنیادی عوامل میں نظریاتی اور اس میں دنیا پر غلبے کے اھداف و مقاصد شامل ہیں۔ آج ایران کے خلاف امریکہ کی جنگ کو چومکھی جنگ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اقتصادی، ثقافتی، سیاسی، ابلاغی، سفارتی اور حیاتیاتی جنگ کے ساتھ ایک نفسیاتی جنگ بھی ہے، جس میں امریکہ اور اسکے حواری سب سے آگے ہیں۔ امریکہ نے گذشتہ اکتالیس برسوں میں ایران کے خلاف رائج جنگوں میں سے ہر جنگ کو آزمایا ہے، تاکہ ایران کے اسلامی انقلاب اور جمہوری حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے، لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آج کل ایران کرونا وائرس کی وباء میں مبتلا ہے۔ اس وائرس میں مبتلا اور اس سے مرنے والون کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، جس سے ایران میں تشویش میں اضافہ ہونا ایک فطری امر ہے، لیکن مشکلات اور مصائب کی اس گھڑی میں بھی امریکہ نے زیادہ سے زیادہ دباوء کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے ایران کو اپنے نشانے پر لیا ہوا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گذشتہ روز ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ایران میں کرونا وائرس پھیل رہا ہے، لہٰذا ایران میں گرفتار امریکی قیدیوں (جاسوسوں) کو ایران فوری طور پر رہا کر دے۔ امریکی وزیر خارجہ نے ایک اور مقام پر اپنے اتحادیوں کو تلقین کی ہے کہ اگر وہ ایران کو کرونا کیوجہ سے انسان دوستانہ بنیاد پر مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس مدد کو امریکی قیدیوں کی رہائی سے مشروط کریں۔ امریکی وزیر خارجہ نے یہ بیان دیکر اپنے جاسوسوں کی رہائی کا مسئلہ اٹھایا ہے، جس پر امریکہ کی ریاست ماسوچیسٹ کے میئر نے کہا ہے کہ اس طرح کے بیانات اور دباو کا مقصد کرونا وائرس کے مسئلے کو پس منظر میں دھکیلنا ہے۔ امریکی حکام اسطرح کے بیانات دیکر باطنی خباثت کا اظہار کرتے رہتے ہیں، وہ کسی بھی مسئلے کو سامنے رکھ کر بلیک میلنگ سے نہیں چوکتے، لیکن اب جبکہ کرونا وائرس امریکہ میں بھی ہے پوری آب و تاب سے پہنچ گیا ہے اور صدر ٹرمپ کے مبتلا ہونے کی خبریں بھی گشت کر رہی ہیں، کیا عالمی برادری اس بات کی توقع کر سکتی ہے کہ امریکہ بھی، امریکہ اور دوسرے ممالک میں موجود خفیہ اور آشکار ٹارچر سیلوں سے کرونا وائرس پھیلاو کیوجہ سے بے گناہ قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کر دے گا۔
 
خبر کا کوڈ : 849866
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش