0
Thursday 7 May 2020 19:03

تحریک آزادی القدس

تحریک آزادی القدس
تحریر: غلام سرور سومرو
(اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان)


اگرچہ آُپ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ ان کا داخلی مسئلہ ہے، یہاں یہ مسئلہ الفتح اور اسرائیل کا مسئلہ ہے، جو کہ باتوں کے ذریعے حل ہو جانا چاہیئے تو آپ کا ضمیر گہری نیند میں سوگیا ہے۔ کیونکہ یہ عالمی دہشتگرد امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے ایک منظم اور مضبوط سازش کے تحت یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ جہاں عالمی دہشت گرد امریکہ نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تحفظ دینے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے ہیں، وہاں مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو محدود کرنے کے لئے بھی بھرپور گھناؤنی سازشیں کی ہیں، مثلاً ایک مخصوص فکر و سوچ کو ترویج دی گئی ہے، جس کے تحت یہ کہا گیا ہے کہ مسئلہ فلسطین نہ تو انسانیت کا مسئلہ ہے اور نہ ہے مسلم امہ کا مسئلہ ہے بلکہ یہ مسئلہ صرف اور صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا مسئلہ ہے اور پھر بتدریج اس مسئلہ کی نوعیت کو محدود کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ فلسطین کی ایک تنظیم الفتح اور اسرائیل کے درمیان ہے، جن کو آپس میں گفت و شنید کے ذریعے اسے حل کرنا چاہیئے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ مسئلہ صرف الفتح اور اسرائیل کے مابین ہے؟ یا یہ ایک عالمگیر اور انسانیت کا مسئلہ ہے۔؟

سازش کچھ اس انداز میں بھی ہوئی ہے، جو عام طور پر ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اکثر پڑھے لکھے اور باشعور لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اسرائیل کو 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلے جانا چاہیئے، تاکہ یہ مسئلہ ختم ہو جائے۔ لیکن یہاں بات 1967ء کی سرحدوں کی نہیں ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 1948ء سے قبل یا اس سے بھی زیادہ ماضی کی تاریخ میں چلے جائیں تو فلسطین نامی خطے میں کوئی اسرائیل نامی ریاست موجود تھی؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اسرائیل نامی کسی ریاست کا وجود ہونا ہی نہیں چاہیئے اور یہ ہے اس مسئلہ کا سیدھا اور آسان سا حل۔ اسرائیلی صیہونیزم دراصل یہودیوں میں ایک انتہاء پسند تنظیم کا نام ہے، جس کا ہدف صرف اور صرف پوری دنیا پر تسلط قائم کرنا ہے اور ایک عالمی حکومت کا قیام ہے، جس کی باگ ڈور صیہونیوں کے ہاتھوں میں ہو۔ صیہونی نہ صرف عالم اسلام کو ہڑپ کرنے کے درپے ہیں بلکہ انہوں نے یہ منصوبہ سازی کی ہے کہ پہلے عیسائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے ممالک پر تسلط قائم کرو اور پھر بعد میں عیسائیوں کو بھی ختم کر دو۔

صیہونی اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی حد کو پار کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر 1948ء میں دیکھیں کہ کس طرح 15 مئی 1948ء کو صیہونیوں کی ایک دہشت گرد تنظیم ’’ہگانہ‘‘ نے ہزاروں فلسطینیوں کو انتہائی سفاکانہ انداز میں صرف اس لئے قتل کر دیا کہ وہ فلسطین کے باشندے ہیں۔ لہذٰا فلسطینیوں نے اس دن کو ’’یوم نکبہ‘‘ یعنی بہت بڑی تباہی و بربادی کا دن قرار دیا ہے۔ اسی طرح صیہونیوں کے مظالم اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی اور بھی مثالیں موجود ہیں، جن میں صبرا و شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں میں بدترین اسرائیلی گولہ باری ہے کہ جس میں سینکڑوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اسی طرح 1982ء میں لبنان پر صیہونی فوجوں کا قبضہ، جس کو بعد میں حزب اللہ لبنان کے مجاہدین نے مقاومت کی مدد سے 2000ء میں لبنان کو صیہونیوں کے چنگل سے آزاد کروا دیا۔ اسی طرح 2006ء میں لبنان پر صیہونی فوجوں کا دوبارہ حملہ اور پھر 2008ء میں غزہ پر حملہ، غزہ کا پانچ سالہ محاصرہ اور پھر کاروان آزادی ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ پر دہشت گردانہ حملوں سمیت متعدد ایسی وارداتیں موجود ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صیہونیت صرف کسی ایک خطے یا کسی ایک ملک کی نہیں بلکہ عالم اسلام اور پوری انسانیت کی دشمن ہے۔

اس لئے آج عالمی ضمیر کی بیداری اور ان کا شعور اس بات پہ ایمان رکھتا ہے کہ مسئلہ فلسطین دور حاضر میں زندہ رکھنا ایک ایسا فریضہ ہے، جس سے کوتاہی دراصل اسلام سے خیانت کے مترادف ہے۔ مسئلہ فلسطین کی اہمیت و نوعیت کو عالمی استعمار امریکہ و اسرائیل اور دیگر عالمی قوتوں نے ایک سازش کے تحت محدود کرنے اور دنیا کی توجہ فلسطین و القدس سے منحرف کرنے کی جو گھناؤنی سازشیں کی ہیں، ان میں سے ایک بڑی اور اہم ترین سازش مسئلہ فلسطین و القدس کی اہمیت کو کم سے کم کرکے بیان کیا جانا ہے۔ مثال کے طور پر جب دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر سرزمین القدس پر جمع کیا گیا اور عربوں کی سرزمین یا جسے انبیاء و اسرایٰ کی سرزمین کہتے ہیں (فلسطین ) میں لا کر بسایا گیا اور بالآخر 1948ء میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود عمل میں آگیا۔ اس کے بعد عالمی دہشت گرد امریکہ اور غاصب اسرائیل کی سرپرست یورپی قوتوں نے دنیا بھر کو اس مسئلہ کو فقط فلسطینیوں اور یہودیوں کے مابین ایک مسئلہ قرار دیتے ہوئے کوشش کی کہ اس مسئلہ کی طرف سے دنیا کی توجہ منحرف کی جائے۔

دراصل سرزمین فلسطین پر قائم ہونے والی غیر قانونی اور دہشت گرد ریاست اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے عالمی دہشت گرد امریکہ نے ہر ممکن کوشش کی اور جس خطے میں اسرائیل نامی ناجائز ریاست کا وجود عمل میں آیا، وہاں کا جغرافیائی مطالعہ کیا جائے تو نہر سوئز جیسے اہم راستے اس کی جغرافیائی حدود کی اہمیت کو مزید بڑھاتے ہیں۔ تاہم اسی اہمیت کے حامل خطے میں صیہونی ریاست کا وجود بھی اسی سازش کے تحت وجود میں آیا ہے، تاکہ خطے کے تمام تر معاملات کو کنٹرول کیا جا سکے اور غاصب اسرائیل کے ناجائز وجود کے بعد سے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی بات منظر عام پر آنا صیہونی دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کی نشاندہی کرتا ہے۔ صیہونی دہشت گردوں کی جانب سے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ یعنی نیل سے فرات تک اسرائیل کی سرحدیں، اس بات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف عرب فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ہے؟ یقیناً ہرگز نہیں!! دوسری جانب مسلم امہ کا قبلہ اول بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) پر اسرائیلیوں کا غاصبانہ قبضہ،  مسجد اقصیٰ کی توہین اور بالخصوص 21 اگست 1969ء میں یہودی انتہا پسندوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کئے جانے سمیت متعدد مرتبہ قبلہ اول کے تقدس کو پامال کیا جاتا رہا ہے۔ القدس (یروشلم) میں مسلمانوں کی 3000 مقدس مقامات موجود ہیں، جن کو غاصب اسرائیل نابود کرنا چاہتا ہے۔

رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا ہے اور اس ماہ مبارک میں ہر مسلمان روزہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہے اور ہر مظلوم و دکھی انسان کی خدمت کروں گا۔ یقیناً اس ماہ مبارک کی برکتوں سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیئے اور اس ماہ مبارک رمضان میں فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام کو نہیں بھولنا چاہیئے اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو بھی اپنی دعاؤں اور زندگی میں یاد رکھنا چاہیئے اور القدس کو ہر صورت زندہ رکھنا چاہیئے۔ فلسطین کا مسئلہ اسلامی مسائل میں سرفہرست مسئلہ ہے، جس کو اہمیت دینی چاہیئے۔ ایک زمانہ تھا، جب اسرائیل کا منحوس وجود فلسطین کی سرزمین پر آیا اور فلسطین اس مشکل کا شکار ہوا ہے۔ پاکستان میں موجود اسلامی تحریکیں جو کہ کسی بھی مسلک اور مکتب سے ہیں، انہیں تمام مفادات سے بلاتر ہوکر اس بات پہ آمادہ ہو جانا چاہیئے کہ جمعۃ الوداع کو یوم القدس کو اسلامی بیداری سے منانا چاہیئے اور اس روز ریلیوں، جلسوں اور سیمینارز، کالم نگاری، سوشل میڈیا پہ فلسطین کے حق میں نعرہ بلند کرکے استکبار، غاصب ریاست اسرائیل اور امریکہ کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کرکے اعلان بیزاری کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 861333
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش