3
3
Tuesday 31 Mar 2020 19:08

خدا کی مرضی

خدا کی مرضی
تحریر: ڈاکٹر سید جواد شیرازی
Mjawad99@yahoo.com

اس دنیا میں ہر جاندار کا رزق خدا کے ذمے ہے، چاہے وہ خدا کی اطاعت کرے یا معصیت کرے۔ صرف یہی نہیں ہر جاندار کے پیدا ہونے سے پہلے خداوند متعال اس کی خوراک کا اہتمام کر دیتا ہے، لیکن صرف انسان ہے، جو اپنی ضرورت سے زیادہ رزق جمع کرتا ہے اور بہت سے دوسرے انسانوں کی روزی کو بھی سمیٹ لیتا ہے۔ خدا نے ایک ایسا نظام وضع کیا ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے برابر رہیں۔ گندم کو  ایک عرصے کے بعد کیڑا لگ جاتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو سوچئے امیر لوگ ہزار سال کی گندم ذخیرہ کر لیتے، جبکہ غریب ترستا رہتا اور بھوکا مر جاتا۔ فروٹ ایک مدت کے بعد گلنے سٹرنے لگ جاتا ہے، تاکہ تمام انسانوں پر مساوی تقسیم ہو۔ انسانوں کو خدا نے زکواۃ دینے کا پابند بنایا، تاکہ غریب ہمیشہ غریب نہ رہے اور امیر ہمیشہ امیر نہ رہے، بلکہ دولت کی تقسیم جاری رہے۔ اس لیے سود لینے کو بھی حرام قرار دیا، تاکہ انسان ایک دوسرے کا استحصال نہ کریں بلکہ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد کریں، جبکہ انسانوں نے حکم خدا کی خلاف ورزی پوری دنیا میں شروع کر دی اور پوری دنیا کو سودی نظام میں جکڑ دیا۔ گندم ہر سال سمندر میں پھینک دی جاتی ہے، تاکہ گندم کا ریٹ اپنی جگہ ہر قائم رہے جبکہ افریقہ میں اور ایشیا میں ہزاروں بچے بھوک یا علاج نہ ہونے کے باعث اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

خدا نے ہر قوم کو عذاب سے پہلے کچھ نشانیاں دکھائیں، تاکہ ممکن ہے یہ قوم خدا کے عذاب سے بچ جائے، لیکن کچھ قوموں نے اس سے عبرت لی اور خدا نے عذاب ٹال دیا، جیسا کہ حضرت یونس کی قوم، جبکہ کچھ قوموں نے خدا کے عذاب کا تمسخر اڑایا، جیسا کہ قوم نوح (اور کہا ہم پہاڑ پر چڑھ جائیں گے یا ہم مٹی کے مٹکوں میں سوار ہو جائیں گے، اب ہم ایک موجودہ قوم اور اس کے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ خدا نے جن قوموں پر عذاب نازل کیا اور عبرت کے طور پر قرآن میں ذکر کیا، ان میں سے اکژ گناہ ہماری قوم میں پائے جاتے ہیں، لیکن ابھی تک ہماری قوم عذاب سے محفوظ رہی، جس سے ہماری قوم مسخ ہو جائے یا پھر ہلاک ہو جائے، لیکن کیا اس طرح اپنے گناہوں کو جاری رکھنا عقلمندی ہے یا پھر توبہ کرکے خدا کے عذاب کو ٹال دینا۔ ظاہر ہے توبہ واحد راہ حل نظر آتا ہے، جس سے قوم کا اکثر حصہ دور نظر آتا ہے۔

خدا نے قرآن میں ہم سے پہلے والی قوموں کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ لوگ جسمانی قوت اور آثار میں تم سے زیادہ طاقتور تھے، پھر بھی جب خدا نے چاہا انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ میں لے لیا، لیکن ہمارے زمانے کے سب لوگ اس ظاہری ترقی کو دنیا کی سب سے بڑی ترقی مانتے ہیں۔ کیا ہم نے ایسی کوئی بلڈنگ تیار کر لی ہے، جو احرام مصر سے زیادہ دیر تک اپنی اصلی حالت میں برقرار رہے گی یا پھر کوئی ایسی غذائیں تیار کر لی ہیں کہ جس کے نتیجے میں انسان 500 سال تک بغیر دوائی کھائے صحت مند زندگی گزار سکے۔ اگر نہیں تو ماننا پڑے گا کہ ہماری ترقی صرف تاریخ سے جہالت کی وجہ سے ترقی ہے، ورنہ قدیم لوگ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ تھے اور ہاں حضرت سلیمان کا ایک مصاحب جس نے پلک جھپکنے میں ملکہ بلقیس کا تخت حاضر کر دیا تھا، وہ بھی ایک ترقی یافتہ انسان تھا، جو اس زمین کے اسرار و رموز سے واقف تھا، ہم تو ابھی تک اس ٹیکنالوجی پر بھی نہیں پہنچے۔

خداوند متعال نے ایک بیماری کے ذریعے ہمیں متوجہ کیا ہے کہ ہم طبیعت پر ظلم کر رہے ہیں۔ در واقع ہم اپنی آنے والی نسلوں پر ظلم کر رہے ہیں، جنہیں صاف پانی اور ہوا میسر نہیں ہوگی۔ ہر وہ شخص جس کے پاس زیادہ دولت اور طاقت ہے، وہ دوسروں کی نسبت زیادہ دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ کر رہا ہے۔ ہم اس زمین کو اپنی ہوس اور طمع سے تباہی کے دھانے کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ حضرت نوح ایک ایسی جھونپڑی میں آرام کر رہے تھے، جس میں ایک آدمی پورا نہیں آسکتا تھا، آپ کی ٹانگیں اس جھونپڑی سے باہر تھیں تو ملک الموت نے پوچھا کیوں اتنی قناعت میں زندگی گزاری تو آپ نے فرمایا تمھارے انتظار میں رہا، جب آپ کو بتایا گیا کہ آخری نبی کی امت کی عمر ساٹھ برس ہوگی اور وہ ایسی عمارتیں بنائیں گے، گویا سو برس رہنا ہو تو حضرت نوح نے جواب دیا کہ اگر میری عمر اتنی ہوتی تو میں پوری عمر ایک سجدے میں گزار دیتا، خدا ہمیں بھی سجدے کرنے اور قناعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
سید جواد شیرازی نے اسلامی فلسفہ میں تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور آخرالزمان کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 853840
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

رضوان نقوی
Iran, Islamic Republic of
ما شاء اللہ شاہ جی، بہت اچھا مضمون ہے۔
سلامت رہیں۔
Pakistan
ما شاء اللہ بہت اچھی تحریر لکھی ہے۔
ghulam
Pakistan
ما شاء اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔
ہماری پیشکش