1
Thursday 14 May 2020 16:09

سیرت علی ابن ابو طالب علیہ السلام

سیرت علی ابن ابو طالب علیہ السلام
تحریر: عبدالحسین آزاد

علی ابن ابو طالب ؑ بعد نبی اکرم حضرت محمد ﷺ دنیا کی افضل ترین ہستی ہیں۔ آپ کی فضلیت کے لیے صرف یہی کافی ہے کہ آپ کا اسم مبارک حکم خدا سے خود جناب رسالت مآب ﷺ نے رکھا۔ آپ نے دنیا میں سب سے پہلے جس عظیم و نورانی چہرے کا دیدار کیا وہ نورانی چہرہ مبارک رحمت العالمین ﷺ کا تھا۔ آپ کی فضیلت اسی میں ہے کہ آپ رسول اکرم کے داماد ہیں، شہزادی کونین کا انتخاب خدا نے آپ کے لیے کیا، وہ شہزاد ی، فرشتے آپ کی شان میں مدح کرتے ہیں، جبرئیل آپ کے در پہ آتے ہیں اور اسرافیل آپ کے گھر میں داخل ہونے سے قبل اجازت طلب کرتے ہیں۔ شان علی، فضائل علی کا بیان کسی کے بس میں نہیں، علی ؑ فضائل و کرامات و معجزات کا مجموعہ ہیں۔ آپ نے اُس کمسنی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا جب مدینہ میں رسول کا کوئی ساتھی و جانثار نہیں تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فضائل علی کو مٹانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی، ممبر و محراب سے علی کی دشمنی کو عام کیا گیا، مگر پھر بھی علی ؑ کے فضائل کا پرچار سرعام ہوگیا، دنیا میں علی ؑ ابن ابو طالب سے جس قدر دشمنی اختیار کی گئی تاریخ میں کسی دوسرے کے ساتھ ایسی دشمنی نہیں ملتی۔

علی ؑ کے فضائل اور ذکر علی ایمان میں پختگی کا باعث ہیں، ذکر علی اور زیارت علی ؑ عین عبادت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں۔ "حضرت ابوبکرؓ بڑی کثرت کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کے چہرے کو دیکھتے رہتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓنے ان سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے''۔1 اسی طرح ایک اور روایت ہے: ''حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "حضرت علی ؑ کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے''۔ 2 ایک اور حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اے علی تجھ سے محبت وہی کرے گا جس کی ولادت طاہر ہو گی اور بغض اور دشمنی وہی رکھے گا جس کی ولادت ناپاک ہو گی۔ 3 علی کی شان اور فضائل آج ممبر و محراب سے بکثرت بیان کیے جاتے ہیں، علی کا ذکر عبادت ہے یقینا بیان کیا جانا چاہیئے، کمالات علی ابن ابو طالب کے ساتھ موجودہ دنیا کو، معاشرے کو، سیرت علی ابن ابو طالب ؑ کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سیرت علی ؑ سے آشنا نہیں ہیں اور سیرت علی ؑ پر عمل کرتے ہوئے بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔

سیرت علی ؑ میں زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبہ حیات کے رہنما اصول موجود ہیں، ایک شہری کی حیثیت سے علی ؑ کی سیرت کیا تھی، علی ؑ نے اپنی زندگی کیسی گزاری، ظاہری خلافت اور حکومت آپ ؑ نے کیسے انجام دی، علی ؑ کی عدالت کے اصول کیا تھے، علی ؑہمسائیوں کے  حقوق کا کس درجہ خیال رکھتے تھے، علی ؑ کو یتیموں، مسکینوں اور محتاجوں سے کس قدر پیار تھا، رات کو خلیفہ وقت اپنی پیٹھ پر لاد کر روٹی یتیموں اور مسکینوں و ضرورت مندوں تک پہنچا دیتے تھے، 18رمضان کی افطار کے لیے امام اول ؑ حضرت ام کلثوم  سلام اللہ کے ہاں تھے، بیٹی نے باپ کے لیے تین چیزیں افطار کے دسترخواں پر سجائیں، امام علی ؑ بیٹی سے مخاطب ہوئے، بیٹی کلثوم آپ کے بابا نے کبھی تین چیزوں سے افطار نہیں کیا ایسا کرو ان میں سے ایک چیز اٹھا لو، جناب کلثوم نے نمک دسترخوان سے ہٹایا تو علی ؑ نے فرمایا بیٹی کلثوم نمک رہنے دیجئے دودھ کو دسترخوان پر سے اٹھایئے۔ یوں علی ابن ابی طالب ؑ نے آخری افطار نمک اور روٹی سے فرمایا۔

حضرت علی ؑ جانتے تھے کعبہ سے شروع ہونے والا یہ سفر ظاہری طور پر آج نماز فجر کے وقت محراب مسجد کوفہ میں اب اختتام کے قریب ہے، علی ؑ کی تمنا اب پوری ہونے والی ہے۔ رسول اکرم و شہزادی کونین علی ؑ کے منتظر ہیں، بس سجدے کی حالت میں جب آپ کے سر اقدس پر ضرب لگی تو آپ نے یہی فرمایا، ''رب کعبہ کی قسم میں علی کامیاب ہوگیا'' علی ؑ کے زخمی ہونے سے شہادت تک کی خبر کوفہ کے گلی کوچوں میں پھیل گئی، یہاں اس بات پر غور کیا جائے علی ؑکے زخمی ہونے کی اطلاع کوفہ والوں کو کس نے دی، مسجد و محراب سے اعلان نہیں ہوا، نہ ہی گلی محلوں میں اعلانات ہوئے کہ اے لوگو! مشکل کشاء علی المرتضٰی زخمی ہوئے ہیں، شہید ہوئے ہیں، بلکہ خبر غم خود کوفہ کی گلیوں، گھروں سے آنے لگی، کوفہ کے یتیم، مساکین، غربا ء، فقیر، گھروں اور گلیوں میں آکر رونے لگے، بچے تڑپنے لگے کہ وہ ہستی آج دو، تین دنوں سے ہمیں کھانا، دودھ نہیں لا رہی ہے، ہم بھوکے ہیں، کبھی رات کو ہم بھوکے نہیں سوئے تھے آج وہ ہستی نہیں، شائد کوئی حادثہ ہوا ہوگا۔ علی ؑ رات کی تاریکیوں میں کوفہ کی گلی و محلوں میں کھانا لے جاتے اور دروازے پر دستک دیتے اور چلے جاتے، مساکین و غرباء کو خبر تک نہ ہوتی کہ کون ہے جو کھانا رکھ کر چلا جاتا ہے۔

بس انہیں اتنا معلوم تھا کہ جوں ہی دروازے پر دستک ہوتی کھانا پہنچنے کی اطلاع ان تک پہنچ جاتی، اور وہ دہلیز پر سے کھانا اٹھا لیتے، یتیم بچوں کو علی ؑ اپنے ہی ہاتھوں سے کھانہ کھلایا کرتے تھے، آج سب در و دیوار سے لگ کر منتظر ہیں، تین دنوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں، کوفہ کے یہ باسی خود بھی ڈھونڈھنے سے قاصر تھے کہ کیونکہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ کون ان تک کھانا پہنچا رہا تھا۔ افسوس آج مسجد و محراب، ممبر سے یہ مقصد پورا نہیں ہو رہا۔ آج مقصد علی ؑ، مقصد ولایت و امامت سے آج کے ممبر محروم کردیئے گئےہیں، مگر ہمیں احساس تک نہیں، آج دنیا کو علی ؑ کی سیرت کی ضرورت ہے، اس پر عمل کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں امن قائم ہو، انصاف کا بول بالا ہوگا۔ آپ کا فرما ن مبارک ہے، "خدا کی قسم! اگر مجھے ایسا مال کہیں بھی نظر آیا جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صَرف کیا جا چکا ہو گا تو میں اُسے واپس پلٹاؤں گا کیونکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں وسعت ہے"؛ 4 کرونا کے اس دردناک وقت میں لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھیں، یہی سیرت علی ؑ ہے۔ علی ؑ کے سامنے دنیا کی حیثیت یہ تھی آپ نے فرمایا، "تمہاری دنیا میرے نزدیک بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتناء ہے۔"5

علی ؑ کی حکومت روئے زمین پر بہترین حکومت تھی جہاں ہرا یک کو اس کا حق ملتا تھا، آپؑ کا فرمان ہے۔ "تمہارا حق مجھ پر ہے کہ میں تمہاری خیرخواہی پیشِ نظر رکھوں اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصّہ دوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو اور اِس طرح تمہیں ادب کروں تاکہ تم سیکھنے لگ جاؤ۔"6 ایک اور مقام پر آپ کا فرمان ہے کہ "ظالم کی شکم پُری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں گے۔" 7 کاش مسجد و محراب سے سیرت علی ؑ اور نظام ِحکومتِ علی ؑ بیان کیا جاتا اور مسلمان علماء، اسکالرز، مفکر طرز حکمرانی کے لیے یورپی کھوکھلے پن والے نظام کی جگہ نظام حکومت علی ابن ابوطالب پر ریسرچ کرکے رائج کرتے تو آج دنیائے اسلام کی ریاستیں بہترین معاشی، اقتصادی، معاشرتی، انتظامی، بہبودی اور عدالتی نظام کے ساتھ طاقتور ترین ریاستیں ہوتی۔ خدا ہم سب کو ذکر علی ؑ کے ساتھ سیرت علی ؑ پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منبع و مآخذ:
1۔ (الصواعق المحرقہ، 177)
2۔ المستدرک للحاکم، 3: 141 -,142 المعجم الکبیر للطبرانی، 10: 77، ح، 32895،فردوس الاخبار للدیلمی، 5: 42، ح:,1717 کنز العمال، 11: 60، ح:,32895 مجمع الزوائد، 9: 111، 119
3۔ (ینابیع المودۃ باب، 44 جلد 1صفحہ397)۔
4۔ (نہج البلاغہ، سید رضی، ترجمہ: محمد دشتی، خطبہ نمبر۱۵، ص۴۶)،
5۔ (نہج البلاغہ، سید رضی، ترجمہ: محمد دشتی، خطبہ نمبر۳، ص۴۸)
6۔ (نہج البلاغہ، سید رضی، ترجمہ: محمد دشتی، خطبہ نمبر۳۴، ص۸۶)
7۔ (نہج البلاغہ، سید رضی، ترجمہ: محمد دشتی، خطبہ نمبر۳، ص۳۸)
خبر کا کوڈ : 862745
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش